کچھ ناروے کی موسیقی کے بارے میں


اور کئی آرٹ کی طرح ناروے موسیقی میں آگے رہا۔ ناروے کے قدیمی سازوں میں بکرے کی سینگ سے بنا ساز، ماوتھ آرگن، ٹرمپٹ، آکارڈین اور بانسری شامل ہے۔ پھر پیانو، وایلن اور گٹار نے جگہ بنائی۔ پیانو بہت مقبول ہے۔ اکثر گھروں میں ہوتا ہے اور کوئی نہ کوئی بجانے والا بھی۔

ناروے نے اپنی ہر قسم کی تاریخ کو محفوظ کیا ہوا ہے۔ اپنی سیاسی کاوشوں، سماجی خدمات، لکھنے والوں کی تحاریر، فنکاروں کی تاریخ سب دستاویز ہو چکی ہے اور محفوظ ہے۔ تاریخ بھی کافی حد تک غیر جانبدارانہ طور پر لکھی ہے۔ موسیقی کی تاریخ میں ہمیں کئی بڑے نام ملتے ہیں ناروے کی میوزک کی تاریخ 1695 تک جا مل جاتی ہے۔

ایڈورڈ گریگ (EDVARD GRIEG – 1843- 1907) بلاشبہ ناروے کا عظیم ترین کمپوزر تھا اور ہے۔ اس کی موسیقی میں رومانس مقامی موسیقیت کی ایک سحر انگیز ہم آہنگی ہے۔ اس نے فوک اور کلاسیک میوزک کے امتزاج سے بہت ہی مدھر قسم کی دھنیں بنائیں۔ یہ ایسی موسیقی ہی جو کبھی پرانی نہیں ہو گی۔ ہر دور میں اسے سنا اور سراہا جاتا رہا ہے۔

گریگ کا تعلق شہر برگن کے ایک تعلیم یافتہ اور امیر گھرانے سے تھا۔ برگن اس زمانے میں ثقافتی شہر تھا اور ہر طرح کے آرٹ کی یہاں افزائش اور حوصلہ افزائی ہو رہی تھی۔

یوں تو پورے ناروے میں گریگ کی شہرت اور عزت ہے لیکن برگن میں تو اسے پوجا جاتا ہے۔ جگہ جگہ اس کے مجسمے ہیں۔ شہر کی ثقافتی محفلیں اس کے نام سے سجائی جاتی ہیں۔ شہر کا سب سے بڑا میوزک ہال اس کے نام ہر ہے۔

پانچ چھہ سال کی عمر سے ہی گریگ نے موسیقی باقاعدہ سیکھنی شروع کردی۔ استاد گھر میں ہی تھا۔ اس کی اپنی ماں جو پیانو کی ماہر تھی۔

1858 میں جب گریگ کی عمر پندرہ سال تھی ناروے کے مشہور وائلنسٹ اولے بل نے گریگ کو پیانو بجتے سنا اور اس کی صلاحیتوں کو بھانپ کر گریگ کے والدین کو راضی کر لیا کہ وہ اسے میوزک کی اعلی تعلیم کے لیے جرمنی کی یونیورسٹی لیپیز میں بھیج دیں جہاں وہ پیانو کو گہرائی میں جا کر سیکھ سکے۔ گریگ نے کئی کنسرٹ میں پرفارم بھی کیا۔ گریگ کے اپنے بقول اس کے دو سال وہاں بہت اچھے رہے لیکن ابھی اس کے اندر کی تشنگی باقی ہے۔ اور اسے ابھی اور بہت کچھ سیکھنا ہے۔

اسکول میں اس کا دھیان موسیقی کی طرف لگا رہتا۔ وہ لگے بندھے اصولوں کے بجائے خود اپنی اختراع سے دھنیں تخلیق کرتا۔

گریگ کمزور صحت کا تھا۔ 1860 میں دو بار شدید بیمار ہوا اور مرتے مرتے بچا۔ ٹی بی اور پھیپھڑوں کی بیماری کے ساتھ سانس کی اور دل کی بھی۔ بایاں پھیپھڑا بالکل بے کار ہو چکا تھا جس کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی میں بھی خم آ گیا۔ کئی بار اسپتال اور سینی ٹوریم میں علاج کی غرض سے داخل رہا۔

اس زمانے میں ڈنمارک کا کوپن ہیگن موسیقی کا گڑھ تھا۔ گریگ بھی وہاں منتقل ہو گیا۔ وہاں اس ملاقات اپنی کزن نینا سے ہوئی جو خود بھی میوزک کے شعبے میں نام رکھتی تھی۔ دونوں ایک خفیہ رومانس میں مبتلا ہو گئے۔ خفیہ اس لیے کہ کزنز کی محبت کچھ اچھی نگاہ سے کہیں دیکھی جاتی۔ اور کچھ اس لیے بھی کہ گریگ کا ذریعہ معاش مستحکم نہ تھا۔ گریگ کے والد اس پر سخت ناراض تھے۔ اور نینا کی ماں کے الفاظ میں تو گریگ کسی کام جوگا نہیں۔ ایسی موسیقی بناتا ہے جو کوئی سنتا ہی نہیں۔ 1865 میں دونوں نے منگنی کر لی۔ گریگ نے منگنی کا تحفہ چار گیتوں کی صورت میں نینا کو دیا۔ 1867 میں شادی کی دونوں کے خاندان کو کوئی فرد اس میں شریک نہیں ہوا۔ زندگی میں کئی اتار چڑھاو کے بعد آخر کار گریگ کی محنت رنگ لائی۔ اسے کام ملنے لگا وہ بھی اپنی مرضی کا۔ اس نے اپنے دور کے مشہور اور مقبول ڈرامہ نویس بیورنستیارنے بیورنسن اور ہنرک ابسن کے ڈراموں کے لیے میوزک تخلیق کی اور ملک کا عظیم موسیقار بنا۔

آگاتھا بیکر گروندال (Agathe Backer Grøndahl – 1847- 1907):

یہ خاتون میوزیشن اپنے وقت کی نامور موسیقار تھی۔ اور ابھی تک اس کی بنائی ہوئی موسیقی سنی اور سراہی جاتی ہے۔ یہ پیانو کی ماہر تھی اور اپنے نوٹس خود تخلیق کرتی تھی۔ یہ ایڈورڈ گریگ کے زمانے میں تھی اور اس وقت گریگ موسیقی کا سورج بنا ہوا تھا جس کے آگے کسی اور کا چراغ جلنا ممکن ہی نہ تھا وہ بھی ایک عورت کا۔ لیکن آگاتھا گرندال کے فن کا چراغ ستارہ بن کر چمکا۔ اب حال ہی میں اس کی موسیقی کے سی ڈیز ریلیز ہو گیں۔

وہ چار بہنیں تھیں اور اس کا نمبر تیسرا تھا۔ سب بہنیں مصوری اور موسیقی سے جڑی ہوئی تھیں۔ اس زمانے میں ناروے میں لڑکیوں کا میوزک میں حصہ لینا عام بات تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دور ناروے کی موسیقی کی تاریخ میں سب سے سنہرا دور تھا۔ آگاتھا نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم ناروے سے حاصل کی پھر اعلی تعلیم کے لیے جرمنی گئی۔ برلن میں اس نے بیتھوین کی دھن ایمپریر آف کونسرٹو اپنے انداز میں بجائی اور سننے والوں کو حیران کے ساتھ ساتھ محظوظ بھی کیا۔ آگاتھا کو شہرت ملی۔ اس کی موسیقی کو سننے اور سمجھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔

agathe-backer-grondahl

1865 اے لے کر 1867 تک وہ لندن برمنگھم میں پرفارم کیا۔ اور جارج برنارڈ شا کے شو میں بہترین آرٹسٹ سمجھی گئی۔ اس کی موسیقی میں فنکاری کے ساتھ ساتھ جذبات اور احساسات کا رچاو تھا۔ 1889 میں اس نے پیرس میں بھی سننے والوں کو مسحور کیا۔ اس نے لگ بھگ 190 گیت تخلیق کیے اور 120 پیانو کی دھنیں بنائیں۔

1868 میں اس نے ایڈورڈ گریگ کے ساتھ مل کر کام کیا۔ گریگ نے اسے پوری طرح سپورٹ کیا اور کسی قسم کی رقابت نظر نہیں آئی۔ گریگ کے ساتھ ناروے میں یہ اس کا سب سے بڑا کنسرٹ تھا۔ تیس سال کی عمر سے اسے کانوں میں تکلیف رہنے لگی اور 1900 میں وہ سماعت سے مکمل محروم ہو چکی تھی۔ 1901 میں اس نے آخری بار سویڈن اور فن لینڈ میں پرفارمنس دی اس کے بعد ریٹائر ہو گئی اور میوزک سکھانے کا کام کرنے لگی۔

دونوں موسیقاروں کی دھنیں یو ٹیوب پر دستیاب ہیں۔

A-Ha

اگر پاپ میوزک کی طرف دیکھیں تو ناروے میں ایک بڑا نام ”آہا“ کا ہے۔ اسی کہ دہائی میں تین خوش شکل نوجوانوں نے اپنا بینڈ متعارف کروایا اور صرف ناروے میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھی میں مشہور ہوئے۔ اسی سال کے آخر تک وہ کئی ایوارڈ جیت چکے۔ اور ان کی پلاٹینیم البم نے بھی دھوم مچا دی۔ اس بینڈ میں پال واٹکور، ماگنے فوروھولمن، اور مورٹن ہارکیٹ تھے۔

انہوں نے گروپ کا نام آہا کیوں چنا؟ اس کی وضاحت وہ خود کرتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا نام چاہتے تھے جو صرف ناروے ہی میں بلکہ دنیا بھر بھی کہنا اور سمجھنا آسان ہو اور پر معنی بھی۔ ایک چھوٹے سے ملک ناروے کے بینڈ کا انٹرنیشنل میوزک دنیا میں اپنی جگہ بنانا بہت مشکل کام ہے۔ ان کے سامنے اس وقت کے شہرہ آفاق بینڈ ڈیرون ڈیورن تھا۔ لیکن آہا کا ہنر اور موسیقی سے ان کی وابستگی نے انہیں دنیا بھر میں شہرت دی۔

آہا نے 1985 میں اپنی البم ہنٹینگ ہائی اینڈ لو ریلیز کی اور یہ ان کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ ناروے میں نمبر ایک رہی۔ یوکے میں نمبر دو اور یو ایس اے میں بل بورڈ پر پندرہ نمبر پر۔ 1998 میں نوبل کنسرٹ میں پرفارمنس نے انہیں اور بھی ہردلعزیز بنا دیا۔

سال 2000 اور 2002 میں ان کی لگاتار دو البم کامیاب ہوئیں۔ کئی کامیاب البمز کے باوجود جیسا کہ ہوتا رہا ہے بینڈ نے اعلان کیا کہ وہ اب جدا ہو رہے ہیں۔ ان کے فینز کے لیے یہ ایک بہت بری خبر تھی۔ تینوں ساتھیوں نے الگ سولو کام شروع کیے۔ 2015 میں ایک بار پھر یہ اکٹھے ہوئے۔ راک ان ریو میں کامیابی سے پرفارم کیا اور فینز نے بھی انہیں شوق سے سنا۔ اب یہ ساٹھ کے پیٹے میں ہیں اور وہ جوش اور ولولہ باقی نہیں۔

ABBA

میوزک سے ذرا سا بھی شغف رکھنے والوں کے لیے یہ نام ناآشنا نہیں۔ یہ بینڈ 1972 میں سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں قائم ہوا۔ یہ چار لوگوں کا بینڈ تھا۔ اگنیتھ فالسکوگ، بیورن اولوے وس، بینی انڈیرسون اور اینی فرید لینگستاد پر مشتمل تھا۔ گروپ کا نام بھی ان کے ناموں کے پہلے حرف کو لے کر بنایا گیا۔ یہ بینڈ اپنے وقت کا مشہور ترین اور کامیاب ترین بینڈ تھا۔ بینڈ نے 1974 میں یورو ویژن سونگ کونٹسٹ میں حصہ لیا اور شاندار طریقے سے جیتے۔ اور پھر پیچھے مڑ کے نہ دیکھا۔ مدھر موسیقی، خوبصورت بول اور مترنم آوازیں سب نے مل کر انہیں شہرت کی بلند ترین منزل تک پہنچا دیا۔

اب یہ بات کہ بینڈ تو سویڈیش ہے اور مضمون ناروے کے بارے میں تو کیا ہم حق ہمسائگی ادا کر رہے ہیں ہیں؟ جی نہیں۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ اس بینڈ کی ایک گلوکارہ اینی فرید جنہیں فریدا کہا جاتا ہے آدھی نارویجین تھیں۔ ماں نارویجین اور باپ جرمن سپاہی تھا۔ وہ سویڈن میں پلی بڑھی اور 1967 میں جاز موسیقی سے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ ایک مقابلے میں حصہ لیا اور جیت گئی۔ بینڈ سے جڑ کر وہ بھی شہرت کی بلندی پا گئی۔

Meryl Streep, Agnetha Fältskog, Lyngstad (centre), Christine Baranski and Colin Firth

اس کی زندگی بھی دلچسپ رہی۔ 1964 میں راگنار فردیکسون سے شادی کی۔ دو بچے ہوئے اور 1970 میں طلاق ہو گئی۔ آبا بینڈ کے دو ساتھی بیورن اور اگنیتھ نے آپس میں شادی کر لی۔ اور اینی نے بھی دوسرے مرد بینی سے شادی کر لی۔ چاروں کی آپس میں یہ محبتیں ایک مثال بن گیں۔ لیکن جیسا کہ ہوتا رہا ہے۔ بینڈ ٹوٹا۔ شادیاں ٹوٹیں فریڈا نے 1980 میں طلاق لے لی۔ اور 1992 میں ہینرچ روزو کاونٹ آف پلاون سے شادی کی جو جرمنی کی ایک ریاست کا شہزادہ تھا اور سویڈن میں پیدا ہوا۔ اس کا لقب پرنس تھا اس لحاظ سے فریدا بھی پرنسس کہلائی۔ 1999میں ہینرچ بیماری سے فوت ہو گیا۔ اب فریدا اپنے برطانوی پارٹنر کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ مستقل رہائش سویٹزرلینڈ میں ہے۔

A concert in Norway

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments