انکل سرگم سے میری اتفاقیہ ملاقات!


انکل سرگم بھی اس دنیا سے چلے گئے۔ انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ اپنے ہیروز سے کبھی نہ ملیں ورنہ وہ آپ کی توقع کے مطابق نہیں ہوں گے اور آپ کو مایوسی ہوگی۔ لیکن انکل سرگم فاروق قیصر سے ملاقات ہوئی تو وہ ہماری توقع سے بھی بڑھ کر شفیق، ملنسار، شاندار اور اچھے اخلاق والے نظر آئے۔ ان کے جانے سے دل و دماغ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہے۔ وہ ”اوئے باتمیز، چھوٹا کراکری رولا“ والی آواز اب تک کانوں میں گونج رہی ہے۔ یقین نہیں آتا لیکن موت بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ ہم روز اسی طرح لوگوں کے گزر جانے کی خبریں سنتے اور پھر سے اپنے معمولات زندگی میں گم ہو جاتے ہیں اور پھر ایک وہ دن آتا ہے جب لوگ ہماری موت کی خبر سن کر اپنے معمولات میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

ان کی وفات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ابھی بہت کچھ مزید لکھا جائے گا۔ ان کے بہت سے جاننے والے اپنے اپنے تاثرات اور واقعات بیان کریں گے۔ ہمیں ان سے شناسائی کا کوئی دعویٰ نہیں، بس ایک دفعہ چند منٹوں کے لیے ملاقات کا اعزاز نصیب ہوا۔ ہماری پیدائش سے بھی پہلے کلیاں پروگرام شروع ہوا تھا اور اسی کی دہائی کے آخر اور نوے کی دہائی میں کلیاں، سرگم سرگم، سرگم سرگم پھر سرگم وغیرہ ہم بڑے ذوق و شوق سے دیکھا کرتے تھے۔

بس اس وقت دیکھنے سے قاصر ہوتے تھے کہ جب عین ان کے پروگرام کے وقت بجلی چلی جاتی یا ہم کھیل کود یا پڑھائی کی وجہ سے بھول جاتے اور پھر افسوس ہوتا کیو نکہ اس زمانے میں پی ٹی وی پر نشر مکرر کا کوئی رواج نہ تھا اور ہمارے پاس وی سی آر نہ تھا۔ بظاہر تو یہ بچوں کے لیے پروگرام ہوتے تھے لیکن اصل پیغام یا طنز بڑوں پر ہوتا تھا۔ پھر جب بڑے ہوئے تو کوئی نو سال پہلے اسلام آباد منتقل ہو گئے۔ اسلام آباد واقعی خوابوں کا شہر ہے، خوبصورت کشادہ پھولوں سے سجی شاہراہیں، شاندار عمارتیں جن کو دیکھنے کا الگ تجربہ ہے۔

بس کھانے پینے کا تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہ تھا۔ اسلام آباد آ کر ایک چیز جو ہمارے لیے بڑی حیرانی کا باعث تھی، وہ یہ کہ جن علاقوں کے نام ہم پی ٹی وی پر سنتے رہتے تھے، وہ اب ہمارے پڑوس میں یا ان علاقوں میں شمار ہوتے جہاں ہم چند منٹوں یا چند گھنٹوں کی مسافت پر جا سکتے تھے۔ مثلاً پی ٹی وی اسلام آباد مرکز، پارلیمان کی عمارت، پمز اور الشفاء ہسپتال، دامن کوہ، فاطمہ جناح پارک، ایف ایٹ کچہری، اور مختلف مراکز جیسے کہ کراچی کمپنی جی نائن مرکز، گولڑہ شریف، ایف ٹین اور ایف الیون وغیرہ۔

اسی طرح وہ افراد کہ جن کو ہم ٹی وی پر دیکھتے رہتے تھے، وہ ہمیں اسلام آباد میں بنفس نفیس، زندہ چلتے پھرتے نظر آ جاتے۔ مثلاً ایک دن ہم نے نصرت جاوید صاحب کو دیکھا۔ وہ گاڑی میں کہیں جا رہے تھے۔ ایک دن محترم رؤف کلاسرا کو دیکھا۔ اسی طرح ایک دن مظہر عباس صاحب کو ایف ٹین میں سڑک کنارے دیکھا۔ ان سبھی کو ٹی وی پر دیکھا کرتے تھے اور اب براہ راست دیکھا تو اپنے اپنے سے لگے اور یہی سوچتے تھے کہ اچھا اب یہاں آ گئے ہیں تو کبھی ان سے براہ راست مل لیں گے۔

اگر آپ کو یہ پڑھ حیرت ہو رہی ہے کہ یہ کون سی بڑی بات ہے، تو چھوٹے علاقوں کے رہنے والے دیہاتی افراد کا بڑے شہروں میں جا کر کچھ ایسا ہی تاثر ہوتا ہے۔ خیر ایک دن حمزہ چوک ایف الیون مرکز سردار آرکیڈ میں ایک دفتر کی عمارت کے اندر ہم کھڑے تھے کہ اچانک فاروق قیصر انکل سرگم چلے آئے۔ وہ وہاں کسی کام کے سلسلے میں آئے تھے جس میں ابھی دیر تھی چنانچہ وہ بیٹھنے کی بجائے عمارت کے اندر ٹہلنے لگے۔ ہم چند لمحے تو مبہوت سے رہے کہ جن انکل سرگم کو پر ٹی وی کے پردے پر دیکھا کرتے تھے، وہ آج ہمارے سامنے بنفس نفیس کھڑے ہیں۔

ہم چند لمحے متذبذب ہوئے اور پھر ان کی طرف بڑھے اور سلام کر کے کہا کہ انکل آپ فاروق قیصر ہیں۔ انہوں نے بڑے اخلاق اور شفقت سے کہا جی میں ہی ہوں۔ ہم نے کہا کہ انکل ہم آپ کے بہت بڑے پرستار ہیں، بچپن میں آپ کا پروگرام کلیاں، سرگم سرگم، سرگم سرگم پھر سرگم بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا شکریہ، پھر پوچھا کہ آپ میانوالی سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے لہجے سے تو ایسا لگ رہا ہے۔ ہم دل ہی دل میں ان کی وسعت نظر اور تجربے کے قائل ہو گئے کہ جس طرح کے گہرے طنز وہ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی مختلف برائیوں پر کیا کرتے تھے، اس کے لیے نظر کی اتنی ہی گہرائی اور گیرائی ہونی چاہیے۔

ہم نے جواب دیا نہیں انکل، ہم ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ویسے آپ کا اندازہ اتنا ٹھیک ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور میانوالی دونوں میں سرائیکی زبان بولی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا اسی لیے تو میں نے پوچھا تھا کہ آپ کے اردو لہجے میں سرائیکی زبان کا عنصر نظر آ رہا تھا۔ ہم نے کہا جی انکل۔ ہمیں آج تک آپ کے سرگم سرگم میں ”چاندنی راتیں“ کا پیروڈی گانا ”پہرے کی راتیں“ آج تک یاد ہے۔ انہوں نے کہا شکریہ۔ ہم ان سے اور بھی بہت سی باتیں رولا، سنتری مک مکا جی، ماسی مصیبتے اور کلیاں کے دیگر کرداروں کے حوالے سے کرنا چاہتے تھے لیکن ہمارا مشہور افراد سے ملنے کے حوالے سے ایک خود ساختہ اصول ہے کہ یہ مشہور افراد بھی ہماری طرح کے انسان ہوتے ہیں۔

ہماری طرح ان کی بھی خوشی غمی اور پریشانیاں ہوتی ہیں۔ چنانچہ ان سے ملنے والے پرستاروں کو چاہیے کہ ان سے ملیں، ان کے فن کی تعریف کریں لیکن ان سے اتنا نہ چپک جائیں کہ وہ آپ سے بیزار ہو کر کسی جائے پناہ کی تلاش میں لگ جائیں۔ یہ کسی بھی مشہور شخصیت کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ مشہور شخصیات عوامی ضرور ہوتی ہیں لیکن وہ مشہور ہو کر عوام کی ملکیت میں نہیں آ جاتیں کہ وہ ان کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں۔ اس لیے ہم نے انکل سرگم فاروق قیصر سے اجازت طلب کی اور ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔

وہ ایک جانب کھڑے تھے اور ہم یہ سوچ رہے تھے کہ باقی باتیں پھر کسی ملاقات پر کر لیں گے۔ پھر ہمارا کام ہو گیا تو ہم نے وہاں سے نکلنے سے پہلے ایک دفعہ پھر ان سے ہاتھ ملایا اور باہر نکل آئے۔ کچھ عرصے بعد وہ ہمیں ایف الیون ون علی مارکیٹ میں گاڑی میں بیٹھے نظر آئے۔ لیکن ایک تو ہمیں آگے جانا تھا اور دوسرا وہی ہماری جھجک، کہ انکل سرگم ہم سے تنگ نہ آجائیں، اس لیے ہم آگے بڑھ گئے۔ پھر ایک دن ایف الیون ٹو میں ایک پارک میں انکل سرگم اور ماسی مصیبتے کے بڑے بڑے فائبر گلاس کے مجسمے دیکھے تو سمجھ گئے کہ ان کا گھر قریب ہی ہوگا۔

پھر ہم نے ان کو گوگل اور جی پی ایس پر تلاش کیا۔ ان کا گھر قریب ہی تھا۔ گوگل میپ پر انہوں نے اپنے گھر کی ایک تصویر بھی لگا رکھی تھی۔ لیکن ہم ان کے گھر نہیں گئے کہ بچارے انکل سرگم کے ہر ایک پرستار ہمارے جیسے نہیں ہوں گے، وہ بھی پرستاروں سے مل کر تھک جاتے ہوں گے۔ اس لیے پھر کبھی آتے جاتے مل لیں گے لیکن کچھ عرصے بعد ہم اسلام آباد سے چلے آئے اور اب انکل سرگم اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔ اب ان سے آتے جاتے کبھی اتفاقیہ ملاقات نہیں ہو سکے گی۔

ہم آج کے نصرت جاوید صاحب کے کالم میں ان کی اس رائے سے بالکل متفق ہیں کہ پتلی تماشا اور اس کے ذریعے معاشرے پر تنقید کے حوالے سے ان کا خلاء کبھی پورا نہیں ہوگا۔ خالدہ ریاست، روحی بانو، نازیہ حسن، معین اختر، امان اللہ، محمد رفیع، مہدی حسن، منو بھائی، انتظار حسین، کلدیپ نئیر، یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کا کوئی متبادل کبھی نہیں بن سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments