اپنی دہلیز پر مسائل کے انبار اور دور کی سرزمینوں سے آتی صدائیں


لکھنا بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔ لوگ لکھنے کو برا بھی نہیں کہتے، عمومی طور پر تحسین بھی کرتے ہیں لیکن ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ لکھا جائے جو سچ ہے اور سچ وہ ہے جو وہ کہتا ہے۔ واقعات اور حالات کے کسی مختلف پہلو پر لکھنے کا مطالب یہ ہیں

آپ ایجنٹ ہیں
آپ بکاؤ ہیں
آپ غدار ہیں
آپ غلام ہیں
آپ ذہنی مریض ہیں

ہر فصل ہمارے ہاں دستیاب پے۔ افغانستان کو رونے والے بھی بے شمار، فلسطین کے لئے جان دینے کو تیار بھی بہت۔ ’آپ کے لیڈرز مسجد اقصی میں مرنے والوں کی بات کرتے ہیں لیکن کابل میں مرنے والے مسلمانوں سے لاتعلق ہیں‘ جواب اس کا یہ ملتا ہے کہ آپ کے لیڈرز افغانستان میں مرنے والوں کے لئے تو آواز اٹھاتے ہیں لیکن کشمیر پر مکمل خاموش ہیں۔ ان گروہوں کے لیڈران البتہ کوئی پالیسی بیان دینے سے قاصر ہیں۔ یہ لیڈران ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں۔ کوئی فوت ہو جائے ان میں، کسی کی شادی ہو تو کیمرے کے سامنے ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں، دعائیں دیتے ہیں۔ یہ سب کرنے کے باوجود یہ لوگ اس قابل نہیں کہ اپنے اختلافات برقرار رکھتے ہوئے عوام کو ایک قابل قبول بیانیہ ہی دے دیں۔

ان کے ورکرز اور حامی البتہ اپنے لیڈرز سے دو قدم آگے رہتے ہیں ماشاء اللہ۔ کوئی نازک موقع ہو جہاں ان گروہوں کے نظریاتی اختلافات واضح طور پر سامنے آئیں تو یہ ایک دوسرے کو پڑ جاتے ہیں۔ تازہ مظاہرہ لیاقت بلوچ صاحب کی بہ زبان غلط انگریزی ایک ٹویٹ پر ہوا ہے۔ مجھے اب تک ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ لیاقت بلوچ صاحب کے اس ٹویٹ پر ایسی یک طرفہ ٹویٹ بازی اچانک کیسے شروع ہوئی؟ ٹویٹوں کی ایک بہار پھوٹ پڑی جس میں روس اور امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کے دوران ہوئی تباہی اور کشمیر میں کام آنے والے نوجوانوں کا سارا کا سارا ملبہ جماعت اسلامی پر گرا دیا گیا۔

قیامت خیز رفتار سے آنے والے یہ ٹویٹس انتہائی جارحانہ تھے اور تقریباً تمام کے تمام ایک ہی موقف لئے ہوئے تھے۔ یہ سلسلہ تا حال جاری ہے، یوں لگتا ہے کہ جیسے ان سب کو مرچیں لگی ہوئی ہیں کہ ایک لڑکا پی ایچ ڈی کیوں کر گیا، افغانستان یا کشمیر کی کسی جھڑپ میں کام آ کر وہی دفن کیوں نہ ہوا؟ ایسی فضا بنی کہ جیسے روس اور افغانستان کے متعلق ماضی کی منصوبہ بندی کے دوران جماعت اسلامی نے بندوق کی نوک پر اس ملک کے ہر باسی کو محصور کر لیا تھا اور چن چن کر جوانوں کے ٹرک بھر کر کابل اور سری نگر روانہ کیے جا رہے تھے۔ اب موقع ہاتھ آیا تو سب کھل کر بول اٹھے ہیں۔ ان پالیسیز کے حق میں چونکہ ملک بھر میں کوئی بندہ تھا ہی نہیں اس لئے ان کے دفاع کے لئے کوئی ٹویٹ ہی نہیں ہوا۔

ایک بات جو اس تمام ٹویٹ بازی میں واضح ہے کہ جماعت اسلامی کی آڑ میں پاکستانی ریاست اور اگر زیادہ واضح لفظوں میں کہوں تو پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ افغانستان ہو کہ کشمیر دونوں معاملوں میں پالیسی سازی پاکستانی فوج کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ پاکستانی فوج روس کے افغانستان آنے سے لے کر آج تک تقریباً نصف عرصہ براہ راست حکمران رہی جبکہ بقایا عرصے میں بھی خارجہ اور دفاعی پالیسیز فوج کی مرضی سے بنتی رہیں۔

اس تمام تر تنقید کا بنیادی ہدف پاکستان کی فوج ہے، جماعت اسلامی کو صرف اس لئے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ فوج پر ایسی جارحانہ تنقید ممکن نہیں تھی۔ لوگ اس پر ردعمل دیتے اور پاکستانی فوج میں اتنا دم ہے کہ ایسی میڈیائی طوفان کا رخ موڑ لیتی۔ ملک کے اندر ایسے کئی گروہ ہیں جو کہ فوج کو پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہی کہ پاکستان فوج کو کمزور سے کمزور تر کیا جائے اور حق یہ ہے کہ ایسے مواقع فوج خود فراہم کرتی رہتی ہے۔

ہمیں اس چیز کا پتہ ہی نہیں کہ میڈیا دنیا کی ہر ریاست کا ایک ستون ہے۔ میڈیا ہمارے ہاں کی طرح ٹویٹر، فیسبک اور یوٹیوب کا نام نہیں کہ صبح اٹھتے ہیں اور شروع ہو جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام میڈیا کو باقاعدہ مربوط پروگرامز کے تحت چلاتی ہیں۔ اس دوران ہمارے وزیراعظم فوجی قیادت کے ساتھ سعودی عرب کے دورے پر گئے۔ پاک سعودی تعلقات میں جو خرابی آئی تھی اس دورے میں کہیں محسوس نہیں ہوئی۔ معاہدے ہوئے، نقد رقم ملی، پاکستان کی دم توڑتی معیشت کو وینٹی لیٹر سے ہٹا کر آکسیجن پر منتقل کیا گیا۔ یہ سب کچھ کیا سعودی عرب نے جو کچھ مہینے پہلے پاکستان کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اپنائے ہوئے تھا۔

سعودی عرب اور امریکہ کی قربت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اگر چہ بائیڈن میں ٹرمپ کی وہ ادائیں نہیں لیکن بائیڈن بھی اپنے طریقے سے سعودی عرب پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل میں موجود مفاہمت بھی اب عیاں ہے۔ امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بہرحال ایک اعلی درجے کی کوارڈینیشن موجود ہے۔ پاکستان کو دی گئی امداد بھی اس کوارڈینیشن سے باہر نہیں۔

دو دن پہلے افغانستان میں سکول کی بچیوں پر بدترین حملہ ہوا جس میں پچاس سے زائد بچیاں اور لوگ دردناک موت مرے۔ اسی روز مسجد اقصی پر صیہونیوں نے حملہ کیا اور رپورٹس کے مطابق کئی نہتے شہری موت کے گھاٹ اترے۔ فلسطین اس وقت آگ کا ایک دہکتا انگارہ بن چکا ہے۔ ظلم و ستم کے پہاڑوں میں گرے نہتے فلسطینی سر جھکانے کو زرہ برابر تیار نہیں۔ بندوق کے خوف کو مکمل طور پر مٹاتے ہوئے فلسطینی اس وقت ایک کرب اور درد کے ساتھ مختلف مسلمان ممالک کے نام لے لے کر انہیں پکار رہے ہیں۔

ایک ویڈیو میرے ایک دوست نے واٹس ایپ پر بھیجی ہے۔ درد اور کرب کے آخری حدود کو چھوتے ہوئے یہ نعرے یہ نہیں کہتے کہ آؤ اور ہمیں ظلم سے نجات دو بلکہ یہ مسلمانوں کو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اپنے مذہب کی بقا کی خاطر آگے بڑھو۔ اپنے اولین قبلے کی خبر لو، اپنے رسول ﷺ کے مقام کو چھڑاؤ۔ پاکستان پر ان کی خاص نظر ہے، پاکستانی فوج کو نام لے کر پکارا جا رہا ہے کہ اپنے مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لئے نکلو، دشمن آپ کے ہاتھوں آپ کے لوگ قتل کروا رہا ہے۔

امریکہ افغانستان سے انخلاء کی تیاری میں ہے۔ یہاں ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی کا خطرہ ہے، داعش کی نظریں سنا ہے اس خطے پر ہیں۔ کشمیر میں انڈیا کی بربریت الگ۔ ہم قریب اور دور کے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے گھر کی دہلیز پر مسائل کے انبار ہیں اور دور کی سرزمینوں سے ہمیں آوازیں آ رہی ہیں۔ بین الاقوامی طاقتیں سامنے ہمارے ساتھ جو بھی سلوک کریں، ان کے آپس کے تعلقات میں ہم بنیادی پلیرز ہیں۔ ہمارے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کیا جا رہا ہے۔

ہم اس صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے قابل اس لئے نہیں کہ ہماری پیداواری صلاحیت صفر سے بھی نیچے ہے۔ تعلیم، تجارت اور بہتر طرز حکومت چند سالوں میں ہمیں خود کی اور دوسروں کی مدد کے قابل بنا سکتی ہیں لیکن ایسا ہونے کے کوئی آثار نہیں۔ ہم دوسروں کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں اور اس لئے اپنا وجود منوانے کے قابل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments