ہم عید کیسے منائیں؟


رمضان المبارک کے اختتام پر یکم شوال کو دنیا بھر کے مسلمان عیدالفطر کو مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں، عید الفطر کے روح پرور اجتماعات میں مسلمان نماز عید ادا کرتے ہیں اس کے بعد ایک دوسرے کے گلے ملتے اور عید کی مبارکباد دیتے ہیں، گزشتہ برس اور اس سال دنیا بھر میں کورونا کی بڑھتی تشویشناک صورتحال کے پیش نظر حکومت کی جانب سے جزوی طور پر لاک ڈاؤن لگایا گیا ہے تاہم عید کی نماز کے اجتماعات کو محدود اور عید کے خطبے کو مختصر جبکہ لوگوں کے گلے ملنے اور ہاتھ ملانے سے بھی منع کیا گیا ہے، عید الفطر ہر سال آتی اور مذہبی جوش جذبے کے ساتھ منائی جاتی ہے تاہم اس وقت کورونا کے دور اور فلسطین میں جاری ظلم و ستم کے پیش نظر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم عید کیسے منائیں؟

، کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمان عید کیسے منائیں گے، رمضان المبارک کے دوران لیلۃ قدر کے موقع پر بیت المقدس جو مسلمانوں کا قبلہ اول بھی ہے اور مذہبی طور پر مسلمانوں کے لیے انتہائی عقیدت کا مقام ہے پر عبادت کرتے نہتے مظلوم فلسطینیوں پر فائرنگ اور پرتشدد ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، افسوس ناک صورتحال ہے مسلمانوں کے لیے ایک رپورٹ کے مطابق بیت المقدس میں رمضان المبارک کے دوران چالیس ہزار مسلمان عبادت کے لیے موجود ہوتے ہیں جبکہ لیلۃ قدر کے موقع پر یہ تعداد اسی ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہوتی ہے، مسلمانوں کے عبادت کرتے پرامن اجتماع میں فائرنگ اور بربریت کے ساتھ جب ظلم و ستم ہوا تو وہاں موجود لوگوں کا بے دردی سے خون بہایا گیا، قبلہ اول کی بے حرمتی کی گئی، جذباتی مناظر دیکھے گئے، ہمارے تک تو صحیح خبریں بھی نہیں پہنچی کہ اصل حقیقت میں کتنے لوگ زخمی اور شہید ہوئے، مسلمانوں کو ایک قوم نہیں بلکہ ایک امت کہا گیا ہے، مسلمانوں کی اس امت کے آج ساٹھ سے زائد مسلم ممالک جن کے پاس طاقتور فوج جدید ہتھیار اور معاشی طور پر مضبوط ممالک بھی موجود ہے تاہم کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر خاموشی کیوں ہے؟ ہمارے پاس او آئی سی بھی موجود ہے کیا کبھی مسلمانوں نے کسی دوسرے مذہب کے لوگوں پر عبادت کرتے حملہ کیا ہے؟ عبادات کرتے مسلمانوں جو کہ پرامن ہے گولیاں برسانا شرمناک ہے۔

ایک عید ہم منائیں گے، ایک عید کشمیری اور فلسطینی بھی منائیں گے، ایک عید ہماری سرحدوں پر ہماری حفاظت کے لیے موجود ہمارے بہادر جوان بھی منائیں گے اور ایک عید ہمارے شہداء کے خاندان بھی منائیں گے اور ایک عید ہمارے سفید پوش افراد بھی منائیں گے، سب کی عیدیں ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی، یہ مختلف نہیں ہونی چاہیے کاش یہ ہم سب ایک ہی طرح عید مناتے، ایک امت کے مسلمان جن کو بھائی بھائی بنایا گیا، آج بھائی کے دکھ میں بھائی کتنا شریک ہے؟

کیا بھائی کو دکھ پہنچے اور اس کا بھائی پرسکون رہے کتنا ممکن ہو سکتا ہے، کیا مسلمان ممالک مل کر آزادی کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھائیں گے، کشمیر اور فلسطین کے ان مظلوم لوگوں کا کیا قصور ہے یہ چند سوالات ہے جن کے جوابات نہیں ہے، ہم آزاد ہے اور آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں مذہبی طور پر آزاد آسانی سے عبادات میں مصروف ہیں پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہے، ہماری اس آزادی کے پیچھے شہداء کی قربانیاں اور ان کا لہو شامل ہے آج بھی ہماری بہادر مسلح افواج ملک کے دفاع کے لیے سرحدوں پر ہماری حفاظت کے لیے موجود ہے، ہمارے سپاہی اور ان کے خاندان بھی عید منائیں گے ہم اپنوں میں اور وہ اپنوں سے دور لیکن ہم نے ان کو یہ احساس نہیں ہونا دینا کیونکہ ان خاندانوں کے ساتھ ہم موجود ہوں گے، ان شہداء کے بچوں ساتھ ہم عید منائیں گے جن کی قربانی کی بدولت آج ہم آزاد فضاؤں میں عید کی خوشیاں منا رہے ہیں، کورونا کے ان حالات میں لاک ڈاؤن سے متاثرہ سفید پوش طبقہ بھی عید منائے گا اور ان کی عید کی خوشیوں میں بھی ہمیں شریک ہونا ہے یہ سب اپنے پاکستانی ہے، ہمارا مذہب بھی اسی درس کا اسی احساس کا پیغام دیتا ہے، وزیراعظم پاکستان کے مدینہ کی ریاست کے ویژن کو اگر دیکھا جائے تو ہمیں مثالی بننا ہوگا اس ایک ویژن کو ہم پایہ تکمیل تک پہنچائے گے تو پھر ہی بہتری نظر آئے گی، کشمیر اور فلسطین میں جاری ظلم و ستم اور کورونا کے حالات میں ہم اپنی عید بجائے گلے ملنے ہاتھ ملانے بلکہ دل میں احساس اور ایک آواز کے ساتھ ہمیں منانی ہوگی کہ اللہ تعالی مظلوم لوگوں کی حالت پر رحم کرتے ہوئے ان کو آزادی نصیب کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments