کورونا کی تیسری لہر: طلبا کی فکر آخر کس کو؟
دنیا بھر کی طرح اس وقت پاکستان کو بھی کرونا وائرس کی تیسری لہر کا سامنا ہے اور اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ پہلی لہر سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی نازک صورتحال ہمارے سامنے موجود ہے اس عالمگیر وبا نے نہ صرف سماجی اور اقتصادی طور پر دنیا کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ اگر پاکستان جیسے مسائل سے دوچار اور ترقی پذیر ملک کی بات کریں تو جہاں کاروبار، صنعت، زراعت اور بہت سے سیکٹر متاثر ہوئے ہیں ان سے کہیں زیادہ نقصان ہمارے تعلیمی نظام کو ہوا ہے اور کچھ خود ہم نے اپنی ناقص پالیسی کی وجہ اپنے ملک کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اور پورے ملک کے طالب علموں کو جو کرونا کے دنوں میں پاس آؤٹ ہوئے ہیں یا جو آنلائن نظام میں اپنی پوری ڈگری گزار چکے ہیں یعنی کے ملک میں ماسٹرز کے طالب علم آخر ان کا مستقبل کیا ہے؟ ان کے پاس کیا مواقع ہیں؟ اس صورتحال میں جب ہر طرف مسائل ہیں، کیا حکومتی سطح پر کوئی ایسا موجود ہے جسے طلبا کی فکر ہو کہ پاکستان کی اس یوتھ کا اس وبائی ماحول میں مستقبل کیا ہے،
اگر ہم صرف کرونا سے متعلقہ سال میں آنلائن نظام میں گریجویٹ ہونے والوں کی بات کریں جو طلباء تقریباً اپنے فائنل ائرز میں تھے ان کے لیے اور جو ابھی اپنی ساری ڈگری آنلائن گزاریں گے ان کے لیے کیا مواقع ہیں۔ اگر ہم صرف حکومتی سطح پر بات کریں تو صرف ایف بی آر میں 62 آسامیوں پر پاکستان سے 62 ہزار سے زائد گریجویٹ امیدواروں نے اپلائی کیا جن میں بہت سے تو فریش گریجویٹ ہوں گے، ایف پی ایس سی نے ان آسامیوں پر امتحان نومبر 2020 میں لینا تھا جو تقریباً آٹھ ماہ گزرنے کے بعد 23 مئی سے ہونے تھے ایک بار پھر ملتوی کر دیے گے، اسی طرح پرائیویٹ اداروں کا حال ہے اب ایسے میں اگر پچھلے ڈیڑھ سال سے تعلیمی ادارے بند ہیں وہ نقصان اور پھر یہ سوال بھی عام ہے کہ کیا پاکستانی ادارے آنلائن گریجویٹ قبول کریں گے جب کہ وہ ہمارے آنلائن نظام سے واقف ہیں۔ آخر اس سے کے بارے میں کون سوچے گا۔
تعلیم کے میدان میں ہم پہلے ہی 120 ممالک کی فہرست میں 113 نمبر پر ہے۔ یعنی کہ حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں لٹریسی ریٹ۔ 59.88 % ہے اس میں بھی دیہی علاقوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں مارچ 2020 کے بعد سے تعلیمی ادارے بند ہیں اور تقریباً ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ابھی تک دوبارہ بحال نہیں ہو سکے اور حالیہ خبروں کے مطابق 23 مئی تک تعلیمی ادارے مکمل بند رہیں گے اور اس کے بعد این سی او سی صورتحال کا جائزہ لے گی اور اس کے بعد تعلیمی اداروں کے متعلق آگے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت کے پاس اس مسئلے کا حل کیا ہے، پہلی لہر، دوسری لہر اور تیسری لہر صرف پاکستان کے تعلیمی ادارے مکمل بند۔ مانا کے کرونا ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے جس میں نرمی برتنا ہمیں بہت بڑے نقصان میں مبتلا کر سکتا ہے لیکن سوال پھر یہاں وہی ہے کیا کرونا صرف پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہی پھیلتا ہے کیوں کہ پاکستان میں باقی کوئی چیز مکمل بند نہیں پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے جلسے جلوس عروج پر، ضمنی الیکشن میں رش عروج پر، بازاروں میں گہما گہمی عروج پر، تفریحی مقامات پر گھما گھمی عروج پر، حکومتی سطح پر تقریبات میں گہما گہمی عروج پر لیکن بند ہے تو صرف پاکستان کا نظام تعلیم۔
جب ذمہ داران سے تعلیم کے متعلق کوئی صحافی سوال کرتا ہے تو آگے سے دنیا اب آنلائن نظام پر آ رہی ہے، دنیا ڈیجیٹیلائز ہو رہی ہے ہمیں نئی سمت میں جانا ہے وغیرہ وغیرہ اس قسم کے بیانات بھی سننے کو ملے۔ ٹھیک ہے ٹیکنالوجی کا دور ہے دنیا میں جدید سیٹ اپ موجود ہے اور نظام تعلیم آنلائن ہو رہا ہے لیکن کیا ہمارے پاس ایسا جدید سیٹ اپ موجود ہے کہ ہم اس پر بھروسا کر سکیں، کیا ہمارے پاس جدید انٹرنیٹ کی سہولت پورے پاکستان میں موجود ہے، کیا ہمیں ورچوئل کلاسز کا تجربہ ہے کہ ہم اپنی تعلیم کو اس پر کنورٹ کر سکیں۔ اگر نہیں تو پھر کیوں حکام کی طرف سے مذاق کیا جا رہا ہے۔ ہم پریکٹیکل ایجوکیشن میں پہلے ہی کافی پیچھے ہیں پاکستان میں صرف رٹا سسٹم عروج پر ہے اس پر کیا ایک آنلائن کلاس میں پڑھنے والا طالب علم کچھ سیکھ پائے گا۔
آپ ڈاکٹر کو آنلائن ڈاکٹر کیسے بنائیں گے، انجینئرنگ کے سٹوڈنٹ کو آنلائن کیا سکھائیں گے، باقی شعبوں کے طلباء کو کیسے آنلائن ان کی اپنی فیلڈ کے متعلق سکھائیں گے یا پھر یو سمجھ لیا جائے کے بس وقت گزارنا ہے ہمیں کیا۔ اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے ’یونیسیف‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ایک ارب 30 کروڑ اسکول جانے والے طلبہ کے گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ جب کہ پاکستان میں لگ بھگ چار کروڑ بچے متاثر ہوئے ہیں۔
یہ تو وہ بچے ہیں جن تک انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے بہرحال یہاں سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ ڈینگی کی طرح ہمیں ہر سال اس کا سامنا کرنا پڑا جیسے 2011 کے بعد سے کرنا پڑ رہا ہے اگر تیسری لہر کے بعد چوتھی لہر اور پھر پانچویں لہر آئی کیونکہ دنیا میں یہ تاثر بھی موجود ہے کہ اب کرونا کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا ایسے میں حکومت کے پاس پلان بی کیا ہے کہ تعلیمی اداروں کا کیا کرنا ہے یا یوں ہی سب بند کر کے پاکستان کے نوجوانوں کو بند گلی میں دھکیلنا ہے۔
میڈیا کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے جو میں نے پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں نوٹ کیا کہ اس وبائی صورتحال میں اگر ٹرانسپورٹ کو حکومت نے بند کیا تو ٹرانسپورٹر نے نقصان کا رونا رو کر احتجاج کیا، مارکیٹ بند ہوئیں تو تاجروں نے احتجاج کیا کہ ہمارا نقصان ہے لیکن افسوس کہ سکول، کالجز اور جامعات ایک سال سے زیادہ عرصے سے بند ہیں کسی نے کوئی اف بھی کی ہو اور نہ ہی ہمارے ملک کے اساتذہ نے احتجاج کیا ہو کہ بچوں کا نقصان ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ کریں بھی کیوں اپنا نقصان تھوڑا ہی ہے پرانا اصول ہے جس پر زوال آتا ہے اس سے ہونے والے نقصان کا اندازہ بھی اسے ہی ہوتا ہے دوسروں کو نہیں لیکن یہاں تو ملک میں بعض طلباء بھی خوش ہیں کہ بس ڈگری مل جائے اور کیا چاہیے لیکن انہیں اس معاملے کی نوعیت کا اندازہ نہیں ہے کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ وہ ابھی تو وزارت تعلیم کو دعائیں دے رہے ہیں لیکن کل جب زندگی ڈھول بجائے گی تو یہ ہی طلباء پہلی صف میں مداری کے بندر کی طرح ناچتے نظر آئیں گے۔ لیکن جو طلباء واقعی میں اس صورتحال سے پریشان ان کے بارے میں کون سوچے گا۔ ذرا سوچیے۔
- چیختے عوام اور قصور وار حکمران - 05/09/2023
- سیلابی تباہ کاریوں میں پھوٹتی بیماریاں - 06/08/2022
- فارن فنڈنگ: کانچ کے محل کیلئے خطرہ - 04/08/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).