چپ رہنا بھی ظالم کی حمایت ہے


دنیا کی چند ہی جگہیں اپنے ساتھ سیاہ بخت لائی ہیں۔ ان جگہوں پر موت صبح شام رقصاں ہے۔ کشمیر ہو یا فلسطین ہر دن بے گناہوں کا ناحق قتل ہوتا ہے۔ ان جگہوں میں ان گلوں کو لگاتار مسلا جا رہا ہے جو ابھی بہار میں ٹھیک سے کھلے بھی نہیں تھے۔ یہ ازل سے ہوتا آیا ہے کہ مظلوم پر ہمیشہ ظالم نے ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ وہ اپنی جابرانہ قوت سے مظلوم کے وسائل کو تباہ و برباد کرتا ہے، عزت و آبرو کو تار تار کرتا ہے، تنگ کرنے اور اذیت دینے کے ہزاروں حربے اپناتا ہے۔

اس کی جان لینے کی تدبیریں اور بہانے بناتا ہے، مال کو لوٹ لیتا ہے، اس کو مختلف الزام دے کر پابند سلاسل کرتا ہے، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کرتا ہے۔ جو صاحب قوت یہ سب دیکھ کر چپ رہتا ہے وہ اس ظلم میں برابر کا شریک ہے۔ کشمیر ہو یا فلسطین ہر دن ظلم کی انتہا ہوتی ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالیوں کو دیکھ کر باقی ماندہ دنیا نے چپ سادھ لی ہے۔ پتا نہیں ان معصوم بے گناہوں کو کن خطاؤں کی سزا مل رہی ہے کہ یہ جرم بے گناہی کی سزا اپنے اور اپنے عزیزوں کی جان دے کر چکا رہے ہیں۔

سیاہ کار اور بدکار قوموں پر اللہ کا عذاب اجتماعی طور آیا تھا۔ شاید کشمیری اور فلسطینی گناہ گار، بدکار اور سیاہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ سیاہ نصیب بھی ہیں کہ ان پر اجتماعی عذاب نازل ہونے کے علاوہ انفرادی عذاب بھی جاری ہے۔ ہر روز صبح و شام ان جگہوں پر جوانوں کے جنازے اٹھ رہے ہیں۔ مختلف قسم کے لیبل لگا کر انہیں قتل کیا جاتا ہے۔ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کا اصل اطلاق ان ہی پر ہوتا ہے۔ بے گناہوں کا خون بارش کے قطرے نہیں کہ آسانی سے زمین میں جذب ہو جائے۔

روز محشر یہ بے گناہ ضرور اپنے قتل کا سبب پوچھیں گے اور قاتل کا گریبان پکڑ کر ان سے سوال ضرور کریں گے کہ ہمیں کیوں مارا۔ نہ صرف قاتلوں سے پوچھ گچھ ہوگی بلکہ ان تمام مسلمان علماء، سربراہان اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز اشخاص سے بھی سوال ہوگا جنہوں نے چپ رہ کر ظالم کو اور قوت عطا کی ہے۔ آخر کب تک بے گناہوں کا خون یوں ہی سڑکوں، مساجد، پگڈنڈیوں، راستوں، چوراہوں پر بہایا جائے گا۔ یہ زمین اور کتنا خون مانگ رہی ہے اس کا چپا چپا تو بے گناہوں کے خون سے سرخ ہو گیا ہے۔

غیر قوم کا کبوتر بھی مر جائے تو دو منٹ کی چپ سادھ لینے کے ساتھ ساتھ وہ واویلا مچاتے ہیں، میٹنگیں کرتے ہیں، تنظیمیں بناتے ہیں لیکن مسلمان قوم کے معصوم اور بے گناہوں کے قتل عام پر سب خاموش ہیں۔ گلہ اپنوں سے ہے۔ کاغذوں پر تو بڑی بڑی تنظیمیں ہیں لیکن عملی طور پر ساکت اور خاموش۔ ظلم کے خلاف چپ رہنا بھی ظلم ہے۔ چپ رہ کر ظالم کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور وہ شدت سے اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے۔ جس میں برابر کے شریک وہ مسلم رہنما اور ممالک کے صدور، تنظیموں کے عہدے دار بھی ہیں جو گونگے بہرے بن کر تماشا دیکھ رہے ہیں۔

ان عہدے داروں کی بے حسی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ کسی یہود و نصاری کے ایک فرد کے ساتھ اگر ہلکی سی بھی زیادتی ہو جاتی ہے آسمان سر پر اٹھایا جاتا ہے۔ مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے، مساجد تک کو نہیں بخشا جا رہا ان عبادت گاہوں کو مظلوم مسلمانوں کا مقبرہ بنایا جا رہا ہے۔ کسی کے کان پہ جو تک نہیں رینگتی۔ آخر کار یہ دوہرا رویہ کب تک چلے گا۔ دنیا میں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود ان کو عذاب و عتاب کا شکار بنایا جا رہا ہے۔

مسلمان بے عملی کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان کی غیرت، حوصلہ، جذبہ، ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور مظلوم کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ اب ان میں باقی نہیں رہا۔ جب حق کے لیے مر مٹنے کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جائے، مظلوموں کی حمایت میں حلق سے آواز تک نہ نکلے، اس انتظار میں بیٹھے رہنا کہ ظلم کے شعلوں سے پڑوس کا مکان چل رہا ہے اور اطمینان سے بیٹھنا کہ آگ ابھی تک میرے تلوں کے نیچے نہیں پہنچی یہ صورت حال پریشان کن ہی نہیں تکلیف دہ ہے۔

انسان ہاتھ پر ہاتھ درا بیٹھا رہے اور دعا کرتا رہے کہ من سلوی اتر جائے ایسا ولی اللہ کے ساتھ بھی نہیں ہو سکتا عام انسانوں کی تو بات ہی نہیں ہے۔ جہاں بھی ظلم ہو رہا ہے اس کو روکنے کا حل اللہ سے رو رو کر فریاد کرنا نہیں کہ اے خدا ظالم سے نجات دے بلکہ عملی کوشش میں ہے۔ آج تک صرف دعاؤں سے کسی قوم کی تقدیر نہیں بدلی، ظلم کا خاتمہ نہیں ہوا، گولی ہماری طرف آ رہی ہو اور ہم دعا کرے کہ یہ ہمیں نہیں لگنی چاہیے یہ کیونکر ممکن ہے۔ پہلے خود عملی مظاہرہ کر کے گولی کی سمت سے دور ہٹنا ہے اور بعد میں اللہ کا شکر ادا کرنا ہے کہ اس نے بچا لیا۔ پہلے تدبیر کرنی چاہیے پھر ہی دعا سے تقدیر بدلنے کے امکانات روشن ہیں۔

جو مسلمان طاقت رکھنے کے باوجود مظلوم کے حق میں نہیں بولتا، اس کی حمایت نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں ہو سکتا بھلے ہی وہ دن رات مساجد میں ماتھا ٹیکتا رہے۔ مسلمان تو کسی دوسرے مذہب کے شخص پر ظلم نہیں دیکھ سکتا اپنے ہی مذہب کے بھائی پر ظلم ہوتا دیکھ کر کیوں اس کا کلیجہ نہیں پھٹ جاتا۔ مسلمان کی بربادی، تباہی اور خستہ حالی میں اگر اپنوں کا ہاتھ نہ ہوتا تو کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ وہ اس پر ظلم کے پنجے گاڑتا۔ فلسطین ہو یا کشمیر جہاں بھی ناحق خون بہے گا اس خون اور ظلم میں برابر کے شریک وہ مسلمان ممالک اور اتحادی ہیں جنہوں نے چپ سادھ لی ہے۔

یہ ناحق جو مر رہے ہیں روز قیامت ان لوگوں کا گریبان ضرور پکڑ کر پوچھیں گے کہ ہمارے ساتھ ظلم و زیادتی دیکھ کر چپ کیوں سادھ لی تھی۔ ہمارے حق میں کیوں نہیں بولے۔ کوئی غیر مسلم کسی مسلمان عورت پر بری نگاہ ڈالتا تو تلوار سے اس کا سر قلم کیا جاتا تھا آج مسلمان عورتوں کی عصمت کو تار تار کیا جا رہا ہے، ان کو بے پردہ کیا جا رہا ہے، ناحق مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے، لیکن بے حس اور خواب غفلت میں پڑے مسلمان ہوش میں نہیں آرہے ہیں۔ یہی صورت حال رہی تو وہ دن دور نہیں جب خواب غفلت میں پڑی قوم مزید تباہی و بربادی کا شکار ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments