مسئلہ فلسطین اور عربوں کی غلطیاں


ایک بار پھر سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین جنگ کا میدان گرم ہے۔ اسے ہماری خوبی سمجھیے یا تاریخ سے ناآشنائی گردانیے کہ ہم کسی بھی مسئلہ پر بنا سوچے سمجھے فوراً جذباتی موقف اختیار کرلیتے ہیں۔ اسرائیل کیسے وجود میں آیا اور اس کی تعمیر کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، یہ سوالات عصر حاضر میں اپنی وقعت کھو بیٹھے ہیں۔

محض جمال عبد الناصر کی طرح جذباتی نعرے لگانے سے مسئلہ کا حل نہیں نکلتا بلکہ کام اور بگڑ جاتا ہے جس کی واضح مثال اسرائیل کے ہاتھوں عرب ممالک کی تباہی کی شکل میں ہم بھگت چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پی ایل او کی لبریشن فرنٹ آرمی کی کارروائیوں کے کیا نتائج نکلیں تھے؟ مزید بھگتنے کے لیے حماس اور اس جیسی دیگر تنظیمیں اپنا کام زور و شور سے کر رہی ہے۔

کوئی بھی حکمت عملی تیار کرنے سے پہلے حالات کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اسرائیل کی حمایت کرنے والوں میں امریکہ سمیت کئی طاقتور ممالک موجود ہے اور یہ ممالک اسرائیل کو کسی بھی قسم کی امداد دینے سے ہرگز نہیں گھبراتے اور یہ بات تو خوب ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ امریکہ اسرائیل کی مدد ہر حال میں کرے گا اور اس کی وجوہات نہایت واضح ہے۔ فلسطینوں اور اسرائیلیوں کے مقابلہ کی نسبت 1 اور 100 کی ہے جس کا مطلب یہ کہ ایسی مزاحمتی کارروائیوں کا نقصان فلسطینیوں ہی کو اٹھانا پڑے گا۔

میرے نزدیک فلسطین کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ان کی اپنی اور سب سے زیادہ عرب ممالک کی غلطیاں یا ہوں کہوں کہ Planned mistakes ہے۔ اسرائیل کے وجود میں آنے کے پیچھے جتنا برطانیہ کا ہاتھ ہے اتنا ہی عرب ممالک کا حصہ ہے۔ مجھے تو آج تک یہ باتیں سمجھ میں نہیں آئی کہ

جب روس میں زار کا تختہ کمیونسٹوں نے پلٹ دیا اور اعلان بالفور جیسے معاہدات منظر عام پر آ گئے تو ایسے میں عرب اور فلسطینیوں نے اپنی زمینیں بھاری قیمتوں کے عوض یہودیوں کو کیوں فروخت کی؟

اسرائیل کے قیام کے دوران اردن کے شاہ عبداللہ نے فلسطینی ریاست نہیں بنانے دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟

اچھا اگر 1948 میں اقوام متحدہ کی قرارداد منظور کرلی جاتی تو کیا اسرائیل ایک تہائی نہ ہوتا جبکہ آج وہ اس سے کئی گنا زیادہ علاقے پر پھیلا ہوا ہے؟

اور یہ بات بھی قابل ہضم نہیں کہ انور سادات نے گفت و شنید کے ذریعے صحرائے سینا واپس لے لیا مگر غزہ کے متعلق بات بھی نہیں کی؟

اگر سن دو ہزار کے مذاکرات میں یاسر عرفات مذاکرات مان لیتا تو کیا حالات آج کے مقابل زیادہ بہتر نہ ہوتے؟

کیا الفتح اور حماس کی آپسی لڑائیوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے مسئلہ کو متاثر نہیں کیا؟

پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان 1993 کا اوسلو معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کی وجہ سے اسرائیل نے فلسطینی ریاست کو نظری اعتبار سے تسلیم کر لیا لیکن پھر ہوا یوں کہ فلسطینیوں نے اس موقع سے فائدہ ہی نہیں اٹھایا اور ہمیشہ اسرائیل کو فائدہ پہنچاتے رہے۔ کیا یہ بات درست نہیں ہے؟

عزیزان من!

یہ بات نہایت قابل غور ہے کہ جب آپ کی فوج منظم نہیں اور وہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی تو کیوں نہتے فلسطینیوں کی جانیں لیتے ہو؟

ہاں یاد رہے اسرائیل میری نظر میں بھی ظالم ہے لیکن فلسطینی تنظیموں کی کارروائیاں بھی قابل قبول نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments