الٹی گنتی گننے والے


جولائی 2018 میں عمران خان کے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے میں ابھی چند دن باقی تھے۔ آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے مشورہ دیا کہ بطور نئے وزیراعظم وہ حسب روایت سب سے پہلے ریاض کا دورہ کریں۔ اس کے بعد چین کا لازمی دورہ بھی کریں۔ عمران خان نے جنرل باجوہ کی تجویز سے اتفاق کیا کیوں کہ دونوں ممالک پاکستان کے معاون و مدد گار ہیں۔ لیکن اس کے بعد عمران خان نے بہانے کرنا شروع کر دیے۔ وزیر اعظم نے جنرل باجوہ کو بتایا کہ اُنہوں نے مقامی مسائل پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے (یہ فیصلہ کس کے مشورے پرکیا ہوگا، ہم اندازہ ہی لگا سکتے ہیں) اور یہ کہ پہلے تین مہینے میں وہ کوئی غیر ملکی دورہ نہیں کریں گے۔

چونکہ جنرل باجوہ ریاض کو عمران خان کے مجوزہ دورے کی پہلے ہی اطلاع دے چکے تھے، وزیر اعظم کے تامل پر اُنہیں فوراً سعودی عرب جا کر دورے میں ہونے والی ”تھوڑی سی تاخیر“ کی وضاحت کرنا پڑی (جب کہ اس دوران اُن کی ٹیم نئے وزیر اعظم کو قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی)۔ بالآخر جب عمران خان نے دورہ کیا تو اگرچہ محمد بن سلمان نے ان کا بڑا پرتپاک استقبال کیا لیکن اُن کا ابتدائی گریز شہزادہ محمد بن سلمان کو بھولا نہیں تھا۔ سعودی شاہی مہمان نے ایک سال کے اندر ہی جوابی دورہ کیا۔ وہ اپنے ساتھ بہت سے تحائف لائے، سرمایہ کاری اور آسان قرضوں کا وعدہ بھی کیا۔ کچھ لوگ بتاتے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان عمران خان کے پاس ایک خاص موبائل فون بھی چھوڑ گئے جس کے ذریعے وہ کسی بھی وقت سعودی شہزادے سے براہ راست رابطہ کر سکتے تھے۔

بدقسمتی سے ایک سال بعد وہ خاص موبائل فون دم توڑ گیا۔ سعودی دوست گوادر میں دس بلین ڈالر کی مجوزہ سرمایہ کاری سے بھی پیچھے ہٹ گئے۔ پاکستان کے سٹیٹ بنک میں رکھوائے ایک ارب ڈالر کی واپسی کا مطالبہ بھی کر ڈالا۔ الٹا بھارت میں چالیس ارب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کر دیا۔

عمران خان کے دو لاابالی ”اقدامات“ سعودیوں کی خفگی کا باعث بنے تھے: پہلا، اُنہوں نے بغیر کسی کے کہے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کی کوشش شروع کر دی۔ دوسرا، اُنہوں نے ترکی، ملائیشیا، ایران اور پاکستان پر مشتمل ایک بلاک قائم کرنے کی تجویز دی۔ یہ بلاک اسلامی دنیا میں سعودی قیادت میں قائم او آئی سی کی قیادت کو چیلنج کر سکتا تھا۔ پاک سعودی تعلقات چند ماہ پہلے اس وقت انتہائی نچلی سطح پر چلے گئے جب عمران خان کی شہ پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی بے جان حمایت کرنے پر غصیلے لہجے میں او آئی سی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

عالمی تنہائی کے ممکنہ خطرے سے پریشان ایک ایسے وقت میں کہ جب ملکی معیشت کو اپنی سانسیں بحال کرنے کے لئے ہر طرح کی بیرونی امداد کی شدید ضرورت ہے، جہاں ایک طرف تو امریکی مغربی ایشیا سے رخصت ہو رہے ہیں، اور چین کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت کے ساتھ ہاتھ ملا رہے ہیں، ایک خوفناک خانہ جنگی افغانستان کو اپنی لپیٹ میں لینے کے درپے ہے جس کے مضر اثرات یقیناً پاکستان پر بھی پڑیں گے، انسانی حقوق کی افسوسناک صورتحال اور منہ زور ہوتے ہوئے مذہبی انتہا پسند گروہوں کی وجہ سے یورپی یونین کی قیادت میں ایف اے ٹی ایف کی معاشی پابندیاں پاکستان کے سر پر منڈلا رہی ہیں، آئی ایم ایف عوام دشمن معاشی پالیسیوں کا مطالبہ کر رہا ہے، اور اس دوران کوویڈ کی ہلاکت خیزی بڑھتی جا رہی ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ پھر تعلقات کی بحالی پر کمر بستہ ہوئے۔ انہوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر فائربندی کے لئے مدد طلب کی۔ پھر اُنہوں نے ریاض کو قائل کیا کہ تعلقات میں بگاڑ دور کرنے کے لئے عمران خان کو دورے کی دعوت دیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے دورہ سعودی عرب سے پہلے جنرل باجوہ نے سعودی شہزادے کی خفگی دور کرنے کے لئے سعودی عرب کا مختصر دورہ بھی کیا۔

خارجہ پالیسی میں ان پے در پے ناکامیوں نے اسٹبلشمنٹ کو سفارت کاری کے اہم معاملات، مثلاً بھارت کے ساتھ بیک چینل رابطے، اپنے ہاتھ میں رکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ البتہ دفتر خارجہ کے افسران پر عمران خان گرج برس رہے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کریں۔ معاشی محاذ پر بھی ایسی ہی صورت حال درپیش ہے۔ تحریک انصاف کے پہلے وزیر خزانہ، اسد عمر نے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے انکار کیا جس سے معیشت کا ستیا ناس ہوا۔ اس پر حفیظ شیخ کی خدمات حاصل کی گئیں کہ وہ آئی ایم ایف سے امدادی پیکج لے کے آئیں تاکہ معیشت میں کچھ سدھار آئے۔ لیکن اُنہوں نے معیشت کو مزید زمیں بوس کر دیا۔ اب بجٹ سے محض ایک ماہ پہلے شوکت ترین کو لایا گیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئی ڈیل پر نظر ثانی کریں اور معاشی شرح نمو میں اضافے کی تدبیر کریں۔ چنانچہ بجٹ سے صرف ایک مہینہ پہلے تین سالوں میں تیسرے وزیر خزانہ منصب سنبھال چکے ہیں۔ وہ اہداف پر نظر ثانی کرتے ہوئے سدھار لانے کی پوری کوشش بھی کر رہے ہیں۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ وہ اپنی کوششوں کا نتیجہ دیکھنے تک منصب پرموجود بھی رہیں گے یا نہیں۔

اس دوران پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتظامی خرابی تمام حدیں عبور کر رہی ہے۔ افسران نے بار بار سمجھایا ہے کہ ان صوبوں میں وزرائے اعلیٰ باصلاحیت افراد ہونے چاہئیں تاکہ تحریک انصاف گڈ گورننس کے ذریعے عوام کے مصائب کم کر سکے اور یہ ہائبرڈ سیاسی نظام قائم رہے جس پر اُنہوں نے بہت بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ افسوس کہ وزیر اعلیٰ کے معاونین خصوصی، چیف سیکرٹریز اور آئی جی پولیس وغیرہ کے مسلسل تبادلوں کے بعد پنجاب میں صورت حال اتنی گھمبیر ہوچکی ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو بلیک میل کرنے کے لئے درجن بھر اراکین اسمبلی کا گروہ جہانگیر ترین کے گرد جمع ہو کر فارورڈ بلاک بنائے بیٹھا ہے اور سرکار سے اربوں روپے کے ”ترقیاتی منصوبوں“ کا مطالبہ کر رہا ہے، جو کہ کرپشن ہی کا ایک خوشنما نام ہے۔

پاکستانی عوام مشتعل ہیں۔ بیروزگار افراد کی تعداد دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ مہنگائی کی شرح دہرے ہندسے میں ہے۔ خاص طور پر اشیائے خورد و نوش کی ہوش ربا گرانی نے کم آمدنی والے افراد کی کمر توڑ دی ہے، گو کہ بڑی بڑی کمپنیاں متمول طبقے کی مدد سے سو فیصد سے بھی زائد منافع بھی کما رہی ہیں۔ عمران خان سے وابستہ جوش کے ہوش ٹھکانے آتے جا رہے ہیں۔ ضمنی انتخابات نے تحریک انصاف کے خاتمے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ مسلم لیگ ن میدان مار رہی ہے۔ نواز شریف ایک بار پھر قابل اعتماد دکھائی دینے لگے ہیں۔ جیسے جیسے عمران خان اور اُن کی اناڑی ٹیم کو پروان چڑھانے اور سہارا دے کر یہاں تک پہنچانے کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ پر تنقید بڑھ رہی ہے، جنرل باجوہ اور فوج کے سینیئر افسران ایک بار پھر کسی نئے بندوبست کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں۔

اس ناگزیر انجام کو بھانپتے ہوئے اسد عمر نے حال ہی میں دھمکی دی کہ عمران خان نکالے جانے پر خود ہی اسمبلیاں تحلیل کر کے تازہ انتخابات کی طرف جانے کو ترجیح دیں گے۔ اس طرح وہ بعد میں کہہ سکیں گے کہ وہ ڈکٹیشن لینے یا ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو این آر او دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ لیکن زمینی حقائق اس دلیل کی نفی کرتے ہیں۔ کل کا عظیم خان آج کا شیخ چلی دکھائی دے رہا ہے اور اس کی موقع پرست ٹیم فرضی دشمنوں پر حملے کر رہی ہے۔

کہتے ہیں کہ جب طوفان آرہا ہو تو سب سے پہلے طفیلے اس کی بھنک پا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے حامی صحافیوں نے الٹی گنتی گننا شروع کر دی ہے۔

بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments