فلسطین کے گم ہوتے نقشے


دنیا بھر میں ظلم پر قابو پانے اور انسانیت کو عام کرنے کے لیے 1945 میں یو این او کی بنیاد پڑی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین کا معاملہ بھی یو این او کی کمیٹی نے اپنے ذمے لے لیا۔ فلسطین کی سو فیصد آبادیوں میں % 44 فیصد علاقے میں یہودی آباد کاروں کو بسایا گیا اور % 48 فیصد علاقے ان کو دیے گئے جو فلسطین میں ہمیشہ سے رہتے آئے ہیں۔ اور % 8 فیصد خطہ جو یروشلم کا تھا اور جسے یہودیوں، عیسائیوں سمیت مسلمان بھی مقدس مانتے آئے ہیں، اسے یو این او نے اپنی نگرانی میں لے لیا۔

مگر فلسطینی راضی نہیں ہوئے۔ انہوں نے جنگ کیا اور اسی جنگ میں اسرائیل کو بہت بڑی جیت مل گئی۔ اسرائیل نے موقع غنیمت جان کر کچھ زمینوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ پھر 1956 میں لڑائی ہوئی اور فلسطین کے کچھ اور علاقے اسرائیل کے قبضے میں چلے گئے۔ 1967۔ 1973۔ 1982 یہ سب وہ سال ہیں جن میں مسلسل جنگیں ہوتی رہیں اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے ہوتے رہے۔ اور 2011 تک آتے آتے فلسطینیوں کے پاس صرف % 12 فیصد خطہ رہ گیا اور اب % 12 کے % 12 ہی ہے۔

اور چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ ان بارہ فیصدی علاقوں میں بھی اسرائیل نے فلسطینیوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے کہ وہ کوئی بھی مشینی ہتھیار نہیں رکھ سکتے۔ کوئی بھی ائر فورس یا اس جیسی سہولت ان کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ کیوں کہ یہ لوگ ہمیشہ سے خونخوار ثابت ہوتے آئے ہیں۔ جب فلسطینیوں نے دیکھا کہ وہ % 48 فیصد سے % 12 فیصد پر آ گئے ہیں تو وہ مذاکرات پر اتر گئے کہ ہمیں % 48 فیصد والے علاقے ہی دے دیے جائیں مگر اسرائیل نے یہ کہتے ہوئے مذاکرے سے اس بحث کو خارج کر دیا کہ اگر یہی مقصود تھا تو جنگ میں ہمیں ختم کرنے کیوں آئے تھے؟

اور صحیح بات یہ ہے کہ اب فلسطینیوں کے پاس سوائے احتجاج کرنے اور چیخنے چلانے اور رونے دھونے کے کچھ نہیں بچا ہے۔ اور ابھی جو خوفزدہ کرنے والی تصویریں وہاں کی دیکھنے کو مل رہی ہیں، ان تصویروں کو اس سے بھی خوفناک بنانا اسرائیل کے لیے بہت آسان ہے۔

ایک طرف پھٹے بانس جیسی آواز رکھنے والے حماسی راکٹ اور پتھر پھینکنے والے مسلمان اور دوسری طرف جدید ہتھیاروں سے لیس مٹھی بھر کچھ یہودی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن چکے تھے تو فلسطین کی طرف سے حماس نے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغ دیے۔ مگر نتیجہ صفر نکلا اور اسرائیلیوں کا نقصان شاید دال میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوا۔ اسرائیل نے بھی حماس پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایک دو میزائل داغے تو پوری دنیا کے مسلمان چیخ اٹھے۔ فلسطینیوں کی عمارتیں اور ان کی ایک بڑی آبادی کے پرزے اڑنے لگے۔ عالمی سیاست میں مسلم حکمرانوں نے ان کی موت پر چیخنا اور چلانا شروع کر دیا۔

جیت کس کی ہوئی؟ یہ فیصلہ کرنا تجزیہ کاروں کے لیے بھی مشکل ہو گیا۔ کیوں کہ عمارتیں ان کی منہدم ہوئیں جو لڑائی کا حصہ تھے ہی نہیں۔ ہلاکت ان کی ہوئی جن کا اس لڑائی سے دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔

حماس کے حملے سے نقصان حماس کو نہیں اصل فلسطینیوں کو ہوا۔ سینکڑوں بچے بوڑھے مار دیے گئے۔ حماس اگر فلسطین کی صحیح نگہبانی کرنے والا ہوتا تو وہ بچوں کے کھیلنے کے لیے ایٹمی مارکیٹ میں آئے راکٹ سے کبھی حملہ نہیں کرتا۔

1967 میں جب اسرائیلی ہوائی جہاز کا ہائی جیک ہوا تو یوگینڈا کے وزیر نے اسرائیل اور اپنے درمیان کی خلش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہائی جیک کرنے والے مجاہدوں کو اپنی پناہ عطا کی۔ مگر دنیا نے اس کے بعد کا منظرنامہ یہ دیکھا کہ موساد نامی اسرائیل کی خفیہ ایجنسی نے اپنے ایک ہی آپریشن میں سب کچھ ختم کر دیا۔ ہوائی جہاز کو اغوا کرنے والے مجاہد بھی ختم کر دیے گئے۔ مجاہدوں کو پناہ دینے والے یوگینڈا ائرپورٹ پر تعینات فوجی بھی گولیوں سے بھون دیے گئے۔ یوگینڈا ائرپورٹ پر رکھے تیز رفتار فضائی جہاز بھی ایک دھماکے میں اڑا دیے گئے۔

کیا حماس کے پاس ایسے شاطر اور چال باز فوجوں کی کوئی ایک کھیپ بھی ہے جس سے وہ اسرائیل کو جواب دے سکے؟

یہ مسلم حکمراں فلسطین کی کیا مدد کر سکتے ہیں جنہوں نے حال کو دیکھ کر مستقبل کو کسی بھول بھلیاں کی نذر کر دیا۔ ماضی کی بوسیدہ اور گم شدہ ہڈیوں میں اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو حاصل کرتے ہوئے مسلم حکمراں یہ بھول گئے کہ اب کوئی صلاح الدین بھی تلوار اٹھا کر آ جائے تو وہ فلسطین کو نہیں بچا پائے گا۔ اسے بھی ہتھیار ڈالنا ہوگا۔ دنیا بدل چکی ہے۔

کیا عالمی سطح پر چیخنے اور چلانے والے مسلم حکمرانوں کو بھی صحیح قرار دے دیا جائے؟ نہیں کم ازکم میں تو یہ بے وقوفی ہرگز نہیں کروں گا۔ میں دنیا میں ہو رہے ہر فساد پر صرف یہودیوں اور عیسائیوں کو قصور وار نہیں ٹھہرا سکتا۔ کیوں کہ ہٹلر اور ارسطو کا فلسفہ بھی یہی رہا کہ زمین پر جتنے بسنے والے انسان ہیں تمہارے علاوہ سب وحشی اور غلام ہیں۔ یعنی جرمن قوم اپنے غیر ملکیوں کو غلام بنا لے اور یونانی قوم غیر یونانیوں کو وحشی کہہ کر انہیں دنیا سے نیست و نابود کردے تو یہ انسانیت پر کوئی جرم نہیں ہوگا۔

جب یو این او نے یروشلم کے متنازع اور مقدس آٹھ فیصد خطے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تو اس وقت بھی ان کی طبیعت بگڑی ہوئی نظر آئی۔ جب کشمیر پر بھارتی فوج نے ظلم و بربریت کے دہانے کھول دیے تھے اس وقت بھی یہ حکمران صرف بیان بازی سے تصورانہ حملے کر رہے تھے۔ اور نتیجہ کیا نکلا؟ کچھ بھی نہیں۔ کشمیر میں تین سو ستر نافذ ہو گیا اور آج بھارت پاکستان دونوں دوستی کے حمام میں ننگے ہو کر امن و امان کا خون پی رہے ہیں۔ آج تک بھارت اور کشمیریوں کے درمیان جو تنازع ہوئے، ان میں بھارتی فوج کو کوئی نقصان پہنچا؟ آج تک اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ان میں کبھی بھی اسرائیل شکست کھایا؟

یہ طاقتوروں کی دنیا ہے صاحب۔ یہاں ان کے مخالفین کے حق میں کیے جانے والے ہر سوال کا جواب نفی میں ہی آتا ہے۔ کشمیر جنت سے جہنم بن گیا۔ ایک پر بھارت اور ایک پر پاکستان کا قبضہ ہو گیا۔ فلسطینی نقشہ اڑتالیس فیصد سے بارہ فیصد پر آ گیا۔ اور اب اسرائیل اگر تھان لے تو اس بارہ فیصدی خطے پر بھی اپنا قبضہ جما سکتا ہے اور آپ کے مسلم حکمراں صرف چیخنے اور چلانے کے کچھ نہیں کر سکتے۔

کچھ روز یہ چیخیں گے، چلائیں گے۔ انہیں چیخنے دیجیے۔ چلانے دیجیے۔ ان کو سنیے اور خود کو تسلی دیجیے کہ آپ کا ہیرو کم از کم بول تو رہا ہے۔ اس کے بعد پھر سے بارودی سرنگوں میں ایک سناٹا چھا جائے گا۔ اور یہ بھی یاد رکھیے کہ جو حال آج فلسطین کا بنا ہوا ہے وہ بہت جلد کشمیر کا بھی بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments