ایشیئن ٹائیگر یا بھیڑ بکریاں



جب سال 2013 کا سورج طلوع ہوا تو ایک بار پھر ملک میں جنرل الیکشن کا چرچا تھا۔ 2013 کے جنرل الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ نون حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی اور میاں نواز شریف تیسری بار ملک کے جمہوری وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ اس وقت تقریباً 4 فیصد معاشی شرح نمو پر ملنے والی حکومت میں میاں نواز شریف کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا تھا جن میں مہنگائی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ قابل ذکر تھے۔

حکومت سنبھالنے کے بعد ایک عام تاثر یہ تھا کہ اس دفعہ شاید میاں نواز شریف اپنے پانچ سال پورے کریں گے مگر 2014 میں طاہر القادری اور عمران خان نے مل کر اسلام آباد میں دھاندلی کے خلاف اس وقت اجتماعی دھرنا دیا جب چائنہ کا صدر کا پاکستان کا دورہ طے تھا۔

میاں نواز شریف کی حکومت ابھی تباہ حال معیشت کے علاج میں مصروف عمل تھی کہ پاناما کیس نے ملکی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کر دیا اور اپوزیشن نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میاں نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ آخرکار پانامہ سے شروع ہونے والے کیس میں تو میاں صاحب کی نا اہلی نا ہو سکی مگر اپنے بیٹے سے تنخواہ نا لینے کی پاداش میں اقامہ پر میاں نواز شریف کو نااہل کر دیا گیا۔ میاں نواز شریف کی اقامہ پر نا اہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کے منصب کا بیڑا اپنے سر پر اٹھایا اور ملکی معاشی ترقی کو 5.8 فیصد پر لا کر چھوڑا۔ پاکستان کی اس معاشی ترقی کو دیکھ کر دنیا نے پاکستان کو 2030 تک ایشیئن ٹائیگر بننے کا عندیہ دینا شروع کر دیا۔ جب 2018 میں پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت کا وقت اقتدار ختم ہوا تو اس وقت پاکستان کی معیشت کی ترقی 5.8 فیصد پر براجمان تھی۔

2018 کے الیکشن کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اس کے بعد ملکی معیشت نے یک دم پلٹا مارنا شروع کیا اور عمران خان کی حکومت نے اس کو منفی میں لا کھڑا کیا جس سے ملک میں مہنگائی کے ایک نئے طوفان نے جنم لے لیا۔ پرانے پاکستان کی 5.8 فیصد پر پہنچی ہوئی معیشت 2019 میں تقریباً 1.90 فیصد تک گر کر 3.90 فیصد تک آ گئی اور اس کے بعد گرتی گرتی منفی ٹرینڈ میں چلی گئی۔ دکھ تو اس بات کا ہوتا ہے کہ افغانستان جو معاشی طور پر پاکستان سے بہت پیچھے تھا اب ہم سے آگے کھڑا ہے۔ اب اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو عمران خان کی پالیسیوں نے پاکستان کو افغانستان سے پیچھے دھکیل دیا ہے اور پاکستان کی غریب عوام مہنگائی کا رونا رو رو کر التجائیں کر رہی ہے کہ ہم پر رحم کھاو مگر ان کی سننے والا کوئی نہیں ہے۔

اب اگر دیکھا جائے تو پرانے پاکستان میں ڈالر کی قیمت 116 روپے تھی جو اب نئے پاکستان میں بڑھ کر کم و بیش 160 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو 2018 میں پاکستان کا گردشی قرضہ 1100 ارب روپے تھا مگر 2019 میں یہ قرضہ 1565 ارب روپے تک چلا گیا اور 2020 میں 2240 ارب روپے تک جا پہنچا۔ اب اگر دیکھا جائے تو 2018 میں پاکستانیوں کی فی کس آمدنی 1652 ڈالر تھی۔ عمران خان کے دور اقتدار میں فی کس آمدنی بالترتیب 2019 اور 2020 میں 1455 ڈالر اور 1355 ڈالر رہ گئی ہے۔ خدانخواستہ اگر فی کس آمدنی کے گرنے کی یہی رفتار رہی تو یہ بعید نہیں کہ غریب عوام کی چیخیں آسمان تک پہنچ جائیں۔

عمران خان کے دورحکومت کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس دور میں مافیاز نے حقیقی طور پہ جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستانی معیشت پر قابض ہو گئے جس کی وجہ سے مہنگائی کے طوفان نے غریب عوام کو بے بس کر دیا ہے۔ ہم اکثر حکومتی ترجمانوں کے نعرے سنتے ہیں کہ پیٹرول کی قیمت امریکہ میں پاکستان سے زیادہ ہے۔ اگر حکومتی ترجمان یہ بھی بتا دیں کہ امریکہ کے عوام کی فی کس آمدنی کتنی ہے، عوام کو یہ بھی بتا دیں کہ امریکہ میں پیدا ہونے والا بچہ حکومتی الاونس لے کر پیدا ہوتا ہے، عوام کو یہ بھی بتا دیں کہ امریکہ میں عوام کو بے روزگاری الاونس بھی ملتا ہے، یہ بھی بتا دیں کہ وہاں بیماروں کا مفت علاج ہوتا ہے، مگر ان حکومتی ترجمانوں کو پتہ ہے کہ اگر یہ سب بتا دیا تو حکومتی پراپیگنڈہ ٹھس ہو جائے گا۔ ان حکومتی ترجمانوں کو یہ بھی پتہ ہے کہ ہمارا کام صرف حکومت کے ساتھ پانچ سال پورے کرنا ہے نا کہ عوام کی خدمت، ان ترجمانوں کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ حکومت ختم ہونے کے بعد ہم نے تو بیرون ملک سدھار جانا ہے عوام جائے بھاڑ میں۔

عمران خان کا حکومت میں آنے سے پہلے عوام کو کروڑوں نوکریاں دینے کا وعدہ تھا، پچاس لاکھ گھر دینے کا وعدہ تھا مگر ان کی حکومت کے پہلے سال میں ہی پاکستان میں بیروزگاروں کی تعداد 6.65 ملین تک پہنچ گئی اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔ بیروزگاری دن بدن بڑھتی جا رہی ہے مگر غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ عمران خان کے امپورٹڈ لاڈلوں کی نوکریاں ضرور لگی ہوئی ہیں اور یہ لاڈلے ملک کو دونوں ہاتھوں سے بلا خوف و خطر لوٹ رہے ہیں۔

الیکشن سے پہلے بھیک مانگنے پر خودکشی کرنے کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے عمران خان نے ملک کو مکمل طور پر آئی۔ ایم۔ ایف کے سپرد کر دیا ہے۔ مختصر دورے پر پاکستان آئے آئی۔ ایم۔ ایف کے نمائندے کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا تھا اور آئی۔ ایم۔ ایف ہی کے ایک نمائندے کو گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان بنا دیا گیا۔ یوں دیکھا جائے تو اب آئی۔ ایم۔ ایف ہی ہماری معاشی اور اقتصادی پالیسیاں بنا رہی ہے۔

عمران خان کے حکومت میں آنے کے بعد یہ بھی دعوے تھے کہ پاکستانی مافیاوں سے نجات دلائی جائے گی اور غریب عوام کو مدنظر رکھ کر آزادانہ اقتصادی پالیسیاں بنائی جائیں گی مگر آج پاکستان سمیت دنیابھر کے مافیاز پاکستان پر قابض ہیں اور تمام اقتصادی پالیسیاں ان مافیاز کے فائدے میں بنائی جا رہی ہیں اور غریب عوام نفسیاتی مریضوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

اب لکھنے کو عمران خان کی بائیس سالہ جدوجہد کی طرح بائیس سال بھی لکھتے رہیں تو الفاظ ختم نا ہوں مگر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے بقول دنیا کے 2030 تک ایشیئن ٹائیگر بننے جا رہی پاکستان کی معیشت اب ایشیئن بھیڑ بکری کیوں محسوس ہو رہی ہے۔ ایسی کیا مجبوری تھی کہ سکھ کا سانس لیتی عوام کا سانس کیوں روک دیا گیا؟ اب یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی معیشت کی تباہ حالی کے بعد اور عمران خان کی حکومت کی ناکامی کے بعد عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دے دینا چاہیے؟ اگر یہ محب وطن ہیں تو نواز شریف سے استعفیٰ مانگنے والے عمران خان خود کیوں کرسی سے چمٹے بیٹھے ہیں؟

بقول شاعر:
اپنے سامان تعیش سے اگر فرصت ملے
بے کسوں کا بھی کبھی طرز معیشت دیکھیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments