فلسطین پر اسرائیلی حکومت کی حالیہ جارحیت


اکیسویں صدی کے ایک طرف تو مہذب دنیا کا چہرہ ہے جہاں صرف انسانیت کی بات ہو رہی ہے۔ انسان کی بھلائی اور آزادی کے لئے قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ زندگی کی قیمت کو جانتے ہوئے اس کو بچانے اور پرولانگ کرنے کے لئے نئے نئے تجربات اور دریافتیں ہو رہی ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے انسانی زندگی پر اثرات کو ختم کرنے کے لئے عالمی پیمانے پر کوششیں ہو رہی ہیں اور زمین کی تباہی کی صورت میں نسل انسانی کو بچانے کے لئے مختلف سیاروں میں رہائشی جگہیں تلاش کی جا رہی ہیں۔

یہ سارے تجربات اس ملک میں ہو رہے ہیں جس کا دوسری طرف چہرہ عراق، افغانستان، ویتنام، شام اور فلسطین کے بے گناہ لوگوں کے خون سے رنگا ہوا ہے۔ دنیا میں امن اور انسانیت کا درس دینے والی سپر پاور امریکہ نے اپنے پالے ہوئے بچے اسرائیل کو فلسطینیوں پر تشدد اور خون ریزی کے لئے آج بھی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مظلوم فلسطینی لہو لہو ہیں۔ دنیا اس پر چپ اور خاموش ہے۔ صدیوں سے اپنی سرزمین اور گھروں میں رہنے والے فلسطینیوں کو نئے نئے قوانین اور ظلم و جبر کے ساتھ نکال دیا جاتا ہے۔

سپر پاور امریکہ اور اس کے حواری ملک اس اسرائیلی بربریت اور گنڈا گردی کو روکنے کی بجائے مزید شہ دے رہے ہیں۔ برطانیہ اور اس کے ہم نواء یورپی طاقتیں جب صیہونیوں کو دنیا کے مختلف کونوں سے لا کر طاقت کے بل پر فلسطین میں بسا رہے تھے تو اس وقت مقامی فلسطینی آبادی کے حقوق کا کوئی تحفظ نہیں کیا گیا بلکہ ان کو تعصب اور انسانیت سے عاری صیہونیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ صیہونیوں نے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ دیے جو آج تک جاری ہیں۔

آئے روز فلسطینیوں کی جبری گمشدگیوں، قیدوبند کی صعوبتیں اور شہادتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے۔ حاملہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں تک اسرائیلی بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن دنیا خاموش ہے بلکہ ماضی میں اس جارحیت کے خلاف کئی دفعہ یو۔ این۔ او میں قرارداد پیش کی گئی تو امریکہ کی ایماء پر ویٹو کی گئی۔ اقوام متحدہ کا صحیح مشن اور مقاصد تو اقوام عالم کو انصاف دلانا اور قوموں کی آزادی کا ضامن ہونا چاہیے لیکن یہ ادارہ اپنا ایک غیر جانبدارانہ تشخص رکھنے کی بجائے امریکہ کی لونڈی بن کے صرف امریکی مفادات کا پرچار کرتا ہے فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کی بجائے عالمی طاقتیں جان بوجھ کر اس مسئلہ کو اسرائیلی مفادات کی وجہ سے نظرانداز کر رہی ہیں۔

اس وقت فلسطین کا وہ حصہ جس میں مسلمانوں کی آبادی 80 فیصد سے زیادہ ہے وہاں اسرائیلی حکومت ریاستی جبر کے ذریعے مسلم آبادی کو بے دخل کر کے باہر سے یہودیوں کو لاکر بسا رہی ہے۔ یہ گھناؤنا کام آج تک جاری ہے۔ اس سلسلے میں نئی بہت سی یہودی بستیاں آباد کی گئی ہیں۔ تین لاکھ سے زیادہ یہودیوں کو اس مسلم اکثریت والے علاقے میں زبردستی اور طاقت کے بل پر بسایا گیا ہے۔ شیخ جراح یروشلم شہر کے قدیم دیوار کے پاس وہ علاقہ ہے جس میں 70 سالوں سے فلسطینیوں کی بستیاں آباد ہیں۔

حالیہ تنازعہ بھی مقامی لوگوں کو ان کے گھروں سے زبردستی بے گھر کرنے اور مقامی لوگوں کی جوابی مزاحمت کرنے پر ہوا ہے۔ یروشلم وہ شہر ہے جس میں مقدس مسجد اقصی موجود ہے۔ یہ جگہ تینوں ابراھیمی مذاہب کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔ انٹر نیشنل لاء کے تحت تینوں مذاہب کے لوگوں کو اجازت ہے کہ اس مقدس مسجد میں اپنے مذہبی فرائض انجام دے سکیں لیکن اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کے لئے کوئی حقوق اور کوئی انٹرنیشنل لاء کو نہیں مانتی اور نہ ان پر عمل کرتی ہے بلکہ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر کے ان کے گھروں اور زمینوں پر قبضے کو اپنا جائز حق سمجھتی ہے۔ اسرائیل کی اس ہٹ دھرمی پر عالمی لاز کے مطابق سینکشنز لگانا بنتا ہے لیکن اس معاملے میں عالمی طاقتیں اور یو۔ این۔ او یک طرفہ حمایت اور آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔

حالیہ 7 مئی کو مسلمان مسجد میں عبادت کر رہے تھے کہ اسرائیلی پولیس نے نہتے فلسطینیوں پر مارٹر گولوں اور گیس کے شیلوں سے حملہ کر دیا اور مسجد میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی۔ لوگوں کو بے دردی سے مارا پیٹا۔ جس سے بہت سے فلسطینی زخمی ہوئے۔ 9 مئی کو اسرائیلی پولیس نے پھر سے مسجد میں محصور نہتے لوگوں پر تشدد کیا۔ اسرائیل کی پولیس کا شیخ جراح اور مسجد اقصی میں لوگوں پر تشدد اور محاصرہ کرنے پر حماس نے وارننگ دی تھی کہ اسرائیلی پولیس محاصرہ ہٹائے اور معصوم لوگوں پر ظلم کرنا بند کرے ورنہ وہ اسرائیل پر راکٹ حملے کریں گی۔

اسرائیلی حکومت کا ایسا نہ کر نے پر حماس نے غزا پٹی سے اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کر دیا۔ اب یہ حال ہے کہ اسرائیلی طیارے اندھا دھن شہری آبادیوں پر حملے کر رہے ہیں۔ غزہ کے ہسپتال شہیدوں اور زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ عالمی طاقتوں کو اسرائیل کی کھلی دہشت گردی تو نظر نہیں آ رہی ہے لیکن حماس کی جوابی کارروائی پر اس کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ عالمی طاقتوں کا یہ دھرا معیار افسوس ناک ہے۔

اس مشکل گھڑی میں سارے اسلامی ممالک کو فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہو کے شدید احتجاج کرنا چاہیے لیکن مسلمان ملکوں کی بے حسی دیکھ کر افسوس ہو رہا ہے کہ وہ نہتے فلسطینیوں کا ساتھ دینے کی بجائے اسرائیل سے تعلقات بڑھانے میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں ایران وہ بہادر مسلم ملک ہے جو اپنے ملک کی بے جا پابندیوں کے باوجود فلسطینی مجاہدوں کی ہر طرح کی مدد کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کی آزادی اس وقت ممکن ہو سکتی ہے جب اس علاقے میں اقوام متحدہ کے فوجی دستے بھیجے جائیں جو فلسطینی علاقوں میں امن قائم کریں اور فلسطینیوں کو اسرائیل کی دہشت گردی سے بچا کر ان کے لئے حق ملکیت اور حق خودارادیت کے لئے راستے ہموار کرسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments