صائمہ “رانیاز کلیکشنز” کو ملک کا مقبول ترین برینڈ بنانا چاہتی ہیں



صائمہ اقبال کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ خصوصی خاتون ہیں۔ رانیاز کلیکشنز کے نام سے اپنا آن لائن بزنس چلا رہی ہیں۔ انسیپشن اور کوئٹہ آن لائن کے ساتھ انسانی حقوق کے مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔

صائمہ کے والد صاحب آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ ریلوے پولیس سے بھی وابستہ رہے۔ جب کہ والدہ صاحبہ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔ والدہ صاحبہ پڑھائی کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کی بڑی حامی رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حقیقی علم تعلیمی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے مجموعے کا نام ہے۔ دونوں کے ملاپ سے متوازن اور صحت مند معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ نوے کی دہائی میں صائمہ کی والدہ سیف گیمز میں پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکی ہیں۔

خاندان سات بھائی، بہنوں پر مشتمل ہے۔ صائمہ سب سے بڑی ہیں۔ چاروں بہنیں شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔ دو بھائی قومی سلامتی کے اداروں سے وابستہ ہیں۔ جبکہ چھوٹے بھائی بی۔ ایس کے طالب علم ہیں۔

صائمہ کی کمر میں پیدائشی طور پر رسولی تھی جسے پیتھڈ کارڈ سنڈروم کہا جاتا ہے۔ والدہ صاحبہ تعلیم یافتہ تھیں اس لیے مرض کی حساسیت سے اچھی طرح واقف تھیں۔ علاج کے لئے مختلف شہروں کے نامی گرامی ڈاکٹرز سے رائے لی گئی۔ صائمہ ابھی تیسری جماعت میں تھیں کہ کھیلتے کھیلتے ان کے پاؤں میں چوٹ لگ گئی۔ یہ چوٹ ٹھیک ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ کئی سالوں بعد ایک آرتھو پیڈک کو دکھانے پر پتہ چلا کہ صائمہ کو ہڈیوں کا ٹی بی لاحق ہے۔ جس کی دواؤں کا سلسلہ ڈیرہ سال تک چلتا رہا۔ اس دوران پاؤں کا آپریشن بھی ہوا، ہڈی میں راڈ بھی ڈالا گیا۔

والدہ انھیں احساس محرومی سے بچانے کے لئے اکثر کہا کرتیں کہ یہ بیمار ہے مگر معذور نہیں۔ کمر کی تکلیف کی وجہ سے یہ جھک کر چلا کرتی تھیں۔ اس وجہ سے انھیں بچے کبڑی کہ کر پکارا کرتے تھے۔ صائمہ نے والدہ کی نصیحت کو اس طرح پلے باندھ رکھا تھا کہ لوگ معذوری کے طعنے دیتے لیکن انھیں کوئی پرواہ نہ ہوتی۔

صائمہ نے تمام تر تعلیم نارمل سکولوں سے حاصل کی۔ ڈاکٹر بننے کی خواہش مند تھیں۔ نویں جماعت میں سائنس اور آرٹس کے انتخاب کے وقت والدہ نے انھیں آرٹس رکھنے پر مجبور کیا۔ کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ شاید صائمہ سائنس کی مشکل تعلیم کا بوجھ نہ اٹھا سکیں۔ میٹرک کے شاندار رزلٹ کو دیکھتے ہوئے والدہ نے کہا کہ تمھیں سائنس نہ پڑھا کر میں نے بڑی غلطی کی۔

نویں جماعت کے دوران صائمہ کے والد صاحب کی ملاقات کسی پیر بابا سے ہوئی۔ جن کے مشورے پر چلتے ہوئے انھوں نے نوکری اور خاندان کو خیر باد کہ دیا۔ جس کی وجہ سے خاندان کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

صائمہ نے گھر کے نامناسب حالات کو دیکھتے ہوئے والدہ سے نوکری کرنے کی اجازت مانگی۔ جسے انھوں نے مسترد کر دیا۔ صائمہ کی جسمانی حالت کچھ اس طرح کی تھی کہ یہ جھک کر چلتی تھیں، چلتے چلتے لنگڑایا کرتی تھیں اور بغیر کسی وجہ کے گر جایا کرتی تھیں۔

میٹرک کے بعد فوجی فاؤنڈیشن سے ایف اے کیا، پھر پی ٹی سی اور ووکیشنل ٹریننگ کے متعدد کورسز کیے۔ اس وقت تک ان کی چھوٹی بہن بھی نوکری کے لئے تیار ہو چکی تھی۔ جب چھوٹی بہن نے نوکری کی ضد کی تو والدہ نے دونوں بہنوں کو نوکری کرنے کی اجازت دے دی۔

چھوٹی بہن سے صائمہ کی خوب لڑائی ہوا کرتی تھی اور دوستی بھی پکی تھی۔ بچپن سے یہی صائمہ کا ساتھ دیتی آئی ہیں۔ چھوٹی بہن صائمہ کا ہاتھ پکڑ کر انھیں سکول لے جایا کرتیں۔ صائمہ کو چھوٹے بچوں کو پڑھانا اچھا لگتا تھا۔ بچوں سے اتنی پکی دوستی ہوا کرتی تھی کہ یہ سٹوڈنٹس کم اور دوست زیادہ نظر آتے تھے۔ چھ، سات سال نوکری کے بعد صائمہ نے محسوس کیا کہ اب ان کے لیے کھڑا ہونا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ پھر انھوں نے رسک لینے کے بجائے نوکری کو خیر آباد کہ دیا اور گھر بیٹھ گئیں۔

صائمہ گھر بیٹھ جانے کے بعد مایوسی میں مبتلا تھیں۔ والدہ صاحبہ نے انھیں پریشان دیکھا تو کہا کہ نوکری چھوڑنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پکی پکی گھر میں بیٹھ جائیں۔ پھر انھیں ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں ڈال دیا گیا۔ جہاں انھوں نے ڈریس ڈیزائننگ، سٹون کارونگ، فائن آرٹس، کمپیوٹر، آفس اسسٹنٹ وغیرہ کے بہت سے کورسز کیے۔ ایک کورس ختم ہوتا تو دوسرا شروع ہو جاتا۔ اس طرح یہ سلسلہ کئی سالوں تک چلتا رہا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ صائمہ نے ہر کورس کو چلینج سمجھ کر قبول کیا اور ہر کورس میں پہلی یا دوسری پوزیشن حاصل کرتیں۔

ڈریس ڈیزائننگ کا کورس کیا تو انعام میں سلائی مشین ملی، کمپیوٹر کا کورس کیا تو انعام میں کمپیوٹر ملا، فائن آرٹس کا کورس کیا تو پرنسپل نے بلا کر خوب شاباش دی اور آفس اسسٹنٹ کا کورس کرنے کو کہا۔ یہ کورس دوسری منزل پر ہوا کرتا تھا صائمہ کے لئے دوسری منزل تک جانا مشکل تھا۔ اس لیے پرنسپل نے صائمہ کی بہن کو بھی کورس آفر کر دیا۔ بہن انھیں پکڑ کر اوپر لے جایا کرتیں۔ اس کورس کے نتیجے میں صائمہ کو لیپ ٹاپ انعام میں ملا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹانگوں کی کمزوری بڑھنا شروع ہو گئی اور صائمہ ایک بار پھر گھر میں بیٹھ گئیں۔ بہنوں کی ایک ایک کر کے شادی ہو گئی۔ ایک دن والدہ صائمہ سے کہنے لگیں کہ آپ نے جو کورسز کیے ہیں وہ کیا صرف ٹائم پاس کرنے کے لئے کیے تھے۔ اس طرح والدہ کے مشورے سے گھر میں ووکیشنل ٹریننگ سینٹر قائم کیا جہاں سلائی کڑھائی سے لے کر مختلف قسم کے کورسز کروائے جاتے ہیں۔ صائمہ کے سینٹر سے اب تک ڈیرہ سو سے زائد لڑکیاں ٹریننگ حاصل کر کے خود بھی کما رہی ہیں اور دوسروں کو بھی کمانا سکھا رہی ہیں۔

صائمہ کہتی ہیں کہ یہ جس علاقے میں رہتی ہیں وہاں لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اس لیے زیادہ تر لڑکیوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی آٹھویں اور دسویں جماعت کے بعد تعلیمی سلسلے کو خیر آباد کرنا پڑ جاتا ہے۔ صائمہ کے سینٹر سے پہلے اس علاقے میں صرف کشیدہ کاری کا کام کیا جاتا تھا۔ لیکن صائمہ کی سٹوڈنٹس نے سلائی، کڑھائی، کروشیاء اور نٹنگ کا کام شروع کر کے روزگار کے نت نئے طریقے متعارف کروا دیے ہیں۔

پہلے پہل صائمہ کا کام دکانوں کو فروخت کر دیا جاتا تھا جس کی بہت کم قیمت ملا کرتی تھی۔ اس لیے صائمہ نے 2018 ء میں ”رانیاز“ کے نام سے اپنا برینڈ متعارف کروایا۔ جس کے نت نئے ڈیزائنوں نے مختصر سے عرصے میں عوام کے دلوں جگہ بنا لی۔ اس وقت ”رانیاز کلیشکنز“ شہر کے مشہور برانڈز میں سے ایک ہے۔

دو سال قبل صائمہ کی ملاقات زرغونہ ودود سے ہوئی اس طرح صائمہ انسیپشن کا حصہ بن گئیں۔ اب صائمہ بزنس وومن ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل ورک بھی کر رہی ہیں۔

صائمہ مستقبل میں خصوصی خواتین کے لئے جدید طرز کا ری ہیب لی ٹیشن سینٹر قائم کرنا چاہتی ہیں۔ جہاں کھیلوں کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ووکیشنل ٹریننگ کورسز کروائے جائیں گے۔

صائمہ کہتی ہیں کہ خصوصی خواتین اپنے آپ کو کچھ نہ کچھ سیکھنے میں مصروف رکھیں۔ انشا اللہ
راستے خود بخود نکلنا شروع ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments