بلھے شاہ کا ”آئی صورت“ سچا رہنے کا فلسفہ


بلھے شاہ مصر رہے کہ ”رب“ کا ذکر ضروری نہیں۔ خالق کائنات اپنی ستائش کی بابت بے نیاز ہے۔ انسان کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ ”آئی صورتوں“ سچا رہے۔ ”آئی صورت“ کا مناسب مترادف اردو زبان میں غالباً لمحہ موجود ”ہو سکتا ہے۔ اسے ذہن میں رکھیں تو بلھے شاہ کا پیغام یہ ہے کہ جس موضوع کا ذکر ہو رہا ہے اس کے بارے میں فقط حقائق پر توجہ دی جائے۔ پیر کی شام قومی اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی عوام پر نازل ہوئی تازہ ترین بربریت کا ذکر کرتے ہوئے“ ہمارے نمائندے ”اس تناظر میں محض ماتم کنائی میں مصروف رہے۔“ آئی صورت ”کے تلخ حقائق کو اجاگر کرنے سے گریز کیا۔

کلیدی سوال یہ تھا کہ مسلم امہ اگر واقعتاً پرخلوص انداز میں یکجا ہو بھی جائے تو اسرائیل کو وحشیانہ بمباری سے روکنے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔ اس سوال کا جواب کسی ایک رکن قومی اسمبلی نے ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت یعنی پاکستان مسلم لیگ (نون) کے سربراہ شہباز شریف صاحب نے جذباتی آواز میں تجویز یہ دی کہ اس ہفتے میں آنے والے جمعہ کا دن ”القدس“ کے نام کر دیا جائے۔ ملک بھر میں فلسطینیوں سے یکجہتی کے اظہار کے لئے جلوس نکالے جائیں۔ اسلام آباد میں ہوئے مظاہرے کے قائدین بعد ازاں اس شہر میں قائم اقوام متحدہ کے دفتر جائیں۔ وہاں موجود حکام کو ”قومی اتفاق رائے“ سے تیار ہوئی ایک قرارداد تھمائی جائے۔ اس قرارداد کے ذریعے اقوام متحدہ کو سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کو مجبور کیا جائے۔

شہباز صاحب میری دانست میں یہ تجویز پیش کرتے ہوئے جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظرانداز کر گئے کہ اسرائیل کی ”مذمت“ کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس گزشتہ ہفتے بھی ہوا ہے۔ اس کے اختتام پر کوئی مذمتی قرارداد مگر جاری نہ ہو پائی کیونکہ امریکہ نے تجویز کردہ قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ ہماری کاوشوں سے ہوئے اجلاس کا بھی ایسا ہی انجام ہوگا۔ امریکہ کو رضا مند کیے بغیر اقوام متحدہ کو اسرائیل کو بربریت سے روکنے کے لئے متحرک کرنا ممکن ہی نہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ ”مسلم امہ“ یکسو ہو کر بائیڈن انتظامیہ کو اسرائیل کی اندھی حمایت سے روک سکتی ہے یا نہیں۔ میں بدنصیب اس کا جواب ”نہیں“ میں دینے کو مجبور ہوں۔

ہمارے وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی صاحب ایک کائیاں شخص ہیں۔ ہماری ”اوقات“ خوب جانتے ہیں۔ قوم کو مگر یہ تاثر دینے میں مصروف رہے کہ وزیر اعظم پاکستان چند دن قبل جب سعودی عرب میں تھے تو غزہ پر بمباری کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کی بابت پریشان ہوئے عمران خان صاحب نے فوراً او آئی سی کے سیکرٹری جنرل سے رابطہ کیا۔ ان کی کاوش او آئی سی کے ہنگامی اجلاس میں منتج ہوئی۔ یہ اجلاس مگر اسرائیل کو وحشیانہ کارروائیوں سے روک نہیں پایا۔ فیصلہ اب یہ ہوا ہے کہ شاہ محمود قریشی صاحب ترکی جائیں۔ وہاں کی حکومت سے صلاح مشورے کے بعد پاکستان اور ترقی کے وزرائے خارجہ ایک ہی طیارے میں بیٹھ کر نیویارک چلے جائیں۔ نیویارک پہنچنے کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلوانے کی سعی کی جائے۔

شاہ محمود قریشی صاحب دوسری مرتبہ ہمارے وزیر خارجہ بنے ہیں۔ گیلانی اور عمران حکومت کے دوران ان کے اس منصب پر براجمان رہنے کا عرصہ شمار کیا جائے تو پانچ کے قریب برس بنیں گے۔ ان برسوں کی بدولت شاہ محمود قریشی صاحب جیسے ذہین و فطین آدمی بخوبی دریافت کرچکے ہوں گے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فقط تقاریر ہوتی ہیں۔ کسی ملک کو جارحیت سے روکنے کا اختیار محض سلامتی کونسل کو میسر ہے اور وہاں بیٹھے پانچ مستقل اراکین کو ویٹو کا حق بھی حاصل ہے۔ کمیونسٹ روس اس حق کو کئی برسوں تک کشمیر پر پیشرفت روکنے کے لئے استعمال کرتا رہا۔ اسرائیل کی حمایت میں امریکہ بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ہمارے حکمران مگر عوام کو اپنی ”آنیاں جانیاں“ دکھانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ تاثر یہ دینا مقصود ہے کہ ”مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا“ ۔ اس کے بعد شاید یہ مصرعہ ہونا چاہیے کہ ”امریکہ ہی نہ چاہے تو میں کیا کروں“ ۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے ذریعے پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات نے بھی ایک بار ”تاریخ“ بنائی تھی۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ اردن سے فرار ہو کر لبنان میں پناہ گزین ہوئے فلسطینیوں اور ان کی قیادت کے خلاف لبنان کی مسیحی جماعتیں متحرک ہو گئیں۔ فلسطین کے مسیحی کئی برسوں تک پی ایل او کے دل و جان سے حامی رہے ہیں۔ لبنان میں ہوئی خانہ جنگی نے مگر فلسطین کو محض ”مسلمانوں کا مسئلہ“ بنا دیا۔ ”اسلام“ فلسطین۔ اسرائیل جھگڑے کا بنیادی سبب نظر آیا تو حماس نے
”سچے مسلمان مجاہد“ سیکولر پی ایل او کے مقابلے میں کھڑے کرنا شروع کر دیے۔ اسرائیل لبنان کے مسیحی عوام کے ”تحفظ“ کے لئے اس ملک میں در آیا۔ صابرہ اور شطیلہ کے مہاجر کیمپوں میں موجود فلسطینیوں کا وحشیانہ قتل عام ہوا۔ یاسر عرفات کو اپنی تنظیم سمیت لبنان سے نکل کر تیونس میں پناہ گزین ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ جنرل اسمبلی میں ہوئی ”تاریخی“ تقریر کسی کام نہیں آئی۔

جنرل اسمبلی کی اصل حقیقت کو بخوبی جانتے ہوئے بھی تاہم اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لئے پاکستان اور ترکی کی حکومتیں اس کا ہنگامی اجلاس بلوانے میں مصروف رہیں گی۔ مجھے یقین ہے کہ بالآخر جب مطلوبہ اجلاس ہو رہا ہوگا تو اسرائیل اس سے کئی دن قبل غزہ پر بمباری روک چکا ہوگا۔ اس دعویٰ کے ساتھ کہ اس نے اپنے ”اہداف“ حاصل کرلئے ہیں۔ غزہ سے جو بم اس کے شہروں پر برسائے جاتے تھے ان کے تدارک کا حتمی بندوبست کر لیا گیا ہے۔ اسرائیل کو مزید جارحیت سے روکنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔ ”مسلم امہ“ کے حکمران مگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی دھواں دھار تقاریر کے ذریعے ہم سادہ لوح افراد کو یہ جھانسہ دینا چاہیں گے کہ ان کی ”پرعزم تقاریر“ نے اسرائیل کو مزید وحشت سے روک دیا ہے۔

فلسطینی عوام کے دکھ پاکستان کے عوام کی اکثریت خلوص دل سے اپنا دکھ سمجھتی ہے۔ ذاتی طور پر میں بھی فلسطین کے حوالے سے بہت جذباتی ہوں۔ تلخ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ اس شہ رگ کو 5 اگست 2019 کے دن سے مودی سرکار نے پوری قوت کے ساتھ جکڑ رکھا ہے۔ فلسطینی عوام کو تازہ ترین اسرائیلی جارحیت سے بچانے کی فکر میں مبتلا نظر آتی ہماری قومی اسمبلی مگر کشمیری عوام کے دکھوں کے ازالے کے لئے کوئی حکمت عملی تیار نہیں کر پائی۔

اس برس کے آغاز سے کہانی یہ بھی چلی کہ چین کے ہاتھوں پریشان ہوئے بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے خفیہ مذاکرات کی ازخود درخواست کی تھی۔ اس درخواست کے نتیجے میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان مذاکرات کی بابت آئینی اعتبار سے ”سب پر بالادست“ شمار ہوتی ہماری پارلیمان نے مگر ایک مرتبہ بھی عمران حکومت اور اس کے وزیر خارجہ کو مجبور نہیں کیا کہ امن کی تلاش میں بھارت سے جو مذاکرات ہو رہے ہیں ان کی تفصیلات ”عوام کے منتخب کردہ“ نمائندوں کے روبرو رکھی جائیں۔ ہماری پارلیمان میں بیٹھے افراد افغانستان کے حوالے سے سوچے تازہ ترین بندوبست سے بھی قطعاً غافل ہیں۔ ڈھٹائی کی مگر انتہا ہے۔ جو پارلیمان کشمیر اور افغانستان کے حوالے سے قطعی لاتعلق نظر آئی اب فلسطینی عوام کو اسرائیل کی جارحیت سے بچانے کی حکمت عملی تیار کرنے کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔ اس ”رنگ بازی“ کو سنجیدگی سے لینے کا کم از کم مجھ میں تو حوصلہ نہیں۔ ”آئی صورتوں“ سچا رہنے کے یقیناً ناقابل ہوں۔ اس کے باوجود عوام کو خوش گمانی میں مبتلا کرنے والی جھوٹی کہانیوں کو پھیلانے کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ پیر کی شام قومی اسمبلی میں ہوئی دھواں دھار تقاریر کو نظرانداز کرنے کو مجبور محسوس کر رہا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments