جنہیں کوئی نہیں پوچھتا تھا وہ عاصمہ کا پتہ پوچھتے تھے


وہ عورت نہیں تھی، وہ ایک مردہ سماج میں جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی جدوجہد تھی، ایک ایسی جدوجہد جو کبھی ختم نہیں ہونی، نہ کبھی شکست خوردہ ہونی ہے۔ وہ حقوق انسانی کی علمبردار، وہ گھپ اندھیروں میں گھرے اور پھنسے ہوئے لوگوں کے لئے روشنی کا استعارہ تھی، وہ مسلمان تھی یا نہیں تھی؟ وہ سگریٹ پیتی تھی یا نہیں پیتی تھی؟ اس کے خیال کیسے تھے؟ کیا وہ خدا پر یقین رکھتی تھی؟ ان تمام سوالوں کو ایک طرف رکھ کر اگر عاصمہ کو دیکھا جائے تو وہ صرف اور صرف جہاں بھر کے انسانوں کے حقوق کی بات کرتی تھی، ایک ایسا معاشرہ جہاں لوگ مصیبتوں میں گھرے لوگوں کو تنہا چھوڑ کر کھسک لیتے تھے، وہ ان کی مدد کو پہنچ جاتی تھی، بقول آئی اے رحمان کے وہ کمزور آواز کا سہارا تھی، جابر کے سامنے اس کی آواز اور طاقتور ہو جاتی تھی۔ بقول وسعت اللہ خان کے ”جنہیں کوئی نہیں پوچھتا تھا وہ عاصمہ کا پتہ پوچھتے تھے،“ وہ ایک ایسے خاندان سے تھی جنہوں نے ہر آمر کے سامنے آواز حق بلند کی اور یہ خوبیاں ان کو دوسرے انسانوں سے ممتاز بناتی ہے۔

عاصمہ جہانگیر سے راوی کی شناسائی کوئی چار پانچ برس پہلے ہوئی تھی، جب ایک ہندو کو پاک کتاب کی بے حرمتی کے نام پر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، اور راوی نے مداخلت کرتے ہوئے ہندو نوجوان کو لوگوں کے گروپ سے چھڑوا کر پہلی کال ون فائیو پر کی اور دوسری کال عاصمہ کو کی۔

اس کے بعد جب کبھی انسانی حقوق کی کوئی معاملہ ہوتا تو راوی براہ راست عاصمہ جہانگیر سے رابطہ کرتا تھا، ایک بار موبائل فون پر تبدیل کرنے پر جب راوی نے آئی اے رحمان صاحب سے عاصمہ کا نمبر مانگا تو آئی اے رحمان نے ہنس کر کہا ”ہم کوئی چھولے بیچنے آئے ہیں، ہمیں بھی کچھ بتا دیا کرو۔“

راوی کی اہلیہ کو بھی عاصمہ کی شخصیت نے اس وقت بہت متاثر کیا جب اس نے کوئی چار پانچ برس کسی مسئلے کے سلسلے میں براہ راست عاصمہ سے رابطہ کیا تھا اور یوں راوی کا چھوٹا سا خاندان عاصمہ کا گرویدہ بن گیا۔

انسانی حقوق کیا ہوتے ہیں؟ وہ تو ان لوگوں کے لئے بھی بنیادی انسانی حقوق کی متقاضی تھی جو اس کو پیٹھ پیچھے اور اسکرین پر آ کر بھی گالیاں نکالتے تھے، طالبان جیسوں کے ماورائے عدالت قتل سے لے کر کسی معصوم کی سسکی تک وہ ہر آہ کو لبیک کہہ کر کسی بھی قسم کے نتائج کی پرواہ کیے بغیر پہنچتی تھی۔

قاضی حسین احمد کی تنظیم کی طرف سے ہمیشہ عاصمہ جہانگیر کو نشانہ بنایا جاتا تھا، لیکن فروری 2002 میں جب جنرل مشرف نے قاضی حسین احمد کو حراست میں لے کر ان کا تعلق دہشتگردوں سے بتانے کی کوشش کی، تب عاصمہ ہی اٹھی اور بولی ”قاضی حسین احمد صاحب سے ان کے لاکھ اختلافات لیکن وہ ایک سیاسی رہنما ہیں اور سیاست دانوں کو دہشت گردی سے جوڑنا سیاست کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔“

جہاں کوئی خواتین کو جانوروں اور سامان کی طرح بیچا خریدا جاتا تھا، وہاں عاصمہ نے خواتین کی پہلی تنظیم کی بنیاد رکھی، ریپ کا شکار بچی صفیہ کا کیس ہو، یا پھر صائمہ وحید کا کیس، عاصمہ نے بار پورے نظام کو چیلنج کیا، ضیاء الحق کے زمانے میں، 1983 میں ہونے والا نابینا بچی صفیہ کا ریپ کیس کون بھول سکتا ہے، جب ایک سفاک آمر کے بنائے قانون کے تحت ریپ کا شکار بچی کو سزا دے دی گئی، عاصمہ اٹھی اور سسٹم کو چیلنج کیا کہ یہ قانون غلط ہے، خواتین کو آزادی سے شادی کرنے کا حق، پاکستان کے قانون میں عاصمہ جہانگیر نے ہی دلوایا۔

عاصمہ جہانگیر اس ملک کی وہ پہلی خاتون تھی جس پر ضیاء الحق کی شوریٰ نے توہین رسالت کا الزام عائد کیا تھا، اور ایک پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی بنی جس میں وہ الزام سے بری ہو گئیں کیونکہ انہوں نے ایسی کوئی بات کی ہی نہیں تھی، صائمہ وحید کے کیس میں جب عدالت نے فیصلہ صادر کیا کہ کوئی لڑکی اپنے ولی کی غیر موجودگی میں شادی نہیں کر سکتی، جس پر عاصمہ جہانگیر ہی تھی جس نے اس قانون اور اس عدالتی فیصلے کو چیلنج کیا اور 1996 سے جاری یہ کیس دسمبر 2003 تک چلا اور بالآخر سپریم کورٹ کو ماننا پڑا کہ لڑکیوں کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق ہے۔

عاصمہ اتنی نڈر اور بہادر کہ وہ نہتی بھی سامنے آ جائے بندوقیں کانپنے لگتی تھیں، وہ پاکستان کی ایک ایسی بیٹی تھی جس کو کوئی غرض نہیں تھی کہ اس کو اپنی خدمات کے بدلے کچھ ملے گا کہ نہیں، ہمیشہ یہ فکر ضرور رہتی تھی کہ کہیں اس کی دھرتی کا کوئی معصوم کسی ”لکڑ بھگے“ یا ”بھیڑیے“ کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔ ظالم اگر طاقتور ہو تو اس کی دھاڑ اور گرجدار ہو جاتی تھی، عدالتوں سے لے کر منبروں اور ایوانوں تک ہر فورم پر وہ تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر بہادری کے ساتھ سچ بولتی تھی، اس کا سچ بہت سوں کو ناگوار بھی گزرتا لیکن اس نے کبھی کسی کی پرواہ نہیں کی۔

کشمیر کے برہان وانی سے لے کر، بلوچستان کے جوانوں تک وہ ہر کسی کے حق کے لئے اٹھنے والی آواز تھی، وہ ایک سچ تھی اور سچ کبھی نہیں مر سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments