اپنا گھر کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں؟


گزشتہ چند سالوں سے ”ہمیں اپنا گھر صاف کرنا چاہیے“ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ یہ بات عمومی طور پر غیر ریاستی عناصر یا کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ اپنا گھر ٹھیک کرنے کی بات سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں بھی کی گئی اور یہی بات موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کی ہے۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنے کی بات کرتے ہوئے کہا، ہمیں احساس ہو گیا تھا کہ جب تک ہم اپنے گھر کو ٹھیک نہیں کرتے ہم باہر سے کوئی توقعات نہیں رکھ سکتے۔

المیہ یہ ہے کہ نواز شریف کے دور حکومت میں ایک بند کمرے میں کی گئی بات کو دشمن ملک کا بیانیہ قرار دے کر ڈان لیکس کا نام دے دیا گیا لیکن جب یہی بات موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھرے پنڈال میں کی تو تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسائے گئے لیکن اگر اب ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کے دباؤ پر ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنے کا خیال آ ہی گیا ہے تو ہمیں اس سوال پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے کہ کیا اپنا گھر ٹھیک کرنا صرف کالعدم تنظیموں یا شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنا ہی ہے یا ہمیں بحیثیت قوم اپنے ضمیر کو ٹٹولنا چاہیے۔

ہمیں اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ اپنا گھر صاف کرنا صرف کالعدم جماعتوں یا غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اپنا محاسبہ کرنا بھی اپنا گھر صاف کرنا ہی کہلائے گا۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا آئینی ادارے سب کو اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ شاید یہی وہ مناسب وقت ہے جب عدلیہ، فوج اور سیاسی جماعتوں سمیت سب کو اپنے آمرانہ مزاج میں لچک پیدا کرنی چاہیے اور خود کو عقل کل سمجھنے کی بجائے خود احتسابی کے تحت اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔

عدلیہ کی بات کی جائے تو چند دن پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کی آڈٹ رپورٹ پبلک ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس انور کاسی کا اپنی رہائش گاہ پر 18 لاکھ روپے سے زائد خلاف ضابطہ فنڈز کے استعمال اور ججز ریسٹ ہاؤس کی ہایئرنگ میں 89 لاکھ سے زائد رقم خلاف ضابطہ استعمال کرنے کی نشاندہی کی گئی۔ گو کہ مزید شواہد کے لئے ڈیپارٹمنٹل کمیٹی نے معاملے کو موخر کر دیا ہے لیکن رپورٹ میں اس کی نشاندہی ہونا بھی نیک شگون ہے۔ انہی چیف جسٹس کے دور میں سابق جج شوکت صدیقی نے الزام لگایا تھا کہ ایجنسیز اپنی مرضی کے بینچ بنواتی ہیں، اب دیکھنا ہے ان آڈٹ رپورٹس کی بنیاد پر ان سے کوئی ریکوری بھی ہوتی ہے یا معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔ امید ہے موجودہ چیف جسٹس اطہر من اللہ اسے ضرور پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

عدلیہ پر دباؤ کے حوالے سے ججز کے اعتراف اور الزامات کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ آئین کو پس پشت ڈال کر نظریۂ ضرورت ایجاد کر کے آمرانہ قوتوں کے آگے بیعت کرنے کی تاریخ بھی ڈھکی چھپی نہیں مگر اپنا گھر ٹھیک کرنے کی بات کی جائے تو سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے احتساب کا ادارہ ہے مگر آج تک سپریم جوڈیشل کونسل نے کسی ایک جج کو بھی کرپشن الزامات پر نہیں نکالا بلکہ جن ججز پر کرپشن الزامات پر ریفرنس دائر ہوتا ہے ہیں انھیں مستعفی ہونے کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ پنشن اور مراعات بحال رہ سکیں۔ البتہ اس کونسل نے اگر کسی کو برطرف کیا ہے تو صرف جسٹس شوکت صدیقی جیسے جج کو کیا ہے جو آئین کی پاسداری کی بات کرتے تھے اور جنہوں نے عدلیہ میں ایجنسیز کی مداخلت کا بتایا۔

ہماری فوج ایک بہترین فوج ہے اور اس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں۔ ملکی دفاع کے لئے ایک مضبوط فوج ناگزیر ہے۔ فوج میں خود احتسابی کے عمل کی تعریف کرتے ہوئے سابق ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بیان دیا تھا کہ فوج کا احتسابی نظام اگر پورے ملک میں لاگو کر دیا جائے تو تمام مسائل ہو جائیں گے مگر ہم نے دیکھا کہ سابق جنرل عاصم سلیم باجوہ کے اربوں روپے کے اثاثے سامنے آنے کے باوجود کسی بھی احتسابی ادارے کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ ان کے چار صفحوں کی وضاحت کے بعد ”فیس نہیں کیس“ دیکھنے والوں سمیت کسی بھی ادارے کو ان سے سوال پوچھنے کی جرات نہ ہو سکی۔

ہمارے فوجی سربراہان اور ان کے چند ساتھیوں کی ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ مداخلت ہو۔ ایجنسیز کی مدد سے عدلیہ پر دباؤ ڈال کر مرضی کے فیصلے لینا ہو، سازشوں سے منتخب حکومتیں ختم کروانا ہو، آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا کر اسی آئین کو بوٹوں تلے روندنے کی بات ہو یا انتخابی عمل کو یرغمال بنا کر ایک کٹھ پتلی کے ذریعے ہائبرڈ نظام لاگو کرنے جیسے واقعات پر لکھنا ہو۔ یہ ایسا موضوعات ہیں جن پر لب کشائی سے شمالی علاقہ جات کی سیر بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے اپنا گھر ٹھیک کرنے پر ڈرتے ڈرتے بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ آپ خود ہی اپنی تاریخ پر ذرا غور کر لیں۔ ہم اگر زیادہ لکھیں گے تو پانچ لاکھ جرمانہ اور دو سال جیل کا خطرہ ہے۔

سیاسی جماعتوں کی بات کی جائے تو سیاستدان پھانسی کے پھندوں پر بھی لٹکے ہیں اور جلا وطنی بھی برداشت کی ہے۔ جیلیں بھی برداشت کی ہیں اور فرسودہ الزامات پر عدالتی نا اہلی بھی بھگتی ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ہماری صف اول کی سیاسی قیادت ملک میں جمہوریت کی بات تو کرتی ہے مگر اپنی جماعتوں میں مضبوط جمہوری ڈھانچہ پنپنے نہیں دیتے۔ بڑی سیاسی جماعتوں میں خاندانی اجارہ داری یا موروثیت کا تاثر نمایاں ہے جو کہ جمہوری عمل کے لئے ایک منفی اصطلاح کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔

ہر جماعت میں اراکین کی ایک کونسل ضرور ہوتی ہے مگر فیصلے پارٹی لیڈر کے اشارہ ابرو پر ہی ہوتے ہیں۔ البتہ کسی فیصلے کو لٹکانا ہو تو اسے کونسل پر ڈال دیا جاتا ہے۔ پارٹی قیادت کے علاوہ اگر کسی کارکن کی پذیرائی بڑھنے لگے تو مختلف حیلے بہانوں سے اسے پیچھے دھکیل کر ابن الوقت سیاستدانوں کی مدح سرائی کو پسند کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں سیاسی قیادت کو ضرور خود احتسابی کرنی چاہیے۔

مضبوط پاکستان بنانا ہے تو سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر جمہوریت لانی پڑے گی۔ ہم مغربی طرز کا سیاسی نظام تو نہیں اپنا سکتے مگر وزیراعظم کے لئے خاندان سے باہر بھی لوگوں کو ضرور موقع دینا چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں بوجہ مجبوری ہی کسی کارکن کو اس منصب پر پہنچنے کا موقع دیتی ہیں بصورت دیگر خاندان سے باہر نکلنے کا تصور موجود نہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اس یرغمال نظام کے خلاف ایک موثر آواز بنے ہیں۔ وہ متعدد بار اس میں تبدیلی کی بات کر چکے ہیں۔ اپنی جماعت میں اس جمہوری سوچ کو انھیں ضرور فروغ دینا چاہیے۔

الغرض اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے تو ہمارے اداروں کو آئین کی متعین کردہ حدود میں رہنے کی روش اپنانا ہو گی۔ صرف سیاستدانوں کے احتساب پر اکتفا کرنے کی بجائے ججز اور جنرلز کو بھی کٹہرے میں لانا ہو گا۔ انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد بڑھانے کے لئے طاقتور اداروں کا اس سے دور رہنا بہت ضروری ہے۔ خود کو مقدس گائے سمجھنے کی بجائے غلطیوں کا اعتراف کر کے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی طرف آنے میں ہی ہماری بقا ہے ورنہ اپنا گھر ٹھیک کرنے کے دعوے ہم ضرور کریں گے مگر یہ بگاڑ ایسے ہی چلتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments