غزہ والے بے حس اسلامی دنیا کے نقش قدم پر چلتے تو محفوظ رہتے


غزہ والوں کو کیا پڑی تھی کہ مقبوضہ بیت المقدس میں جاری اسرائیلی بربریت کا رخ اپنی جانب موڑا۔ آخر باقی اسلامی دنیا بھی تو خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ مسجد الاقصی سے سو کلومیٹر دور محصور غزہ والے بھی خاموشی سے قبلہ اول کی توہین ہوتا بالکل ویسے ہی دیکھ سکتے تھے جیسے باقی اسلامی دنیا خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔ غزہ والے بھی قبلہ اول پر اسرائیلی حملے کی زبانی مذمت کر دیتے جیسے باقی مسلمانوں نے کی؟

مسجد الاقصی مقبوضہ بیت المقدس میں واقع ہے جو غزہ سے تقریباً ایک سو کلومیٹر دور ہے۔ بیچ میں سارا علاقہ اسرائیل کے قبضہ میں ہے۔ بیت المقدس جسے عبرانی زبان میں یروشلم کہا جاتا ہے، میں فلسطینی اور یہودی دونوں آباد ہیں۔ یہ وہی فلسطینی ہیں جو یاسر عرفات کی سودے بازی کی سزا آج تک بھگت رہے ہیں اور پتھر اور غلیلوں سے اسرائیل کا مقابلہ کرتے ہیں۔ انہیں فلسطینیوں کو اسرائیل گھروں سے بے دخل کر کے یہودی بستیاں بناتا ہے۔

ان کے گھر چھین کر یہودی آبادکاروں کو دے دیے جاتے ہیں۔ عورتوں کی توہین معمول ہے جوانوں پر ظلم برابر ہوتا ہے۔ انہیں گھنٹوں اسرائیلی چیک پوسٹوں پر کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ آئے روز یہاں شہادتیں ہوتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی حالات مقبوضہ بیت المقدس سے متصل علاقے مغربی کنارے کے بھی ہیں۔ فلسطین کے صدر محمود عباس کی جماعت پی ایل او کی یہاں کٹھ پتلی حکومت قائم ہے بالکل ویسے ہی جیسے مقبوضہ کشمیر میں فاروق عبداللہ یا محبوبہ مفتی کی تھی۔ کہنے کو تو محمود عباس فلسطین کے صدر ہیں مگر چلتی صرف اسرائیل کی ہے۔

دوسری طرف غزہ کا علاقہ ہے جو ہے تو فلسطین کا حصہ مگر فلسطین سے بالکل الگ ہے۔ یہ علاقہ کئی برسوں سے مکمل محصور ہے۔ غزہ کے مغرب میں بحیرہ روم، مشرق اور شمال میں اسرائیلی جبکہ جنوب میں مصر واقع ہے۔ اہل غزہ کا دنیا کے کسی دوسرے ملک آنے جانے کا ذریعہ مصر کے ساتھ زمینی راستہ ہے۔ مگر صہیونی حکومت کے اتحادی ملک مصر اس کراسنگ کو اکثر بند رکھتا ہے۔ غزہ کا حال کچھ یوں ہے کہ وہاں اکثر صرف ہوا کے علاوہ کوئی چیز سرحدوں سے داخل نہیں ہو سکتی۔ 2010 میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے غزہ کو انسانی امداد پہنچانے کے لئے چھ کشتیوں پر مشتمل بحری بیڑہ جسے فریڈم فلوٹیلا کا نام دیا تھا، لے جانے کی کوشش کی تھی جسے اسرائیل نے ناکام بنا دیا۔ چھ سماجی کارکنوں کو اسرائیلیوں نے قتل کر دیا تھا۔

غزہ کا انتظام فلسطینی تنظیم حماس کے پاس ہے۔ جن کی اپنی پولیس اور مسلح ونگ ہے جو عز الدین القسام برگیڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسرائیلی فورسز نہ اس حصے میں داخل ہوتی ہیں نہ گھسنے کی کوشش کرتی ہیں۔ حماس کا پودا شہید شیخ احمد یاسین نے لگایا تھا۔ شیخ یاسین وہ شخصیت تھی جو دونوں ہاتھوں اور پیروں سے معذور تھے او ر ایک آنکھ کی بینائی بھی چلی گئی تھی۔ اس کے باوجود اسرائیلی حکومت ان کو گن شپ ہیلی کاپٹرز سے میزائل مار کر شہید کیا۔ حماس کے علاوہ دیگر مزاحمتی تنظیمیں بھی غزہ میں موجود ہیں جن میں کئی بڑے آپریشن کرنے والی تنظیم اسلامی جہاد قابل ذکر ہے جس کا اصل نام حرکۃالجہاد الاسلامی فی فلسطین ہے۔ ان حالات میں مزاحمتی تنظیموں کے پاس اسرائیل کے مقابلے کے لئے ہزاروں میزائلوں کا ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔

رواں سال رمضان المبارک کے آغاز سے ہی اسرائیل نے مسجد الاقصی میں نمازیوں کو ہراساں کرنا شروع کر دیا تھا۔ یکم رمضان المبارک کو صہیونی فورسز نے مغرب کی نماز کے بعد فلسطینیوں کو مسجد الاقصی کے ”دمشق دروازے“ سے ہٹا نے کے لئے تشدد کا نشانہ بنایا جہاں عموماً فلسطینی رمضان کے مہینے میں جمع ہوتے ہیں۔ صہیونی فورسز نے متعدد جوانوں کو گرفتار بھی کیا۔ اس دن کے بعد سے یہ تنازعہ روزانہ کی بنیادوں پر شروع ہو گیا۔ فلسطینی جب نماز تراویح سے فارغ ہو کر دمشق دروازے جمع ہوتے تو اسرائیلی پولیس بربریت کی انتہا کر دیتی۔ مارتی پیٹتی، شیلنگ کرتی، گرفتار بھی کر لیتی۔ بعد میں اسرائیل نے اس دروازے پر رکاوٹیں کھڑی کر کے فلسطینیوں کے آنے پر پابندی عائد کردی جس پر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

دمشق دروازہ یا ”باب العامود“ مسجد الاقصی کے بڑے اور اہم دروازوں میں سے ایک ہے جو شہر کے اہم حصہ میں واقع ہے۔ دمشق دروازہ کے پاس سے مقبوضہ بیت المقدس کے قدیم شہر کا راستہ گزرتا ہے جہاں سے یہودی آبادکاروں کو گزرنا ہوتا ہے اور فلسطینیوں کا کسی قسم کا اجتماع اسرائیل کو کھٹکتا ہے۔

رمضان المبارک کے پہلے ہفتے کے دوران انتہا پسند یہودی بھی فعال ہو گئے۔ بیت المقدس میں راہ چلتے عرب فلسطینیوں پر دھاوا بول دیتے انہیں مارتے پیٹتے رہے جس سے فلسطینیوں میں غم و غصہ بڑھتا رہا۔ جواب میں فلسطینی نوجوانوں نے انتہا پسند صہیونیوں کی دھلائی کر کے ویڈیو سوشل میڈیا پر لگا دی جس کے بعد انتہا پسند یہودی تنظیم لہاوا کے کارندے بے لگام ہو گئے۔ عربوں کے خلاف زہر اگلنے لگے۔ فلسطینیوں کو زندہ جلانے کے نعرے لگائے۔

یہی نہیں 12 رمضان یعنی 24 اپریل کو انتہا پسند یہودیوں نے مسجد الاقصی کے باہر نمازیوں پر حملہ کیا۔ صہیونی فورسز نے بھی انتہا پسند یہودیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ نتیجے میں 105 فلسطینی زخمی ہوئے۔ 50 سے زائد گرفتار ہو گئے۔ مگر فلسطینیوں کی بہادری رنگ لے آئی اور چھبیس اپریل کو باب دمشق سے اسرائیلیوں نے رکاوٹیں ہٹا دیں۔ اور فلسطینی پھر اسی دروازے پر جمع ہونے لگا۔

تیسرا واقعہ جس نے فلسطینیوں میں غم و غصے میں اضافہ کیا وہ تھا مقبوضہ بیت المقدس کے علاقے شیخ جراح سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی تھی۔ اسرائیلی عدالت نے یہودیوں کی درخواست پر چالیس سے زائد فلسطینیوں کو اپنا گھر خالی کرنے کا حکم دیا تھا اور ساتھ ہی الٹا فلسطینیوں کو حکم دیا تھا کہ یہودی آبادکاروں کا اس مقدمہ میں جو خرچہ ہوا ہے وہ بھی انہیں ادا کریں۔ اس بنیاد پر یہودی آبادکاروں نے غریب فلسطینیوں کے گھر پر قبضہ کر کے انہیں باہر نکال دیا۔

بے بس فلسطینی خاندان اپنے گھروں کے باہر رات بسر کرنے پر مجبور ہو گئے جبکہ انتہا پسند اسرائیل مزے سے ان کے گھروں میں رہنے لگے۔ صہیونی شہریوں کی فلسطینیوں کے گھر پر قبضہ کرنے کی ویڈیوز تک سامنے آئیں جس میں انہیں یہ کہتے سنا گیا کہ اگر ہم تم فلسطینیوں کے گھروں پر قبضہ نہیں کریں گے تو کوئی اور کر لے گا۔ بوڑھی فلسطینی خواتین بے بسی سے اپنے گھروں کے باہر احتجاج کرتی رہیں مگر سفاکوں کو ذرا رحم نہ آیا۔ بعد میں اسرائیلی فورسز نے انہیں محلے سے ہی بے دخل کردے۔

پھر بھی چند خاندانوں نے ہار نہ مانی اور دھرنے پر بیٹھ گئے۔ اسرائیلیوں نے ان پر مزید تشدد کیا احتجاج کرتے جوانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان واقعات نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں بسنے والے فلسطینیوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ دنیا بھر میں شیخ جراح کے حق میں آواز اٹھنے لگی۔ فلسطین میں بھی یہ علاقہ مزاحمت کی علامت بن گیا۔

جمعۃ الوداع کو فلسطینیوں نے شیخ جراح کے حق میں مظاہرہ کرنے کی ٹھانی۔ سات مئی کو 50 ہزار افراد نے مسجد الاقصیٰ کا رخ کیا جمعہ کی نماز کے بعد اسرائیل کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ عصر کے قریب جب مجمع کچھ کم ہوا تو اسرائیلی فورسز نے مسجد الاقصیٰ پر دھاوا بول دیا۔ مجمع پر اسٹیل کی گولیاں چلا دیں جن پر ربڑ چڑھی ہوئی تھیں۔ نمازیوں پر اسٹن گرنیڈز پھینکے، شیلنگ کی، لاٹھی چارج کیا۔ بربریت میں ڈھائی سو سے زائد فلسطینی زخمی ہو گئے۔ زبر دستی مسجد الاقصیٰ کو بھی خالی کرا لیا۔ دنیا بھر میں مسلمانوں نے صہیونی سفاکیت شدید مذمت کی۔ کئی میل دور غزہ والوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ مزاحمتی تنظیم حماس نے مسجد الاقصیٰ پر حملے پر سخت بیان جار کیا۔

اگلے دن آٹھ مئی کو ہزاروں فلسطینی لیلتہ القدر منانے مسجد الاقصیٰ پہنچ گئے۔ ایک اندازے کے مطابق نمازیوں کی تعداد نوے ہزار تک پہنچ گئی۔ ستائیسویں کی شب عبادت میں مصروف فلسطینیوں پر اسرائیلی فورسز نے ایک بار پھر حملہ کر دیا۔ وحشیانہ تشدد کیا جس میں سینکڑوں فلسطینی پھر زخمی ہو گئے۔ متعدد نمازیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ حماس نے اسرائیل کو واضح پیغام جاری کیا کہ ان کے صبر کو بار بار نہ آزما یا جائے۔

دوسری طرف انتہا پسند یہودیوں نے دس مئی کو یوم یروشلم مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا جو مسجد الاقصیٰ میں آ کر ختم ہونا تھا۔ اسرائیلی حکام کی جانب سے یہودیوں کو مسجد الاقصیٰ میں آنے کی اجازت دینے پر فلسطینی نالاں تھے۔ پیر کی صبح سینکڑوں فلسطینی مسجد الاقصیٰ میں موجود تھے جب وزیر اعظم نیتن یاہو کے حکم پر اسرائیلی فوج نے مسجد الاقصیٰ پر ایک با ر پھر چڑھائی کردی۔ شیلنگ اور فائرنگ سے مسجد کا قالین جل گیا۔ مسلمانوں کا قبلہ اول میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔ 500 سے زائد فلسطینی زخمی ہو گئے۔ جس پر امت مسلمہ نے ہمیشہ کی طرح روایتی بیان جاری کیے اور زبانی مذمت سے کام چلایا۔

مگر غزہ کے غیور مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیل کو مسجد الاقصیٰ خالی کرنے کے لئے دو گھنٹوں کی ڈیڈلائن دیتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر مسجد الاقصیٰ سے فوری طور پر اپنی فورسز نہیں نکالی تو حماس کی جوابی کارروائی کے لئے تیار رہے۔ حماس کی دھمکی سنتے ہی انتہا پسند یہودیوں نے یوم یروشلم مارچ ترک کر دیا جو فلسطینیوں کے لئے بہت بڑی فتح تھی۔ مگر بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔

غربت کی لکیر سے نیچے، مفلسی کی زندگی گزار نے والے اہل غزہ جانتے تھے کہ اسرائیل سے ٹکر لینے کا مطلب موت اور بربادی کو دعوت دینا ہے۔ اس کے باوجود غزہ کی عوام نے مزاحمتی تنظیموں سے مطالبہ شروع کر دیا تھا کہ مقبوضہ بیت القدس میں ظلم و ستم کے شکار ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کریں اور مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام کی توہین پر اسرائیل کو سبق سکھائیں۔ اہل غزہ جانتے تھے کہ انہیں اس جرات کی کیا قیمت چکانی پڑے گی۔

حماس نے اسرائیل کو مسجد الاقصیٰ خالی کرنے کے لئے جو دو گھنٹوں کی مہلت دی تھی وہ ختم ہو گئی۔ مقبوضہ بیت المقدس کی جانب حماس نے میزائل داغ دیے۔ جونہی صہیونی شہروں میں خطرے کا سائرن بجا۔ اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں بسنے والے فلسطینیوں کے چہرے کھل اٹھے۔

مگر فوراً بعد سفاک اسرائیل نے غزہ میں قیامت صغریٰ برپا کردی۔ اندھا دھند بمباری کا آغاز کر دیا۔ عسکری اہداف اور رہائشی علاقوں میں تمیز ختم کردی۔ جس عمارت کو چاہا زمین بوس کر دیا۔ بلا تفریق عورتوں اور بچوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ سینکڑوں افراد کو ہمیشہ کے لئے معذور کر دیا۔

سوچتا ہوں کہ، غلطی غزہ والوں کی اپنی ہے۔ وہ لوگ بے حس اسلامی دنیا کے نقش قدم پر چلتے تو محفوظ رہتے۔ زبانی مذمت کرتے مگر اسرائیل سے ٹکر نہ لیتے۔

پھر سوچتا ہوں غزہ والوں نے بھی یہی کیا ہوتا تو۔ خاکم بدہن۔ مسلمانوں کا قبلہ اول پھر شاید نہ رہتا۔ اہل غزہ نے القدس کو بچا کر پوری امت کا فریضہ تنہا ادا کیا ہے۔ غزہ والوں نے عالم اسلام کو پنا مقروض کر دیا ہے۔ کیا مسلمان اہل غزہ کا قرض کبھی چکا سکیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments