نا اہلی کا بوجھ اور سرخ سیب


وطن عزیز میں طلوع ہونے والا ہر دن حکومت کی ناکامی کا اعلان کر رہا ہے۔ دماغ کی بجائے ہمیشہ دل کی ماننے والے ہمارے وزیر اعظم لا تعداد مسائل کے شکار عوام کو مسلسل صبر اور نہ گھبرانے کی تلقین کر رہے ہیں۔ صرف جذباتی بیانات اور دعوؤں سے مسائل حل ہو سکتے تو ”عمرانی“ بیانات کی برکت سے آج پاکستان دنیا کی واحد سپر پاور ہوتا، لیکن کیا کیا جائے خیال اور حقیقت کی دنیا میں بہت فرق ہے۔ ہر خیال مناسب تدبیر اور عمل کا متقاضی ہو تا ہے۔ اگر تدبیر اور عمل کا دامن چھوڑ دیا جائے تو نتیجہ صفر کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا یہی حال نئے پاکستان کے معماروں کا ہے جو تدبیر و عمل کے بغیر صرف بیانات سے تمام مسائل حل کرنے کی سعی لا حاصل میں مشغول ہیں۔

گزشتہ حکمرانوں کو چور ڈاکو قرار دینے والے حکومت سنبھالنے سے پہلے مہنگائی اور معاشی بد حالی کے خلاف آئے روز سڑکوں پر ہوتے تھے اور دعوی کرتے تھے کہ ہمیں حکومت ملی تو ہمارے معاشی ماہرین انقلاب برپا کر دیں گے۔ انہی نوابغ! کی حکومت میں معاشی بد حالی اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے عوام التجا کر رہے ہیں کہ ہمیں 2018 سے پہلے والا پاکستان واپس لا دیں تا کہ مہنگائی اور فاقوں سے چھٹکارا مل سکے جواب میں نئے پاکستان کے معمار خاموش رہنے کا کہتے ہیں کیونکہ ان کی لغت میں سوال اور سوال کرنے والا دونوں مجرم ٹھہرتے ہیں ان کی دانست میں سوال سے مسائل جنم لیتے ہیں!

لوگوں کی توجہ سابق کرپٹ لوگوں کی لوٹ مار سے ہٹ جاتی ہے اس لئے کوئی بھی الٹا سیدھا سوال پوچھنے کی بجائے سابق چور اور لٹیرے حکمرانوں کو کوسا جانا چاہیے کہ یہی پاکستان کے مسائل کا واحد حل ہے! ابھی تک اسی نسخہ کے ذریعے پاکستان کے مسائل ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس حوالے سے جتنی خدمات وزیر اعظم نے انجام دی ہیں ان کو تاریخ سنہرے الفاظ میں یاد رکھے گی۔ جناب وزیر اعظم نے اقتدار میں آنے سے پہلے ملک کی دو بڑی پارٹیوں کے رہنماؤں کو اپنے نشتروں کا نشانہ بنایا اور بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے الزامات کی بھرمار کی جس کے نتیجے میں جناب وزیر اعظم اور ان کے حامیوں نے ایسی ایسی بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔

جناب عمران خان صاحب نے اپنے پورے 22 سالہ سیاسی کیرئیر میں پاکستان کے ہر چھوٹے سے بڑے مسئلہ پر ناصرف سیاستدانوں کی مذمت کی بلکہ لا تعداد بار تمام مسائل کو ختم کرنے کے دعوے کیے۔ یہ تمام دعوے تاریخ کے حافظے میں محفوظ ہو گئے جو آج ڈراؤنے خواب کی طرح جناب وزیر اعظم کا پیچھا کر رہے ہیں۔ شاید اسی لئے ان کے معاونین الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی مشکیں کس رہے ہیں تا کہ ہمیشہ کی طرح تاریخ کو مسخ کیا جا سکے۔

لیکن کیا کیا جائے کہ خان صاحب کے وعدوں کو عوام کے حافظے سے کھرچنا اب تقریباً نا ممکن ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے جناب وزیر اعظم سے بے وفائی ان صحافیوں اور اینکرز نے کی ہے جو پاکستان میں تبدیلی لانے کے حوالے سے ہراول دستے میں شامل تھے۔ جو ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کو مژدہ سنا رہے تھے کہ اگر انہوں نے جناب عمران خان کی شکل میں موجود مسیحا کی قدر نہ کی تو وقت پاکستانی قوم کو کبھی معاف نہیں کرے گا لیکن ”جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے“ کے مصداق انہی اینکرز اور صحافیوں نے جناب وزیر اعظم کے ماضی میں دیے گئے بیانات کو عوام کے سامنے رکھنا شروع کر دیا۔

جس کے نتیجے میں کچھ بے چارے معاشی مشکلات کا شکار ہوئے تو کچھ کی عزت نفس کو سر عام پامال کیا گیا گویا جناب وزیر اعظم کے ماضی قریب میں دیے گئے بیانات کی روشنی میں تجزیہ کرنا جرم ٹھہرا ہے۔ جناب وزیر اعظم سیاستدانوں کو ذاتی بغض و عناد کی بنیاد پر نشانہ بنا رہے ہیں اور ایسے لوگوں کو اپنا مخالف کر رہے ہیں جو شاید کسی برے وقت میں ان کے کام آ سکیں اس سب کچھ کے باوجود، پاکستان کی سیاسی تاریخ اور گمان یہی کہتا ہے کہ اگر کبھی جناب وزیر اعظم اور نظام پر کڑا وقت آیا تو شاید ان کی حمایت میں وہی لوگ کھڑے ہوں گے جن کو چور ڈاکو اور لٹیرا قرار دیا جاتا رہا ہے اسی طرح جناب وزیر اعظم کے وہ حامی جنہوں نے سیاستدانوں کی لوٹ مار کے جھوٹے سچے قصے گھڑنے اور خان صاحب کی شان میں قصیدے کہنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ کڑے وقت میں نا صرف ساتھ چھوڑ جائیں بلکہ عین ممکن ہے جناب وزیر اعظم کے متعلق سچے جھوٹے قصے سنانے کا فرض ادا کرتے نظر آئیں۔ حالیہ دنوں میں کچھ خبریں اور تجزیے ایسے ہی حالات کی غمازی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں جناب وزیر اعظم کو چور لٹیروں سے تھوڑی توجہ ہٹا کر اہم ایشوز کی طرف توجہ کرنا چاہیے اور اپنے اصلی حامیوں اور دشمنوں کو پہچاننا چاہیے اگر داخلی اور خارجی محاذ پر کارکردگی کا موجودہ سلسلہ جاری رہا تو نئے پاکستان کی حکومت اپنی ہی نا اہلی کے بوجھ تلے دب کر تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔

آخر میں سرخ سیب کا قصہ سن لیجیے جس میں نئے پاکستان کے معماروں سمیت، ہم سب کے لئے بہت سے پیغام پوشیدہ ہیں۔

ایک دن خلیفہ ہارون الرشید عباسی اپنے مصاحب خاص جعفر برمکی کے ساتھ برمک خاندان کے ایک شخص کے باغ میں گئے۔ ہارون الرشید کو سیب کے درخت کی اونچی ٹہنی پر سیب نظر آیا جسے وہ توڑنا چاہتے تھے جعفر بر مکی نے کہا آپ میری ہتھیلیوں پر پاؤں رکھ کر اوپر چڑھ کر سیب توڑ لیں۔ تو ہارون الرشید نے کہا مجھے ڈر لگتا ہے کہیں اوپر سے گر نہ جاؤں۔ اس لئے تم میری ہتھیلیوں پر پاؤں رکھ کر سیب توڑو۔ جعفر بر مکی نے خلیفہ کی ہتھیلیوں پر پاؤں رکھ کر سیب توڑنا چاہا تو ٹہنی پھر بھی اونچی تھی اس لئے خلیفہ کے کندھوں پر چڑھ کر سیب کو توڑا۔

باغ کا مالک جو جعفر بر مکی کے خاندان سے تھا، یہ ماجرا دیکھ رہا تھا۔ جب تفریح کے بعد خلیفہ جانے لگے تو باغ کے مالک کا شکریہ ادا کیا اور کہا کچھ مانگنا چاہتے ہو تو مانگ سکتے ہو وہ کاغذ قلم لے آیا اور کہا عالی جاہ! اس پر لکھ دیجئے کہ میرا برمکی خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہارون الرشید نے کہا۔ لیکن تمہارا تعلق تو برمکی خاندان سے ہی ہے۔ اس نے کہا عالی جاہ میری التجا ہے کہ آپ پھر بھی لکھ دیں کہ میرا اس خاندان سے کوئی تعلق نہیں۔

ہارون الرشید نے دستخط کیے اور باغ سے چلے گئے۔ تھوڑے عرصہ کے بعد جب ہارون الرشید نے بر مکی خاندان کے قتل عام کا حکم صادر کیا تو اس شخص کو بھی پکڑا گیا تا کہ اس کو قتل کر سکیں۔ اس نے کہا کہ میرا برمکی خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ثبوت کے طور پر خلیفہ کے ہاتھ کی تحریر دکھائی۔ اس ماجرا کی ہارون الرشید کو اطلاع دی گئی تو انہوں نے کہا اس شخص کو پیش کیا جائے۔ جب اسے پیش کیا گیا تو خلیفہ نے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی۔ تو اس نے کہا عالی جاہ! جس دن میں نے جعفر کو آپ کے کندھوں پر چڑھے دیکھا مجھے یقین ہو گیا کہ یہ عنقریب منہ کے بل گرے گا۔ اس لئے میں نے اپنی جان بچانے کے لئے آپ سے لکھوایا کہ میرا اس خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments