شکاری بھی رہو اور شکار کی اشک شوئی بھی کرو



ہم بھی میر تقی میر کی طرح بہت سادہ ہیں کیونکہ ہم بار بار اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں جس کے سبب بیمار ہوئے ہیں۔ ہم اپنے ان رشتوں کی پرورش کرتے ہیں جن کی لا پرواہی، بے نیازی اور توتا چشمی سے ہمیشہ مغموم رہے ہیں۔ ہم بار بار ایک ہی تجربہ کرتے ہیں اور جب نتیجہ مختلف نہیں نکلتا ہے تو ناصر کاظمی اور مجید امجد کی طرح تنہائی کو اپنے اشعار کا موضوع تو نہیں بنا پاتے لیکن تنہائی پر مبنی اشعار کو اپنے فیس بک اور ٹویٹر اکاؤنٹ کی فیڈ ضرور بنا ڈالتے ہیں۔

ہمارے عہد کے حقیقی ولی اور جگر و گردہ ٹرانسپلانٹ کے ماہر ڈاکٹر ادیب رضوی نے نہایت دکھ کے عالم میں کہا تھا کہ ”ہم اپنے زندوں کو درگور کر دیتے ہیں اور جو بچ سکتے ہیں، انہیں زندہ دفنا دیتے ہیں۔“ ان کے مطابق پاکستانیوں میں جگر و گردہ کے عطیہ کرنے کی شرح تقریباً زیرو فیصد ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہر پاکستانی اپنی زندگی میں بھی کم و بیش صرف اپنی اور اپنے اہلخانہ کی فلاح کے متعلق سوچتا ہے اور دنیا سے رخصت ہو نے کے بعد بھی اپنی بے نور آنکھوں کو اور اپنے جگر اور گردوں کو کیڑوں کی خوراک تو بنا دیتا ہے لیکن ان اعضاء کو عطیہ کر کے کسی ڈوبتے کو بچانے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے۔

ساحل پر کھڑے ہو کر ڈوبنے والوں کو الوداع کہنا ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔ ہمارا اپنا وہی ہے جس کے ساتھ ہمارے مفادات وابستہ ہیں۔ ہم انہیں اپنا سمجھتے ہیں جن کا تعلق ہمارے مسلک سے ہوتا ہے۔ ہمارے لیڈر بھی وہی ہیں جو ہمیں چھوڑ کے اپنی خوابوں کی جنت میں چلے جاتے ہیں اور وطن عزیز اس وقت لوٹتے ہیں جب انہیں مقتدر حلقوں کی جانب سے کسی ممتاز عہدہ ملنے کی ضمانت فراہم کر دی جاتی ہے۔

شاید انسان کی ساخت اور ترکیب میں وقت تخلیق شارٹ سرکٹ کا کوئی حادثہ رونما ہوا تھا جس کے نتیجے میں اب اسے قسطوں میں مارنے والے بچانے والے معلوم ہوتے ہیں۔ ادھوری بات ہمیشہ یاد رہتی ہے۔ دوست سے زیادہ دشمن ہمارے خیالوں پر چھایا رہتا ہے۔ چھوڑ جانے والے اپنے لگتے ہیں۔ جو ہم سے فاصلے قائم رکھنا چاہتے ہیں ان سے ہم فاصلے مٹانا چاہتے ہیں اور جو ہمیں اپنی قربت سے نوازتے ہیں ان سے ہم دور ہونا چاہتے ہیں۔

صابر ظفر نے کہا تھا کہ
جو نہ مل سکے وہی بے وفا، یہ بڑی عجیب سی بات ہے
جو چلا گیا مجھے چھوڑ کے وہی آج تک میرے پاس ہے

یاد رفتگاں تو رہتی ہے لیکن یاد صرف انہیں رکھنا چاہیے جنھیں قضائے الہی نے جدا کر دیا۔ جو اپنے فیصلے سے جیتے جی ہماری زندگی سے احساس کی سطح پر رخصت ہوئے ہیں، انہیں رخصت کرتے وقت ملول ہونا اپنے آنسوؤں کی بے توقیری کے مترادف ہے۔

ہم انہیں اپنا لیڈر مانتے ہیں جو وائسرائے کی مانند لینڈ کروزر سے اترتے ہیں اور ان کی آمد سے قبل ہٹو بچو کی صداؤں سے گلیاں ویران ہو جاتی ہیں۔ ان کا ہونا اس شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ دم گھٹنے لگتا ہے لیکن جی حضوری کا جذبہ قطعاً ماند نہیں پڑتا ہے۔ ہمارے سارے قاتل مسیحا کی صورت ہماری زندگی میں داخل ہوتے ہیں اور پھر اپنے ایجنڈے پر چلتے ہوئے ہماری زندگی ویران کر دیتے ہیں۔ عوام الناس نے اپنی زندگی کے لیے کیونکہ کسی راہ عمل کا تعین نہیں کیا ہوتا ہے اس لیے وہ ان راہوں پر آنکھیں بند کر کے چلنا شروع ہو جاتے ہیں جو ان کے نام نہاد رہنماؤں نے ان کے لیے تجویز کی ہوتی ہیں۔ ہیرو ورشپ اور شخصیت پرستی ہمارا قومی وصف ہے اور انسان نما دیوتاؤں کے تلوے چاٹنے سے ہمیں اپنی نجات یقینی نظر آنے لگتی ہے۔

طاقتور بننے کا واحد راستہ ہی یہ ہے کہ شکاری کی اذیت پسندی کو سینے سے لگا کر مظلوم کی حمایت میں مگر مچھ کے آنسو بہائے جائیں۔ ظالم کے قدموں میں کروٹیں لی جائیں اور مظلوم سے پریس کانفرنسوں میں ہمدردی کا اظہار کیا جائے۔ بورڈ میٹنگز میں بورڈ ممبرز کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا جائے اور کھلی کچہری میں ورکرز کے وارے نیارے ہونے کا ڈھونگ رچایا جائے۔ شکاریوں کی صفوں میں شامل ہو کر اور ان کے مفادات کا تحفظ کر کے غریبوں کی جھولی میں خیرات کے ٹکڑے ڈال کر اپنی عوام دوستی کا ثبوت فراہم کیا جاتا ہے اور ایوان اقتدار تک پہچنے کا راستہ صاف کیا جاتا ہے۔

عوام اور اداروں کے اندر موجود کم اختیارات کے حامل لوگ یونہی پل پل مرتے رہیں گے کیونکہ انہوں نے بخوشی غلامی کے طوق کو اپنا زیور بنایا ہوا ہے۔ جب تک زہر ہلاہل کو قند کہنے والے موجود ہیں اور ہمارے درمیان طاقتوروں کے سامنے ڈپلومیسی یا منافقت کا رویہ اختیار کرنے والے موجود ہیں ہم یونہی قسطوں میں مرتے رہیں گے اور جاتے جاتے اپنے قاتل کے ہاتھ کو چومیں گے اور اسے صحت والی لمبی زندگی کی دعا دے کر رخصت ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments