فلسطین اور افغانستان کے واقعات


جس رات بیت المقدس میں فلسطینیوں پر نماز کے دوران حملہ کیا گیا اور فلسطین کے نہتے نمازیوں کو ایک جنونی نے زخمی کیا۔ اس دن کابل کے ایک سکول کے باہر بھی ایک جنونی نے زوردار دھماکہ کیا اور طالبات سمیت تیس افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ ہمارے سیاسی اور مذہبی حلقوں نے فلسطین کے لئے مذمت اور حمایت کے بیانات تو یک کے بعد دیگرے جاری کیے لیکن کابل کے واقعے پر چپ سادھ لی۔ ہمارے مسلمانی کے معیارات ملک اور قوم کے حوالے سے کیوں بدل جاتے ہیں۔

کابل والے ٹھیک ہے افغانی سہی پشتو یا دری بولنے والے ہوں، ہیں تو مسلمان، مسلمان ہونے کے ناتے ایک دو بول ان کے لئے بھی بولتے اور ان پر ہونے والے دہشت گردانہ عمل کی مذمت کرتے جیسا کہ جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق صاحب نے فلسطینیوں کے حوالے سے بڑے دھڑلے سے اپنا مطمح نظر بیان کیا اور بالکل ان ہی لفظوں سے ملتا جلتا بیانیہ جمعیت علمائے اسلام کے جناب فضل الرحمان نے بھی جاری کیا جس میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کو قابل مذمت گردانا گیا۔

ابھی ابھی جمعہ الوداع گزرا ہے ہر مسجد اور مدرسہ میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے مخالفت میں ممبر و محراب سے آوازیں اٹھیں، یوم القدس منایا گیا جو کہ اچھی بات ہے اور ہونا بھی چاہیے تھا فلسطینی بھائیوں کے لئے۔ لیکن ہماری ترجیحات اسلام اور مسلمانی کے ناتے کیوں بدل جاتی ہیں۔ کیا افغانستان کے لوگ مسلمان نہیں؟ ان کا خون ناحق، خون ناحق نہیں؟ کیا ہمارے ممبر اور محراب اسلام اور مسلمانی میں تفریق سکھاتا ہے؟

کیا مسلموں اور مسلمین کے معنی اور مطالب ملکوں اور نسلوں کے مابین بدل جاتے ہیں؟ ہم تو اپنے دیرینہ دشمن ملک انڈیا کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں کے ہر دکھ اور خبر کی خبر لیتے ہیں تو یہ پھر کون سی چیز ہمیں اپنے برادر اسلامی ملک کے لوگوں پر مظالم کے خلاف بولنے سے منع کرتے ہیں۔ اب تو ہمارے علماء اور راہنماؤں کی ذمہ داری اور بھی بڑھتی ہے، امریکہ وہاں سے نکل رہا ہے۔ طالبان امریکی ایماء پر ایک اچھی پوزیشن میں ہیں اگر وہ اپنے سابقہ چھ سالہ دور حکومت میں پورے افغانستان میں امن قائم کرنے کے مثال قائم کر چکے تھے تو اب امن قائم کرنے میں کون سی چیز آڑے آ رہی ہے۔

طالبان کا امن لانے سے وہاں کے عوام کے دل جیت سکتے ہیں اور حکومت کے عمل میں شامل بھی ہوسکتے ہیں لیکن اگر اس طرح ان پر دہشت گردی کے الزامات لگتے رہے اور وہ ان کی ذمہ داری قبول کرتے رہیں تو پھر عوام میں شاید بندوق کے زور پر اپنا حکومت تو قائم کرسکے لیکن محبت اور بھائی چارے کے حکمت عملی سے نہیں جو کہ اصل وتیرہ ہی امن اور بھائی چارہ رہا ہے۔ یہ میرا ایک تسلسل کا مشاہدہ رہا ہے کہ جمعے کی خطبوں میں سارے مسلمانوں کے لئے دعا کی جاتی ہے لیکن افغانستان کے مسلمانوں کے لئے ایسا کوئی لفظ یا نقطہ کار خیر نہیں ہوتا کہ جس پر اجتماعی امین کہہ سکے۔

بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مسجد و مدرسہ کے باہر بڑے بڑے بالوں والے جہادی چادریں پھیلائیں افغان جہاد کے نام اب بھی عوام سے چندا مانگ رہے ہوتے ہیں تو پھر زرا غور کریں کہ عوامی سوچ کیسے افغانستان کے حوالے سے عموماً اور افغانیوں کے حوالے سے خصوصاً ً بدلے گا کیونکہ عوام کا تعلق مسجد سے پانچ وقت کے علاوہ جمعہ اور عیدیں میں بھی ہوتا ہے اور جب یہ عمل آئے دن ان کی نظروں سے گزرے گا تو کیسے یقین کریں گے کہ یہ جو آج کشت و خون کی جو ہولی کھیلی جا رہی ہے یہ جہاد نہیں بلکہ اپنے مسلمان بھائی کا قتل اور خون ناحق بہانا اور فساد فی الارض کا پھیلانا ہے۔

میرے خیال سے سیاسی طور پر جو پاکستان کا موقف رہا ہے وہ بہت واضح ہے دہشت گردی کے حوالے سے اور دہشت گردی کے خلاف اور ہمیشہ افغانستان میں امن کو پاکستان میں امن سے مشروط کیا ہے۔ آپریشن بھی کیے، عوامی اور فوجی جانی مالی نقصان بھی اٹھایا، چھاؤنیاں، سکولز، کالج، یونیورسٹیاں، بازار، ہسپتال، مساجد، مدرسے، قبرستان، بس اڈے، ریلوے سٹیشن، ائرپورٹس غرض ایسی کون سی جگہ ہے جو دہشت گردی کا شکار نہ رہی ہو۔ آخر میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان خاردار تار کی باڑ بھی لگانی پڑی لیکن پھر بھی ایک دوسرے پر اعتماد کا وہ فضا قائم نہ کرسکے جو ہونا چاہیے تھا۔

وجہ یہ کہ جب تک ایک چیز یا بیماری کو جڑ سے ختم نہ ہو وہ کسی بھی وقت پھر سے سر اٹھاتی ہے اور دہشت گردی بھی ایسی ہی ایک بیماری کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ اس کو جھڑ سے ختم کرانا ہی اصل علاج ہے یہ عارضی علاج یا مرہم پٹی اس کا قطعی اور دیرپا نہ علاج ہے اور نہ روک تھام۔ یہ تو کرونا وبا سے بھی بڑھ کر ہے۔ اب تک کرونا سے کوئی بھی ایک جھٹکے یا ایک ہی لمحے تیس تیس یا پچاس پچاس لوگ نہ مرے ہیں اور نہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں لیکن دہشت گردی اور بوم بلاسٹ ایک ہی لمحے میں یہ سب کچھ ممکن بنا دیتا ہے اگر اس دہشت گردی کو کرونائی فارمولے سے ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا جائے تو نتیجہ دیکھیں کیا نکلتا ہے لیکن اس کا ویکسینیشن نہیں ہونا چاہیے ورنہ خاتمے سے تدارک کا ریشو بڑھنے لگے گا جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments