جلتا فلسطین
انسانیت خاموش ہے۔ مسلم امہ خواب خرگوش کے مزے لے کر سو رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اظہار افسوس تک محدود۔ اخلاقیات، جذبات اور بشر دوستی اب نام کی بھی نہیں رہی۔ کیا اسرائیلی سفاکیت کے خلاف مسلمان حکمران کبھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکے گے؟ کیا اس جارحیت کے خلاف دنیا کے منہ پر لگی زنجیر کبھی توڑی جا سکے گی؟
دنیا کی 25 فیصد آبادی اور وسائل سے مالا مال مسلمانوں کی عظمت سے پستی کے اس بدترین دور میں فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت ہماری اجتماعی غیرت پر کالا کلنک ہے۔ عربوں میں گھیرا ہوا اسرائیل، جس کی بربریت ایک طرف ہماری بے حسی کا نوحہ پیش کر رہی ہے تو دوسری طرف عرب حکمرانوں کی اس منافقت کا ثبوت دے رہی ہے جنہوں نے اپنی کاروباری مفادات کے لئے معصوم فلسطینیوں کے خون کو بیچ ڈالا۔ کیا آج ابراہام معاہدہ (جس ہر ممتاز فلسطینی دانشور ڈاکٹر حنان اشروی نے کہا تھا کہ کاش کوئی اپنے دوستوں کے ہاتھوں فروخت نہ ہو) کرنے والے اور اسرائیل کو معاشی مفاد کے لئے تسلیم کرنے والوں کے لئے شرم کا مقام نہیں؟
کیا اسلامی ملکوں کی تنظیم اور عرب لیگ کے لئے یہ حیرت کا مقام نہیں۔ جنہوں کی طفل تسلیاں اور زبانی جمع خرچ نے اسرائیلی ظلم کو مزید دوام بخشی ہے۔ فرضی اجلاس بلانے اور تقریریں کرنے کے بجائے، کیا مسلم امہ کے حکمران عملی طور پر مظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی کے لے، اسرائیلی غاصبیت کے خلاف اور قبلہ اول کی حفاظت کے لیے مسجد اقصی جانے کی ہمت کر سکتے ہیں؟ جہاں پر مسلمان بچے شہید ہو رہے ہو، جہاں پر مسلمان عورتوں کی عزت تار تار ہو رہی ہو اور جہاں پر مسلمانوں کو عبادت سے محروم رکھا جا رہا ہو۔ کیا مسلمانوں کے نام پر ہتھیار اٹھانے والے مسلح تنظیموں کے لئے جہاد کا اس سے بڑا مقام ہے؟ مسلمان حکمرانوں بالخصوص عرب بادشاہوں کو اپنی عیاشیوں، مکاری، اور اہل و عیال کی مستقبل کے لئے انہیں حکمران بنانے کے منصوبوں سے فرصت ملے تو مظلوم فلسطینیوں کی طرف توجہ دے۔
اقوام متحدہ ہو یا انسانی حقوق کی تنظیمیں، زبانی جمع خرچ اور رپورٹوں کے علاوہ عملی اقدامات اٹھانا ندارد۔ اگرچہ بین الاقوامی قوانین کے تحت فوج کے زیرانتظام مقبوضہ علاقوں میں قابض طاقت کا عدالتی نظام لاگو نہیں ہو سکتا۔ لیکن لاڈلے اسرائیل پر خاموشی۔ عالمی عدالت انصاف نے 2004 میں عدالتی مشاہدہ (Observation) دی تھی کی اقوام متحدہ کا آرٹیکل 51 اسرائیل کے حملے کو کوئی جواز فراہم نہیں کرتا۔ جنیوا کنونشن کا آرٹیکل 48۔
54 (Principle of distinction) یعنی امتیازی اصول کے مطابق عام فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری جنیوا کنونشن کے منافی ہے۔ 2010 میں غزہ کے محاصرے کے دوران امدادی کشتیوں (Flotilla) پر اسرائیلی حملے کی مذمت تمام عالم بشمول انسانی حقوق کے تنظیموں کے، سب نے کی۔ لیکن منافقت کی انتہا ہے کہ عملی اقدامات چاہیے وہ اسرائیل پر پابندیاں ہو، نام نہاد ایف اے ٹی ایف کے اصول ہو یا اقوام متحدہ کی طرف سے سخت اقدامات، کوئی عمل سامنے نہ آیا۔ جس سے نام نہاد امریکہ، انسانی حقوق کی تنظیموں، میڈیا کی خاموشی، اور یورپ کی متعصبانہ پالیسیوں کا پول کھل گیا ہے۔
وجہ مسلمانوں کی بے حسی، نا اتفاقی، تقسیم، سائنس اور ٹیکنالوجی سے دوری، کمزوری، معاشی مفادات یا منافقت، کوئی بھی ہو۔ فلسطین جل رہا ہے۔ ان کے حقوق کی پامالی اور نسل کشی ہو رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی قابل مذمت ہی نہیں بلکہ قابل گرفت بھی ہے۔ کیا طفل تسلیاں فلسطینیوں کی چیخ و پکار، آہوں اور دکھوں کا مداوا کر سکے گا؟ یا یہ کہ فلسطینی عوام وقت کے فرعونوں کا مقابلہ کرنے کے لئے موسی کا انتظار کرتے رینگے۔
کروڑوں کیوں نہیں مل کر فلسطین کے لئے لڑتے۔
دعا ہی سے فقط کٹتی نہیں زنجیر مولانا۔
حبیب جالب۔
- بلوچستان ہی کیوں؟ - 28/03/2024
- پاکستانی دلہن - 24/03/2024
- اورنگزیب عالمگیر - 18/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).