لاہور میں ایک چرچ کی فتح: سقوط ڈھاکہ کا قرض ادا ہو گیا


لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں مسلمان نرسوں نے ایک چرچ پر قبضہ کر لیا۔ اور اس عظیم فتح کے بعد اس میں بیٹھ کر نعتیں پڑھیں۔ ادارے کا نام پڑھ کر پہلے یہ خیال آتا ہے شاید کچھ ذہنی مریضوں نے یہ دھاوا بولا ہو گا۔ لیکن بار بار تفصیلی خبر پڑھنے سے تصدیق ہو گئی کہ یہ کارنامہ ذہنی مریضوں نے نہیں بلکہ ان نرسوں نے سرانجام دیا تھا جن کا کام ان مریضوں کی نگہداشت کرنا ہے۔ خدا جانے جب یہ نرسیں فتح و ظفر کے جھنڈے گاڑ رہی تھیں اس وقت ان مریضوں کی نگہداشت کون کر رہا تھا؟ اس کے بعد ان فسادیوں نے ایک جلوس بھی نکالا۔ اور ویڈیو سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ جلوس بھی ہسپتال کے احاطے میں نکالا گیا تھا۔ گویا محمود غزنوی کی یاد تازہ کردی۔ ہم 1971 میں اپنا آدھا ملک تو نہیں بچا سکے لیکن اس کے بعد مختلف عبادت گاہوں پر قبضے کر کے اس نقصان کے ازالہ کی کوشش تو کرتے رہے ہیں۔

اب ایسا بھی نہیں کہ کسی نے کچھ بھی نہ کیا ہو۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے ان حملہ آور نرسوں کو پیار سے سمجھایا۔ دلاسے دیے۔ شاید کچھ پچکارا بھی ہو۔ اور پنجاب حکومت نے بھی کئی روز تک صورت حال پر گہری نظر رکھی۔ شاید پنجاب حکومت اور ہمارے قابل وزیر اعلیٰ مسمریزم یا علم توجہ سے ان مجاہد نرسوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ انہوں نے لب کشائی کر کے منہ سے تو کچھ فرمانے کی زحمت نہیں کی۔ اور آخر میں قوم کے منہ میں یہ لالی پاپ ڈال دیا گیا کہ ہم نے بات چیت سے مسئلہ حل کر لیا ہے۔ اور فریقین اس بات پر آمادہ ہو گئے ہیں کہ وہ اس پر مزید بیان بازی نہیں کریں گے۔

جہاں تک مسیحی برادری کا تعلق ہے تو یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ اس پر بیان بازی نہیں کریں گے۔ وہ ان مسلمان نرسوں کی طرح اتنا بے خبر تو نہیں ہیں کہ انہیں یہ بھی علم نہ ہو کہ ان پر کسی قسم کا ظلم بھی ہو لیکن توہین مذہب کی دفعات کی تلوار ان پر بہر حال لٹکتی رہے گی۔ کوئی بھی تھانے جا کر ان کے خلاف پرچہ کٹا سکتا ہے۔ اور پھر وہی پرانی تاریخ دہرائی جائے گی۔ وہی تاریخ جو بار بار اور ہر بار دہرائی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان نرسوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ ان کو کیا سزا دی گئی؟ کیا ان نرسوں کے لائسنس منسوخ کیے گئے۔ کیا انہیں ملازمتوں سے برطرف کیا گیا؟ کیا اس طرح کا دنگا فساد کرنے والی خواتین کو اس بات کی اجازت دی جا سکتی ہے وہ نرسنگ جیسے شعبہ میں اپنی خدمات جاری رکھ سکیں۔

غالب امکان یہ ہے کہ جب ذہنی امراض کے اس ہسپتال میں یہ طوفان برپا تھا تو اس وقت وہاں پر موجود مریض اپنے آپ کو طبیب اور عملہ کو ذہنی مریض سمجھ کر یہ مشورے کر رہے ہوں گے کہ ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو صحیح الدماغ سمجھنے کی سنگین غلطی کر رہے ہیں کس طرح سمجھایا جائے۔ شاید چند ایک دو نے رضاکارانہ طور پر اپنی دوائیاں بھی ان کے آگے رکھ دی ہوں کہ یہ کھا لو کچھ افاقہ ہو جائے گا۔

کیا یہ اس طرح کا پہلا واقعہ ہے؟ ہر کچھ عرصہ بعد اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں اور ہمیں یہ تسلی دی جاتی ہے کہ ہم نے صورت حال پر قابو پا لیا ہے۔ اگر حکومت نے اس صورت حال پر قابو پایا ہوتا تو آج کسی نرس کی یا کسی اور شخص کو یہ جرات ہی نہ ہوتی کہ اس قسم کی قانون شکنی کرے۔

اگر صاحب اقتدار طبقہ اجتماعی نسیان کا شکار نہیں ہو گیا تو انہیں یاد ہو گا 2014 میں پشاور چرچ میں دھماکے اور اس قسم کی شکایات پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا۔ میری صاحبان اقتدار سے گزارش ہے کہ اس تفصیلی فیصلہ کا آخری صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ اس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت پاکستان کو جو ہدایات دی ہیں ان میں سے نمبر 5 ہدایت یہ تھی:

” ایک مخصوص پولیس فورس تشکیل دی جائے جسے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لئے پیشہ وارانہ تربیت دی گئی ہو۔“

سوال یہ ہے کہ جب یہ واقعہ ہو رہا تھا تو اتنے روز تک یہ فورس کیا گہری نیند سو رہی تھی؟ اگر آپ صوبائی دارالحکومت میں ان واقعات کو نہیں روک سکتے تو باقی صوبے کا خدا ہی حافظ ہے۔ کیا اس فورس کو یہی ٹریننگ دی گئی تھی کہ جب کسی چرچ پر حملہ ہو رہا ہو تو تم دور کھڑے ہو کر حالات کا بغور جائزہ لیتے رہنا۔ اور ہاتھ تک نہ ہلانا۔

گزشتہ ماہ یورپین پارلیمنٹ نے پاکستان کے بارے ایک قرارداد منظور کی۔ اس قرارداد کا ایک جملہ یہ تھا

Calls on the Government of Pakistan to unequivocally condemn incitement to violence and discrimination against religious minorities in the country

ہم پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غیر مبہم انداز میں ملک میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کی مذمت کرے۔

پاکستان کی حکومت نے فوری طور پر اس قرارداد کو مسترد کر دیا تھا۔ اور یہ بیان جاری کیا تھا کہ ہم مغرب سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ اور اپنی تعریف میں خود ہی بیان جاری کر دیا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں۔ جیسا واقعہ لاہور کے اس ہسپتال میں ہوا ہے، کیا اس سے پاکستان کا موقف صحیح ثابت ہوتا یا ہم خود ہی دنیا میں اپنا تماشا بنا رہے ہیں۔ اگر آپ مغرب سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لے سکتے تو کیا اپنے آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔ اور کیا حکومت خود اپنے ملک کی سپریم کورٹ کی ہدایات کی پیروی بھی نہیں کر سکتی۔

وزیر اعظم عمران خان صاحب نے یورپین پارلیمنٹ کی قرارداد کے بعد ملک کی کابینہ کا اجلاس طلب کیا۔ اور اس اجلاس کے بعد یہ بیان جاری کیا کہ حکومت ختم نبوت کے قوانین کے بارے میں کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے آئین میں ختم نبوت کا ذکر یا تو صدر اور وزیر اعظم کے حلف ناموں میں ہے یا پھر دوسری آئینی ترمیم میں ہے۔ اور یورپین پارلیمنٹ کی اس قرارداد میں نہ تو ان حلف ناموں کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور نہ ہی دوسری آئینی ترمیم کو ختم کرنے کا کوئی مطالبہ شامل تھا۔ اس قرارداد میں 295 بی اور سی میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا تھا اور دونوں کا تعلق ختم نبوت سے نہیں ہے۔

پاکستان کا ایک آئین ہے۔ شاید حکومت کو اس بات کا علم ہو کہ اس آئین کی شق 20 یہ ہے :
قانون امن عامہ اور اخلاق کے تابع :
الف۔ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے اور اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا اختیار ہوگا۔

ب۔ ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، برقرار رکھنے اور ان کا انتظام کرنے کا اختیار ہوگا۔

چرچ مسیحی احباب کا ایک مذہبی ادارہ ہے۔ اور آئین میں اس کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ اور یہ ان کا نا قابل تنسیخ حق ہے جسے پارلیمنٹ بھی ختم نہیں کر سکتی۔ لیکن ہماری حکومت اتنی بے بس تھی کہ وہ چند نرسوں کی یلغار کے سامنے اپنے آئین کا دفاع بھی نہیں کر سکی۔ وزیر اعظم صاحب ہر دوسرے دن تو یہ بھاشن دیتے ہیں کہ قانون کا اطلاق ہر ایک پر یکساں ہونا چاہیے۔ تو پھر چرچ پر قبضہ کرنے والوں پر قانونی گرفت کیوں نہیں کی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments