’ش‘ اعصاب پر سوار!


حسب توقع عید الفطر کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر ہی قائد حزب اختلاف، مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کا نام علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کے لیے بدنام زمانہ ای سی ایل پر ڈال دیا گیا۔ ساتھ ہی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے مطابق نیوی اور ائرفورس کو بھی شہباز شریف کی بیرون ملک روانگی کے حوالے سے الرٹ کر دیا گیا ہے، بری فوج کا نام نہیں لیا گیا شاید اس لیے کہ عام آدمی کے نزدیک خان صاحب کے مقتدر اداروں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی بنا پر اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔

شہباز شریف کو ای سی ایل پر ڈالنے کا ایک جواز یہ بھی پیش کیا گیا کہ ان کے خلاف کیس میں 4 ملزم سلطانی گواہ بن چکے ہیں اگر انہیں باہر جانے کی اجازت دی جاتی تو وہ ثبوتوں میں ردو بدل اور سلطانی گواہوں پر اثرانداز ہوسکتے تھے۔ یعنی شہباز شریف جو چند روز پہلے تک لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت ہونے سے قبل نیب کیسز میں پابند سلاسل تھے، ملک و قوم کے لیے اتنا بڑا خطرہ ہیں کہ ان کے بیرون ملک جانے سے پاکستان کے لیے گونا گوں مسائل پیدا ہوں گے۔

وزیرداخلہ نے حکومت کے اس خدشے کا برملا اظہار کیا ہے کہ برادر خورد اگر واپس نہ آئے تو میاں نواز شریف بھی جن کے شہباز شریف ضامن ہیں، واپس نہیں آئیں گے۔ گویا کہ جیسے نواز شریف سامان باندھے پاکستان کی طرف پابہ رکاب ہیں حالانکہ میاں صاحب کی ممکنہ واپسی کا تعلق شہباز شریف کی آنیوں جانیوں سے نہیں ہے بلکہ ان کی اپنی سیاسی اور ذاتی مصلحتوں سے ہے اور وہ کیونکر جیل کی ہوا کھانے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں گے۔ دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ میں شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روکنے کے معاملے پر عدالت کے حکم پر عمل درآمد کے لیے متفرق درخواست دائر کر دی گئی ہے۔

درخواست گزار شہباز شریف نے موقف اپنایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی لیکن عدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ جسٹس علی باقر نجفی درخواست پر آج سماعت کریں گے۔ تاہم عدالت نے توہین عدالت کی درخواست اعتراض لگا کر واپس کر دی۔ لاہور ہائی کورٹ آفس نے شہباز شریف کی توہین عدالت کی درخواست پر اعتراض کیا کہ کورونا ایس او پیز کی وجہ سے توہین عدالت کی درخواستوں کی سماعت نہیں ہو رہی ہے۔

علاوہ ازیں وفاقی حکومت نے شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ وزارت داخلہ کے ذریعے دائر اپیل میں موقف اختیار کیا گیا لاہور ہائیکورٹ نے متعلقہ حکام سے جواب مانگا نہ کوئی رپورٹ، بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا یک طرفہ فیصلہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ شہباز شریف کے واپس آنے کی کوئی گارنٹی نہیں اور وہ نواز شریف کی واپسی کے ضامن ہیں جب کہ شہباز شریف کی اہلیہ، بیٹا، بیٹی اور داماد پہلے ہی مفرور ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہباز شریف کیونکر حکومت کے اعصاب پر سوار ہیں۔ عمران خان سعودی عرب کے انتہائی اہم دورے پر تھے جب لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کی ضمانت منظور کی۔ وزیر اعظم لاہور ہائیکورٹ کے ضمانت دینے کے فیصلے سے اتنے اپ سیٹ تھے کہ انہوں نے وطن واپس پہنچنے کے بعد اعلیٰ سطح کا اجلاس بلایا جس میں یہ حکم صاد ر کیا کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کہیں جانے نہ پائیں گویا کہ جس انداز سے گزشتہ نومبر میں نواز شریف حکومت کو غنچہ دے کر شدید خرابی صحت کی بنیاد پر ’بغرض علاج‘ لندن جانے میں کامیاب ہوئے تھے وہ اس سبکی کی خفت کو بھول نہیں پائے، حالانکہ دیکھا جائے اگر عدلیہ کو دی گئی یقین دہانی کے باوجود شہباز شریف واپس نہیں آتے تو اس میں حکومت کا کیا نقصان ہے۔

دراصل مسئلہ کچھ پیچیدہ ہے، ان کی دوبارہ فعالیت کو سیاسی حلقے اس نظریے سے دیکھ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور مقتدر قوتوں کی صلح ہو گئی ہے گویا کہ (ن) لیگ اگلے انتخابات میں اقتدار میں آیا ہی چاہتی ہے اس کے قلابے مریم نواز جو پہلے جانشین اول کے طور پر دیکھی جا رہی تھیں کی نسبتاً خاموشی بلکہ کنارہ کشی سے ملائے جا رہے ہیں۔ خان صاحب کو بھی حالیہ چند ہفتوں کی سیاسی صورتحال دیکھنے کے بعد یقیناً یہ ادراک ہوا ہو گا کہ برسراقتدار مخلوط حکومت کے لیے ضمنی انتخابات بالخصوص پنجاب میں ہونے والے انتخابی معرکوں میں مسلم لیگ (ن) کی فتح اور پی ٹی آئی کی مسلسل شکست اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ اگر گورننس کے حالات یہی رہے تو عام انتخابات میں بھی حکومتی اتحاد کو شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

اس پر مستزاد حکمران جماعت کے اندر پڑی ہوئی دراڑیں جو پر ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ کم از کم چالیس ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کا کھل کر جہانگیر ترین کا ساتھ دینا خان صاحب کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ حکمران جماعت کے اتنی بڑی تعداد میں ارکان کا اپنی لیڈر شپ کے خلاف کھل کر سامنے آجانا کچھ عجیب سی بات ہے۔ اس قسم کی صورتحال پاکستانی سیاست میں ماضی میں اسی وقت دیکھنے میں آئی جب حکومت کا سنگھاسن ڈول رہا ہو۔

بد قسمتی سے خان صاحب اس تمام صورتحال سے نبٹنے کے لیے سیاسی اقدامات کرنے کے بجائے سرکاری قسم کے انتظامی طریقوں سے مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ صورتحال حکومت کی ناکامی کی غمازی کرتی ہے۔ مریم نواز شیخوپورہ میں مسلم لیگ کے رکن اسمبلی جاوید لطیف کے گھر گئیں۔ اس موقع پر طلال چودھری، مریم اورنگزیب، پرویز رشید، خرم دستگیر اور پارٹی کے دیگر رہنما بھی موجود تھے اور انہوں نے ان کے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کیا۔

واضح ر ہے کہ جاوید لطیف غداری کے الزام میں پابند سلاسل ہیں۔ جا وید لطیف جذبات کی رو میں بہہ کر ہوش کے بجائے جوش سے کام لے گئے لیکن ہمیں غداری کی فیکٹریاں جو دن رات چلتی ہیں اب بند کر دینا چاہئیں۔ تین روز قبل اے این پی کی رہنما بیگم نسیم ولی خان کا انتقال ہو گیا، یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ محترمہ کا سارا خاندان غداری کے الزامات بھگتتا رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ولی خان اینڈ کمپنی پر اس حوالے سے حیدرآباد ٹریبونل کیس بھی بنایا۔ یہ وہ دور تھا جب میاں نواز شریف کی طرز کے سیاستدان فوجی آمروں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے غداری کے کھلم کھلا الزامات لگاتے تھے، اب ان الزامات کے لئے قرعہ فال پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے نام نکلا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments