عمرہ کے لئے روانگی


روم پہنچ کر ہمارا یورپ کا یادگار ٹور اختتام پذیر ہوا تھا اور ہماری اگلی منزل انتہائی متبرک و پر کشش سر زمین مکہ تھی۔ ہم سب وہاں جانے کے لئے جذباتی ہو رہے تھے۔ اس سفر شوق نے تھکے ہوئے جسموں میں تازگی کی لہر دوڑا دی جس کی تائید و تصدیق سب کے کھلتے ہوئے چہروں سے عیاں تھی۔

بعد از دوپہر ہماری روم سے روانگی ہوئی جدہ پہنچنے تک رات ہو چکی تھی۔ جدہ میں ائرپورٹ پر ضابطے کی کارروائیوں میں بہت زیادہ وقت لگا خاص طور پر امیگریشن کاؤنٹر پر۔ جدہ میں حامد علی خان صاحب کے برادر نسبتی مقیم تھے جو ہمیں لینے کے لئے ائرپورٹ پہنچے ہوئے تھے۔ ہم ان کے گھر پہنچے اور مختصر سی گپ شپ کے بعد سونے کی تیاری کی کیونکہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور صبح سحری کے لئے جلدی بیدار ہونا تھا۔ ہم سب تھکے ہوئے تھے۔ ایسے لگا کہ ابھی سوئے ہی تھے کہ سحری کے لئے جگا دیے گئے۔ کئی روز بعد گھر کا بنا کھانا کھایا جس کی وجہ سے سحری بہت مزیدار رہی۔ نماز فجر کے بعد ہم دوبارہ سو گئے اور ظہر کے وقت تک سوتے رہے۔

ہمارے میزبان نے ہمیں عمرہ کرانے کا پروگرام افطاری کے بعد ترتیب دیا ہوا تھا اس لئے دن بھر آرام کیا۔ افطار کے بعد سب ذوق و شوق سے تیار ہوئے، احرام پہنے اور سوئے حرم روانہ ہو گئے۔ سعودی عرب میں ماہ صیام کے دوران دن بھر لوگ آرام کرتے ہیں اور تمام کاروبار زندگی رات کے وقت ہوتا ہے۔ شاہراہیں با رونق تھیں اور گاڑیوں کی کثیر تعداد جانب مکتہ المکرمہ رواں تھی۔ دل یہی چاہ رہا تھا کہ سفر جلدی ختم ہو اور پلک جھپکنے میں ہم کعبہ شریف کی زیارت کا ارمان پورا کر لیں۔ جیسے جیسے منزل قریب آتی گئی بھیڑ میں اضافہ ہوتا گیا۔ دور سے مسجد الحرام کا خوبصورت گنبد نظر آیا تو ایسا مقناطیسی عمل ظہور پذیر ہوا کہ دل و نگاہ اسی جانب کھنچتے چلے گئے۔ راستے سمٹتے گئے اور ہجوم میں سے گزرتے ہوئے ہم پارکنگ تک پہنچ گئے۔

اب ہم بھیڑ میں حرم شریف کی طرف بڑھنے لگے۔ انسانوں کا سیل رواں تھا اور ہم اس کا جزو بنے ہوئے باب حرم کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب تھی اور اس موقعہ پر زائرین کی تعداد حج کے ایام کے برابر ہوتی ہے۔ کچھ دیر بعد ہم حرم شریف میں داخل ہوئے اور چند منٹ کے بعد خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑی۔ وہیں رک کر رب ذوالجلال سے دعا کی اور آگے بڑھتے گئے۔ جلد ہی مطاف تک رسائی ہو گئی۔ بیٹی کو ہم دونوں نے باری باری اٹھاتے ہوئے طواف مکمل کیا۔

دو نوافل ادا کرنے کے بعد آب زم زم پیا جو ہمیشہ کی طرح خوش ذائقہ ہونے کے علاوہ تھکے ماندے جسموں کو تازگی بخشنے کا سبب بنا۔ اب ہم صفا پہاڑی کی طرف بڑھے۔ بیگم صاحبہ کی بیٹی کو اٹھا کر سعی کرنے کی ہمت نہ ہوئی جو واقعی مشکل کام تھا اس لئے ان کے لئے وہیل چیئر کا انتظام کیا گیا۔ عمرہ مکمل ہونے کے بعد اوپر والی منزل پر گئے اور خانہ کعبہ کا پر کشش و مسحور کن منظر دیکھتے رہے۔ جگمگاتی روشنیوں میں نیچے انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا اور اوپر سے رحمت خداوندی کا نزول ہر کوئی گناہوں پہ شرمسار اور معافی کا طلبگار تھا، اپنی حاجت روائی و مشکل کشائی کا درخواست گزار تھا، کوئی اپنے لئے مانگ رہا تھا تو کوئی والدین کی بخشش کے لئے ملتجی تھا، کوئی اولاد کی تمنا کر رہا تھا تو کوئی اولاد کی بھلائی کے لئے دامن پھیلائے ہوئے تھا اور انسان کیوں نہ اللہ سے اپنی حاجات مانگے، وہی تو وحدہ لاشریک ذات اقدس ہے جو عطا کر سکتی ہے اور شب قدر میں تو عفو و درگزر اور عطائے الہی کا سمندر موجزن ہوتا ہے۔

عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد ہم واپس جدہ آئے۔ اگلے روز حامد علی خان صاحب اور ہمارے میزبان سب کا پاکستان جانے کا پروگرام تھا جبکہ ہمارے پروگرام میں مدینہ شریف کی حاضری بھی شامل تھی اس لئے ہم جدہ کسی ہوٹل میں ٹھہر گئے۔ ہمارا ہوٹل ایک بارونق بازار میں تھا۔ کچھ دیر کے لئے ہم باہر نکلے اور بازار میں کافی دور تک چلتے گئے۔ ہم نے کچھ شاپنگ بھی کی۔ دوپہر کو ہم ٹیکسی لے کر دوبارہ عمرہ کرنے کے لئے مکتہ المکرمہ روانہ ہوئے۔

اگلے روز ہم روضہ رسول ﷺ پر حاضری کے لئے مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ حج کے موقعہ پر مدینہ شریف نہیں جا سکا تھا اس لئے میری بھی یہ پہلی حاضری تھی۔ ہم ایک جی ایم سی گاڑی میں سوار ہوئے۔ سفر کے پہلے دو گھنٹے تو پر سکون رہے اس کے بعد گاڑی میں کچھ خرابی پیدا ہوئی۔ کچھ دیر کے لئے رک گئے مگر جلد ہی کچھ بہتری آ گئی اور سفر جاری ہوا مگر آدھے گھنٹے بعد ڈرائیور نے اے سی بند کر دیا کہ گاڑی گرم ہو رہی تھی۔ سخت گرمی تھی، سب مسافر تلملا رہے تھے۔

جب زیادہ شور مچتا تو ڈرائیور کچھ دیر کے لئے اے سی آن کرتا اور پھر بند کر دیتا اور منزل پر پہنچنے تک یہی سلسلہ جاری رہا۔ راستے میں غزوہ بدر کے مقام کی زیارت بھی ہوئی۔ مدینہ منورہ پہنچنے تک رات ہو چکی تھی۔ حرم شریف کے قریب ہی ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ بازار میں نکلا تو کیپٹن ظفراللہ خٹک ( بعد میں بریگیڈئیر ریٹائر ہوئے ) سے سر راہ ملاقات ہو گئی۔ بڑی گرم جوشی سے ملے۔ ظفراللہ نشتر میڈیکل کالج میں ہم سے ایک سال بعد والی کلاس میں تھے اور ان دنوں سعودی عرب میں سیکانڈڈ تھے۔

اگلے روز عیدالفطر تھی۔ عید کی نماز کے لئے مسجد نبوی پہنچا تو نماز ہو چکی تھی۔ وہاں عید کی نماز علی الصبح ہو جایا کرتی ہے، مجھے معلوم نہ تھا۔ روضہ رسول ﷺ پر حاضری دی۔ کافی دیر مسجد میں بیٹھا رہا۔ ان دنوں مسجد نبوی کا صحن چھوٹا سا ہوا کرتا تھا صحن کی دیوار کے ساتھ ہی پرانی طرز کا بارونق بازار تھا جہاں ہر قسم کی اشیاء مل سکتی تھیں۔ سادہ سا بازار جو سبزی منڈی کی طرح لگا۔ زیادہ تر خوانچہ فروش سڑک کے درمیان میں بیٹھے اشیاء فروخت کر رہے تھے۔ روضہ مبارک کی جانب سڑک عبور کریں تو بالکل سامنے پاکستان ہاؤس تھا۔

دس بجے کے قریب ہم واپس جدہ روانگی کے لئے نکلے۔ گزشتہ روز ویگن کے تکلیف دہ سفر کی وجہ سے ہم ٹیکسی کی تلاش میں تھے۔ عید کی وجہ سے گاڑیاں بہت کم تھیں۔ ایک پاکستانی ڈرائیور نے پرائیویٹ کار میں جس کی فرنٹ سیٹ پر پہلے سے ایک پاکستانی سوار تھا، جدہ لے جانے کے لئے پوچھا۔ ہم اس شرط پر بیٹھ گئے کہ پچھلی سیٹ پر وہ مزید کوئی مسافر نہیں بٹھائے گا۔ گاڑی ابھی حدود حرم میں ہی تھی کہ بائیں جانب بہت وسیع پیمانے پر گہری کھدائی نظر آئی۔

در اصل مسجد نبوی کی توسیع کے پراجیکٹ پر کام شروع ہو چکا تھا۔ ہماری روانگی کو ایک گھنٹے سے زیادہ گزر چکا تھا۔ فرنٹ سیٹ جو صاحب بیٹھے تھے ان کا نام عبدالسلام تھا، کراچی کے رہنے والے ادھیڑ عمر کے بھلے مانس انسان تھے۔ جدہ میں ملازمت کرتے تھے اور سلجھی ہوئی گفتگو کرتے تھے۔ سفر پر سکون گزر رہا تھا کہ موٹرسائیکل پر سوار دو نو جوان مقامی لڑکوں نے ہماری گاڑی کے ڈرائیور کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ کبھی گاڑی کے آگے آ کر گاڑی روکنے کی کوشش کرتے تو کبھی اطراف میں آ کر تنگ کرتے۔ کافی دیر یہ آنکھ مچولی ہوتی رہی مگر ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی۔ اچانک انہوں نے گاڑی پر پتھر پھینکنے شروع کیے۔ کئی پتھر گاڑی کو لگے۔ ڈرائیور نے گاڑی بہت تیز دوڑائی اور موٹر سائیکل نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

تقریباً آدھے سفر کے اختتام پر ایک ہوٹل پر گاڑی کچھ دیر کے لئے رکی۔ تازہ دم ہو کر دوبارہ سفر شروع کیا۔ ابھی سڑک پر نکلے ہی تھے کہ وہی موٹر سائیکل سوار دوبارہ آ نکلے اور پھر وہی خوف و ہراس۔ معلوم نہیں ان کا مقصد کیا تھا، مسلسل تنگ کیے جا رہے تھے اور ان کا انداز جارحانہ تھا۔ شہر کے آثار نظر آنے لگے تھے، ہم جدہ پہنچنے والے تھے۔ موٹر سائیکل سوار تیزی سے گاڑی کے قریب سے گزرے اور اوور ٹیک کرتے ہوئے تقریباً پچاس میٹر آگے نکل گئے اور موڑ کاٹتے ہوئے ایک کھمبے سے ٹکرائے۔ کھمبے سے ٹکرانے کے بعد ہم نے موٹر سائیکل اور دونوں سواروں کو زمین سے آٹھ دس فٹ اوپر اچھلتے دیکھا اور اتنے میں ہماری گاڑی آگے نکل چکی تھی۔

جدہ پہنچ کر عبدالسلام صاحب نے ہمیں ہوٹل میں نہیں جانے دیا اور اصرار کر کے اپنے ہاں قیام کی دعوت دی۔ اگلے روز اسلام آباد کے لئے ہماری فلائٹ کنفرمڈ تھی۔ عبدالسلام صاحب نے بڑی شفقت سے ہمیں الوداع کیا اور ہم اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments