تحفظ حقوق والدین اور دوستی


والدین اور اولاد کا رشتہ دنیا کا خوبصورت ترین رشتہ ہے۔ جس میں ماں بچے کے دنیا میں آنے سے قبل ہی اس کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہے، اپنا خیال بھی دوران حمل اپنے بچے کے لیے رکھتی ہے اور اس کے دنیا میں آنے کے بعد بھی خود سے زیادہ اس کی فکر میں رہتی ہے۔ باپ جو ایک سایہ دار درخت کی مانند اپنے بیوی بچوں کا تحفظ کرتا ہے۔ کام پر لوگوں کے ناگوار رویوں کو برداشت کر کے شام کو جب تھکا ہارا واپس آتا ہے تو بیوی بچوں کی ایک مسکان اس کی دن بھر کی تھکاوٹ دور کر دیتی ہے۔

اس کے برعکس کچھ ایسے خاندان بھی ہوں گے جن میں میاں بیوی بچوں کے سامنے لڑتے جھگڑتے رہتے ہوں، اولاد کو اپنی زبان یا مار پیٹ کے ذریعے ہراساں کرتے ہوں، یا پھر بچوں کو اگنور کیا جاتا ہو۔ ایسے باپ بھی ہوں گے جو الٹراساونڈ میں بیٹی کی خوشخبری کو بد نصیبی سمجھ کر عورت کو طلاق دے دیتے ہیں۔ ایسے والدین جو شادی سے قبل ہونے والی غلطی کو چھپانے کی خاطر اپنی اولاد کو کچرے میں پھینک دیتے ہیں یا دو بیویوں سے ہونے والی اولاد میں انصاف نہیں کر پاتے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ والدین کے حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا اولاد کے فرائض تمام قسم کے والدین کے لیے یکساں ہوں گے؟

جی بالکل والدین کے حقوق ایک سے ہوں گے مگر جب کبھی اولاد کے حقوق پامال ہو رہے ہوں تو یقیناً والدین مجرم ہیں۔ اولاد کو پورا حق ہے کے وہ اپنے حقوق کا تحفظ کرے۔ مگر اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ اپنے تحفظ کی خاطر آپ ان کے حقوق پامال کریں والدین کو گھر سے نکالیں، گالم گلوچ کریں، مار پیٹ کریں یا پھر قتل کر دیں۔ کتنے ہی ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں جیسا کہ ماں کو جائیداد کی خاطر بیٹے نے قتل کر دیا، بیٹے نے ماں کو مارا پیٹا، یا باپ کو گھر سے نکال دیا۔

اولاد کو والدین سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے یہی کہ وہ روک ٹوک کرتے ہوں، مداخلت کرتے ہوں، آپ کی پسند کی شادی کے حق میں نہ ہوں، جائیداد سے آپ کو عاق ہونے کا اندیشہ ہو۔ کچھ بھی ہو والدین سے تو کیا کسی بھی انسان سے غیر اخلاقی اور غیر انسانی سلوک قابل مذمت ہے۔ آپ کو پسند کی شادی کرنی ہے تو یہ آپ کا حق ہے اسے جائز طریقے سے پورا کریں، جائیداد کا جھگڑا ہے تو خود کو اس قابل بنائیں کہ خود کما کر اپنی محنت کی کمائی میں شکر ادا کرنا سیکھیں۔ جو وراثتی حق ہے وہ مل ہی جائے گا آپ کو ان کی زندگی کے بعد مگر جو ملے گا وہ ماں کی اس ایک رات کا بدل بھی نہیں ہو گا جو اس نے بچے کی بیماری میں جاگ کر گزاری۔ اس لیے دنیا کی دولت کی خاطر حقیقی دولت کو مت کھوئیں جن کے بڑھاپے کی جمع پونجی صرف ان کی اولاد ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ اچھی اولاد یا بری اولاد بنانے میں قصور والدین کا بھی ہوتا ہے۔ کچھ والدین زندگی کے شغل میلوں میں مصروف ہو کر اپنے بچوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بچے کو معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ ماں کی ممتا یا باپ کی شفقت کیا ہوتی ہے۔ یا پھر اس قدر سخت رویہ اختیار کیا جاتا ہے کہ دینی و دنیاوی تعلیم میں بچے کی دلچسپی ہی ختم ہو جاتی ہے۔

رشتہ کوئی بھی اس کی بنیاد دوستی ہو تو ہر معاملہ با آسانی طے ہو سکتا ہے۔ اپنے بچوں کو دوست بنانا ضروری ہے ان کے دل سے اپنا ڈر خوف نکال کر عادی بنانا کہ وہ اپنے دل کی ہر بات والدین سے شیئر کریں اسی طرح جب والدین بوڑھے ہو جائیں تو ان کو بور سمجھ کر اگنور نہیں کرنا چاہیے بلکہ انہیں بھی اپنے جدید دور کی سرگرمیوں میں شامل رکھنا چاہیے۔ اگر والدین اور اولاد دوست بن جاتے تو آج اس تحفظ والدین آرڈیننس کی ضرورت پیش نہ آتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments