احتجاج کے نام پر بس ڈی پی تبدیل ہوگی؟


ہم پاکستانیوں کا خاص وتیرہ ہے کہ ہماری باتیں بڑی بڑی ہوتی ہے اور عمل کے معاملے میں ہم زیرو ہیں۔ دوسرے ملک میں کوئی غلط کام ہو تو ہم احتجاج کے نام پر اپنے ملک میں اپنے شہریوں اور گورنمنٹ کی گاڑیاں جلاتے ہیں۔ ہم احتجاج کے نام پر اپنے ملک کا نقصان کرتے ہیں اور اپنے ہی پولیس والوں کو مارتے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا پر بیٹھ کر احتجاج کرتے ہیں ان لوگوں کے خلاف جنھوں نے سوشل میڈیا بنایا ہے۔ ہم جن ملکوں پر اپنے موبائلز فونز سے لعنت بھیجتے ہیں وہ موبائل فون بھی انھی ملکوں کی ایجاد ہوتا ہے۔ آخر ہم نے سوچا کہ احتجاج کا یہ کون سا طریقہ ہے جس سے ہمیں نقصان پہنچ رہا اور جس کے لئے احتجاج ہو رہا ہے اسے ککھ کوئی فرق نہیں پڑتا۔

کشمیر میں کچھ ہو ہم سڑکوں پر آدھا گھنٹہ کھڑے ہو جاتے ہیں اور دو تین ہفتوں بعد پھر ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ برما میں کچھ ہو تو فیس بک پر درجنوں پوسٹس کرتے ہیں۔ اس احتجاج سے آخر فائدہ کیا پہنچتا ہے؟ مان لیا احتجاج ضروری ہے اور ہونا بھی چاہیے تاکہ آپ کی شناخت مظلوموں کے حامی کے طور پر ہو نہ کہ ظالموں کے چاہنے والوں کے طور پر۔ مگر گزشتہ کئی دہائیوں سے سینکڑوں احتجاج تو ہوئے مگر مظلومین کو اس احتجاج سے فائدہ نہ پہنچا اور نہ ظالموں کی صحت پر۔ اب تازہ تازہ معاملہ جو ہے وہ فلسطین میں ہونے والے ظلم پر ہے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح یہ ہی ہوا کہ سب سے پہلے ہم نے ڈی پی تبدیل کی اور پھر جو کام کیا وہ سوشل میڈیا پر کمنٹس اور پوسٹ کر کے کیا۔ لیکن اس سے فائدہ کچھ نہیں ہوتا کیونکہ سب جانتے ہیں ظالم کے ساتھ کون کھڑا ہے اور کوئی خاموش ہے تو کیوں ہیں؟

دیکھئے اس قسم کے احتجاج کے بعد عرصے دراز تک خاموشی رہتی ہے۔ غور کیجئے اسرائیل کے معاملے پر مسلم امہ اور ہر صاحب ضمیر انسان احتجاج کر رہا ہے۔ کچھ کا احتجاج تو بس سوشل میڈیا پر پوسٹ اور ڈی پی کی تبدیلی کی حد تک ہے، کچھ لوگ سڑکوں پر نکل کر کر رہے ہیں، کچھ لوگ پریس کلب پر کر رہے ہیں تو کچھ ایسے پاکستانی مجاہد وکیل بھی ہے جو احتجاج کے نام پر عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ بھی کر رہے ہیں۔ ارے یہ کیسے احتجاج ہے جس میں اپنے ملک کے مسلمان شہریوں کو ہی تکلیف پہنچائی جائے۔ یہ احتجاج نہیں ہے یہ تو اپنے فرض سے کوتاہی ہے صاف صاف۔

اچھا چلیں احتجاج کیجئے بالکل کیجئے، سوشل میڈیا پر ڈی پی بھی تبدیل کیجئے مگر پھر اپنا سوشل میڈیا بنا لیجیے تاکہ آپ کا موقف دنیا بھر میں جائے۔ آپ اپنی وال پر تو احتجاج کرتے ہیں جس میں صرف آپ کے جاننے والے یا مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ یعنی آپ کا موضوع بین الاقوامی ہوتا ہے مگر آپ کی پہنچ صرف ڈومیسٹک سطح تک ہے۔ ایک طرف آپ ظالم صیہونیوں کا ذکر کر رہے ہیں اور انھی کے گراؤنڈ یعنی سوشل میڈیا کا استعمال کر کے۔ وہ بھی بہانے بہانے سے ہماری اپنی آئی ڈیز بلاک کر دیتے ہیں کیونکہ ان کا پلیٹ فارم ہے تو وہ بد معاشی تو کریں گے۔

سوشل میڈیا پر ان کے خلاف بات کرنا قدرے آسان ہے۔ ان کی بے ہودگی پر تو ہمارے تبصرے ہوتے ہیں مگر علمی معیار پر ہم مقابلہ کرنے کو تیار نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام انسان ہو یا ریاست وہ ہمیشہ اپنے مفادات کی جانب دیکھتے ہیں۔ ایک طرف امت مسلمہ کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی اسلامی ممالک کے مفادات اسرائیل کے ساتھ جڑے ہیں، کاروبار کے سلسلے میں اسرائیل سے بہت سے ملکوں کا قریبی یارانہ ہے جن کو اکثر مسلمان مسلم امہ کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔

اس دور میں اب جنگ صرف اسلحے سے نہیں لڑی جاتی ہے بلکہ دماغ سے بھی لڑی جاتی ہے، ٹیکنالوجی سے لڑی جاتی ہے، ترقی سے لڑی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر علم سے لڑی جاتی ہے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں علم کے میدان میں؟ ہم تمام اسلامی ملکوں کا موازنہ اسرائیل سے کریں گے تو ہم مشترکہ طور پر اسرائیل سے نیچے نظر آئیں گے۔ ہمارا سوشل میڈیا بھی نہیں ہم اس معاملے میں بھی محتاج ہیں مغرب کے۔ تقریباً 2 ارب مسلمانوں کا کیا ہے اپنا؟ ہم بڑے بڑے ہتھیار بھی مغرب سے لیتے ہیں، ہمارے پاس اپنا تو کوئی خاص برینڈ نہیں، ہم ان کو فالو کرتے اور مغرب کی بنائے گئی چیزوں کے دیوانے ہیں۔ انھوں نے ہمیں اپنی چیزوں میں الجھایا ہوا ہے اور ہم ان کے جال میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔

یہ دور ففتھ جنریشن وار کا دور ہے۔ یہاں ہتھیار کے ساتھ ساتھ دماغ سے بھی لڑنا ہے اور علم سے بھی۔ دنیا میں اپنا بیانیہ پہنچانے کے لئے مغرب کے سسٹم پر انحصار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس دور میں ہمیں اپنا بیانیہ پہنچانا ہے تو علمی میدان میں ہمیں ترقی کرنی ہے۔ ٹیکنالوجی کا دور ہے، اور جسمانی جنگ کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی جنگ بھی لڑنی ہوں گی ورنہ ایک بھی محاذ میں کمزور ہوئے تو ہمیں دوسرے محاذ پر مشکل پیش آئے گی۔ اب وقت آ گیا ہے کی آپ جنگ کے لئے اپنا میدان خود چنے، اب وہ علم کا میدان ہو، ٹیکنالوجی کا میدان ہو یا پھر کوئی اور، ساتھ ساتھ احتجاج کے نام پر ڈی پی تبدیل کرنے کے سلسلے کے بجائے عملی طور پر ظالم کے خلاف میدان عمل میں آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments