ایک منہ بولی امریکی ماں


یہ کہانی ایک سفید فام امریکی ماں، ٹریسا اور اس کے منہ بولے بیٹے پرکاش نرائن کی ہے۔ ٹریسا نے اپنی جوانی کی زندگی آزاد خیالی میں گزاری لیکن اس نے اپنی 30 ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے لیے ایک خاوند کا انتخاب کیا، اور پھر اپنی زندگی کی انتالیس بہاریں اسی مرد کے ساتھ بتا دیں۔ خداوند کریم نے انہیں ایک خوبصورت بیٹی ڈیانا اور ایک بیٹے رابرٹ سے نوازا تھا، ڈیانا بڑی ہو کر امریکی فوج میں مرین بھرتی ہو گئی اور رابرٹ اپنی پچیسویں سالگرہ منانے سے قبل ہی کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو کر فوت ہو گیا۔

ٹریسا اپنے بوڑھے خاوند ڈیوڈ اور دو کتوں کے ساتھ ایک بڑے سے گھر میں رہتی تھی۔ وہ ایک دو ستارہ ہوٹل میں ہاؤس کیپر تھی۔ اگرچہ اس کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہو چکی تھی لیکن پھر بھی وہ ہفتے میں چالیس گھنٹے سے بھی زیادہ کام کرتی کیونکہ وہ ہیڈ ہاؤس کیپر تھی لہذا ہوٹل چلانے کی اہم ذمہ داری اس کے کندھوں پر تھی۔ جو بھی ہوٹل مینجر آتا وہ ٹریسا کی مدد اور تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ ٹریسا کو اپنے کام پر مکمل عبور تھا اور وہ اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر کام کرنا پسند کرتی تھی۔

ٹریسا کا شوہر، ایک ٹیکسی ڈرائیور تھا مگر وہ ہفتے میں اتنے ہی ڈالرز کما تا جتنے میاں بیوی کو ضرورت ہوتے، زیادہ وقت وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہی گزارتا۔ ٹریسا بھی، ہر شام گھر جلدی آنے کی کوشش کرتی۔ وہ ہر روز گھر جانے سے پہلے دو سٹورز پر بریک لیتی، ایک گیس سٹیشن پر، اپنے میاں کے لیے بیئرز کے چھ پیک لینے کے لیے اور دوسرا ایک ”ماروانہ سٹور“ جہاں سے وہ چرس کا ایک بنا بنایا سگریٹ اپنے پینے کے لیے لیتی، وہ امریکہ کی واشنگٹن سٹیٹ میں رہتے تھے جہاں ماروانہ کے استعمال اور کاروبار کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔

شام کو دونوں بوڑھی روحیں، گھر کے ٹی وی لاؤنج میں رکھی اپنی اپنی آرام دہ سیٹوں پر لم لیٹ ہو جاتے ہیں، ٹریسا کا شوہر، ڈیوڈ اپنے پاس بئیر کے پیک رکھ لیتا اور ماں ٹریسا اپنی گانجے والی سگریٹ سلگا لیتی۔ ٹی وی پر خبروں کا ایک مخصوص چینل لگا دیا جاتا، منچی پروگرام کے لیے میز پر کچھ سنیک بارز اور کھانے پینے کی ہلکی پھلکی اشیا ءبھی رکھ دی جاتی تھیں۔

ٹریسا، ڈیمو کریٹس خیالات کی مالکن تھی اور اس کا شوہر ایک سو ونگ ووٹر تھا، وہ کبھی ڈیموکریٹس کی حمایت کر نا شروع کر دیتا، تو کبھی ریپبلکن کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے، سیاسی حالات اور تبصروں پر اکثر میاں بیوی کے درمیان توتکار لگی رہتی، شروعات اکثر ڈیوڈ کر تا، وہ کسی خبر یا تبصرے پر طیش میں آ جاتا اور غصے میں آ کر ٹی وی چینل بدل دیتا۔ ادھر سے ٹریسا اپنی صدائے احتجاج بلند کرتی اور ڈیوڈ کو اپنے مخصوص لہجے میں Honey کہہ کر پکارتی، ڈیوڈ ٹریسا کے گرم سرد لہجے کو خوب سمجھتا تھا اور اس کی پکار سن کر، واپس وہی چینل لگا دیتا مگر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے ٹریسا کے کتے کو اپنی گود سے نکال کر باہر پھینک دیتا، کتا ڈر کر اپنی مالکن ٹریسا کے گود میں آ بیٹھتا اور ڈیوڈ، بیئر کا ایک اور پیک غٹاغٹ پی جا تا تھا۔

جلد ہی ٹریسا کو اپنے لہجے میں تلخی کا احساس ہو جاتا اور وہ ڈیوڈ کو I am sorry Hunبولتی، ڈیوڈ جواباً، It ’s Okay کہتا اور کتے کو واپس اپنی گود میں بلا لیتا۔ میاں بیوی کی لڑائیوں کا یہ روز مرہ کا معمول تھا، ہر شام لڑائی کے بعد ٹریسا اپنے میاں کو خوش کر نے کے لیے پوچھتی، آج ڈنر میں وہ کیا لے گا، ڈیوڈ اپنی پسند کا کھانا بتاتا اور ٹریسا کھانا گرم کرنے باورچی خانے میں چلی جاتی۔ ڈیوڈ فوراً چینل بدلتا اور پرانی انگلش موویز دیکھنا شروع کر دیتا۔

ٹریسا کچن میں جا کر اپنے موبائل سے یو ٹیوب چینل آن کرتی اور 60s کے بلیوز گانے لگا کر فریز کیے ہوئے کھانوں کو گرم کرتی جاتی۔ ڈیوڈ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ کر کھانے کی خوشبو کی تعریف کر تا اور ٹی وی کو چلتا چھوڑ کر کھانے کی خوشبو کا پیچھا کرتے ہوئے ٹریسا کے پاس کٹی ہوئی پتنگ کی طرح پہنچ جاتا۔ وہ ڈیوڈ کے اچانک حملے سے ہڑ بڑا اٹھتی اور اپنے خاص لہجے میں کھینچ کر Honeyکہتی اور ڈیوڈ اس جوابی وار سے گھبرا کر پوچھتا ”اب میں نے کیا کر دیا؟

” پھر وہ اسے رومانوی انداز میں کہتی کہ پہلے ٹی وی تو بند کر دو، پھر میرے پاس آنا۔ جتنی دیر میں ڈیوڈ ٹی وی بند کر کے واپس باورچی خانے میں پہنچتا، بوڑھی ٹریسا فوراً اپنی حسین گردن پر“ وکٹوریا سیکریٹ ”کی بم شیل پرفیوم چھڑک لیتی، جس کی مہک ڈیوڈ کو بہت پسند تھی اور ساتھ ہی اپنے منہ میں بھی کوئی خوشبودار چیز رکھ لیتی تاکہ سگریٹ کی بو کو کم کیا جا سکے۔ ڈیوڈ واپس آ کر دوبارہ کھانے کی تعریف کرتا مگر اب کی بار، اس کا لہجہ خوشامدانہ ہوتا، دراصل وہ ٹریسا کو خوش کر کے اس کے ساتھ blues music پر کپل ڈانس کر نا چاہتا ہے، یہ جوڑا کم و بیش روزانہ، ڈنر کر نے سے پہلے اکٹھے ڈانس کرتا۔

وہ دونوں کبھی کچن میں تو کبھی ٹی وی لاؤنج میں ڈانس کرتے اور کبھی کبھی تو وہ ناچتے گاتے، اپنے بیڈ روم میں جا گرتے، ۔ دونوں کو امریکہ کے مشہور گلوکار جان لی ہوکرز کے گانے بہت پسند تھے اور وہ اپنی پسند کے گانوں پر رقص کر کے خوب لطف اندوز ہوتے۔ دونوں بوڑھے روزانہ یہ ورزش آدھا گھنٹہ تک جاری رکھتے، جب ڈیوڈ زیادہ مستی کرنے پر اتر آتا تو ٹریسا آہستہ سے اس کے کانوں کے پاس اپنے ہونٹ لے جا کر بولتی ہے کہ، مائی ڈئیر اب بس بھی کرو، چلو میں برتنوں میں کھانا نکالتی ہوں تم اسے ٹیبل پر لگا دو۔

ڈیوڈ کو بہانے بنانے کی عادت تھی، وہ روزانہ ڈنر سے پہلے واش روم جانے کا بہانہ بنا کر، کھا نا میز پر رکھنے کی زحمت سے بچنا چاہتا، لیکن ٹریسا بڑے دل کی مالکن تھی وہ روزانہ ڈیوڈ کے بہانہ بنانے کی عادت سے لطف اندوز ہوتی اور کھانا تیار کرنے کے بعد خود ہی میز پر سجا دیتی۔ کھانا کھانے سے پہلے میاں بیوی دعا مانگنے کے عادی تھے، وہ رات کو سونے کے لیے محفوظ چھت اور بھوک مٹانے کے لیے گرم کھانا دینے پر ہمیشہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے تھے۔

ٹریسا، ڈائیننگ ٹیبل کے گرد پڑی دو خالی کرسیوں کو جب بھی دیکھتی تو اپنے بچوں کے حق میں دعا کرتی۔ پھر ڈنر کے دوران ٹی وی اور میوزک بند کر دیا جاتا اور میاں بیوی ایک دوسرے کو دن بھر کی اپنی اپنی روداد سناتے، پہلے ٹریسا اپنے ہوٹل میں آنے والے گاہکوں کے عجیب و غریب رویوں کی کہانیاں سناتی اور پھر ڈیوڈ اپنے ساتھ ٹیکسی میں سفر کرنے والے مسافروں کی داستانیں بیان کرتا، ڈیوڈ زیادہ ٹپ دینے والے گاہکوں کی تعریف کرنے کا عادی تھا۔ وہ دونوں ہر شام، کھانے کی میز پر ایک گھنٹہ ضرور بیٹھتے اور کھانا آہستہ آہستہ اور مزے لے کر کھاتے تھے۔

ہر شام ڈنر کے بعد ٹریسا اپنے کتوں کو گھمانے کے لیے باہر چلی جاتی اور ڈیوڈ کو برتن دھونے اور کھانے والی میز کو سنبھالنے کا کہتی۔ امریکی گھروں میں یہ ایک اچھی روایت ہے کہ اگر بیوی کھانا پکائے تو شوہر برتن دھوتا ہے اور اگر شوہر کو کھانا پکانا پڑے تو بیوی برتنوں کی صفائی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے مگر ڈیوڈ اکثر ڈنر کے بعد اپنے آپ کو سست محسوس کر نے لگتا تھا، اس پر بئیر کا خمار بھی حاوی ہونے لگتا لہذا وہ کاؤچ پر جا کر لیٹ جا تا۔

ٹریسا جب شام کی سیر کے بعد واپس گھر آتی تو ڈیوڈ کو صوفے پر لیٹے دیکھ کر ایک جاندار آواز میں Honey کہتی، یہ سن کر ڈیوڈ کی ساری سستی رفو چکر ہو جاتی، وہ چھلانگیں لگاتے اور بڑبڑاتے ہوئے کچن میں اپنے حصے کا کام نمٹانے چلا جاتا جبکہ ٹریسا مزے سے کاؤچ پر لیٹ کر ٹی وی پر اپنی پسند کا ٹاک شو دیکھنے لگتی۔ کبھی کبھی کچن سے برتنوں کی اونچی آواز آئے تو ٹریسا کو پھر سے ذرا اونچی آواز میں ہنی کہنا پڑتا، اور اس کے بعد کچن میں کچھ دیر کے لیے مکمل خاموشی چھا جاتی۔ ڈیوڈ اپنا کام مکمل کر کے دوبارہ صوفے پر آ کر لیٹنا چاہتا لیکن وہاں ٹریسا کو لم لیٹ دیکھ کر ساتھ پڑی آرام دہ کرسی پر ہی ڈھیر ہو جانے میں عافیت سمجھتا۔

ڈیوڈ کو حالت سکون میں دیکھ کر ٹریسا کا کتا اس کی گود میں لیٹنے کے لیے آتا تو وہ اسے جھڑک دیتا۔ بے چارہ کتا سہم کر ٹریسا کے صوفے پر چڑھنے کی کوشش کر تا جہاں ٹریسا کی پیاری کتیا پہلے سے براجمان ہوتی، وہ ڈیوڈ کے دھتکارے ہوئے کتے پر غراتی تو ساتھ ہی ٹریسا کتوں کو اس انداز میں شانت کرنے کی کوشش کرتی کہ اس کا شوہر ڈر کر اپنی سیٹ سے اٹھتا اور کتے کو پیار سے اٹھا کر واپس اپنی کر سی پر بیٹھ جاتا۔ ٹریسا ایک دھیمے اور پیار بھرے لہجے میں اپنے شوہر کو Thank You Hun بولتی۔

ٹریسا ایک سمجھ دار خاتون تھی وہ ڈانٹتی تو اپنے کتوں کو مگر اثر اس کے شوہر کے رویے پر ہوجاتا۔ ڈیوڈ اچھی طرح جانتا تھا کہ ٹریسا اپنا پسندیدہ ٹاک شو دیکھنے کے دوران کسی قسم کا خلل پسند نہیں کرتی۔ مگر ڈانٹ پلانے کے بعد ٹریسا، اپنے میاں جی کو خوش کرنے کی کوشش کرتی اور اس کی پسند کا چینل لگا کر ٹی وی کا ریموٹ بھی اس کے حوالے کر دیتی۔ ڈیوڈ رات دیر گئے تک اپنی پسند کے ٹی وی شوز دیکھتا رہتا اور کبھی کبھی ٹریسا کے اونچے اونچے خراٹوں کی آواز سے چونک بھی جا تا۔

وہ ٹریسا کو ڈارلنگ کہہ کر جگانے کی کوشش کرتا اور اپنے ساتھ مووی دیکھنے کا کہتا، مگر سارے دن کے کام کاج سے تھکی ہاری ٹریسا یہ کام صرف ویک اینڈز پر کرتی تھی۔ وہ آدھی رات تک صوفے پر ہی لیٹ کر اپنی نیند کا ابتدائی حصہ پورا کر لیتی اور اس طرح ڈیوڈ کو بھی اپنے آس پاس اس کی موجودگی کا احساس رہتا۔ ڈیوڈ رات دیر تک جاگنے اور ٹی وی دیکھنے کا عادی تھا مگر رات سونے سے پہلے وہ ٹریسا کو تھام کر بیڈ روم تک پہنچانے کا کام بھی سر انجام دیتا۔ پھر دونوں بوڑھے اپنے لگژری بیڈ روم میں جا کر صبح تک خوب آرام کرتے۔

ٹریسا کو ہفتہ وار چھٹیاں منگل اور بدھ کو ہوتی تھیں، وہ منگل کی شام، اپنے شوہر کے ساتھ مل کر مووی دیکھتی اور باقی دنوں میں زیادہ سے زیادہ آرام کرتی یا گھر کے چھوٹے موٹے کام نمٹانے میں مصروف رہتی۔ گھر کے صحن اور کیاریوں کی ذمہ داری ڈیوڈ کی تھی، وہ ان کی خوب دیکھ بھال کرتا۔ ٹریسا، ہفتے بھر کے کھانے پکا کر فریز میں رکھ دیتی۔ وہ دونوں مہینے میں ایک مرتبہ گھر کا سودا سلف لانے کے لیے مل کر شاپنگ کرنے جاتے۔

دونوں میاں بیوی کا سوشل سرکل محدود تھا لیکن وہ سال میں ایک مرتبہ اپنے تمام دوستوں کو گھر پر دعوت کے لیے بلاتے تھے اور اس موقع پر ایک بڑی بار بی کیو پارٹی کا اہتمام کیا جاتا، ٹریسا اور ڈیوڈ کا گھر بہت صاف ستھرا اور ویل آرگنائزڈ تھا۔ ہر سال تو نہیں، لیکن کبھی کبھی، ٹریسا کی بیٹی بھی اپنے بچوں کے ساتھ اسے ملنے آ جاتی۔ ٹریسا کو اپنے نواسے اور نواسی سے بہت پیار تھا۔ وہ باقاعدہ ان کے لیے تحفے بھجواتی اور اپنی بیٹی سے رابطے میں رہتی تھی۔

ٹریسا اور ڈیوڈ مذہبی لحاظ سے قدامت پسند تھے ہر اتوار کو باقاعدہ ایک قریبی چرچ بھی جاتے یہاں تک کہ اتوار کو ٹریسا شام کی شفٹ میں کام کرتی تاکہ وہ دن کو اپنے شوہر کے ساتھ چرچ جا سکے۔ دونوں میاں بیوی اپنے ہمسائیوں کی خبر گیری رکھتے اور مشکل میں ان کے کام بھی آتے تھے۔ ماں ٹریسا کی زندگی میں سکھ ہی سکھ تھا، بس کمی تو رابرٹ کی، جو اپنے وقت سے پہلے مر گیا تھا، ٹریسا روزانہ اپنے بیٹے کو یاد کرتی اور جب بھی کوئی اس کی عمر کا نوجوان نظر آتا وہ اسے اپنا بیٹا رابرٹ سمجھ کر پیار کی نظروں سے دیکھتی تھی۔

پرکاش نرائن، اس کہانی کا دوسرا اہم کردار ہے جو ٹریسا کی زندگی میں آیا، وہ ایک پینتیس سالہ نوجوان تھا جو امریکہ میں ہاسپٹیلیٹی انڈسٹری میں مینجر تھا لیکن اس کے ماں باپ اور بیوی بچے انڈیا میں رہتے تھے، پرکاش کی تعیناتی اس ہوٹل میں ہو جاتی ہے جہاں ٹریسا کام کرتی تھی۔ مسٹر پرکاش کا ہوٹل میں بطور جنرل مینجر پہلا دن ہوتا ہے اور اسسٹنٹ مینجر نے اسے تمام سٹاف سے متعارف کروایا، جن میں ٹریسا بھی شامل تھی۔ وہ ٹریسا کی زندگی کا ایک اداس دن تھا کیونکہ اس دن اس کے مرحوم بیٹے رابرٹ کی بتیسویں سالگرہ تھی۔ مسٹر پرکاش نے ٹریسا کی پریشانی کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو اسے بتایا گیا کہ اس بوڑھی ماں کا جواں سال بیٹا کچھ سال پہلے مر چکا ہے اور آج اس کی سالگرہ کا دن ہے۔

پرکاش نرائن بھی ٹریسا کی کہانی سن کر جذباتی ہو گیا اور اس نے بغیر ٹریسا کو بتائے اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے ٹریسا کے مرحوم بیٹے رابرٹ کی سالگرہ منانے کے لیے ایک بڑا سا کیک آرڈر کر دیا اور ساتھ کچھ موم بتیاں اور غبارے وغیرہ بھی منگوا لیے۔ جب میٹنگ روم میں سالگرہ کا کیک سج گیا تو ٹریسا اور تمام سٹاف کو بلایا گیا اور انہیں اطلاع دی گئی کہ آج وہ سب مل کر ٹریسا کے بیٹے کی سالگرہ منائیں گے۔ ٹریسا کے لیے یہ سب کچھ حیران کن تھا۔

اس نے اپنی آنکھوں میں آنسو سجائے پرکاش نرائن کا شکریہ ادا کیا اور فرط جذبات میں آ کر اسے اپنے گلے لگا لیا۔ پرکاش بھی اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور ٹریسا کے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگا شاید اسے بھی اپنی دکھی ماں کی یاد آ گئی جس نے پچھلے کئی سالوں سے اس کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ پرکاش نے ٹریسا کو ماں کہہ کر پکارا تو وہ کھل اٹھی اور کھڑے ہو کر دوبارہ اسے اپنے گلے سے لگا یا اور اسے ”My Brown Child“ کہہ کر پکارا۔ ٹریسا اس دن بہت خوش تھی کہ اسے کسی نے ماں کہہ کر پکارا ہے۔ یوں ان دونوں کا تعلق پیشہ وارانہ رابطے سے بڑھ کر جذباتی بنیادوں پر استوار ہو نے لگا۔

ٹریسا، پرکاش کو اپنا منہ بولا بیٹا سمجھتی اور پر کاش اسے اپنی منہ بولی ماں کہتا۔ آنے والے دنوں میں دونوں منہ بولے ماں بیٹے نے اپنے پیشہ وارانہ تعلق کے ساتھ ساتھ انسانی رشتوں کو بھی خوب نبھایا۔ ٹریسا جو پہلے بھی ہر مینجر کو کامیاب کرنے میں مددگار رہتی اب وہ پرکاش کے لیے اور زیادہ محنت کرنے لگی۔ وہ قدم قدم پر اس کی رہنمائی کرتی یہاں تک کہ ہوٹل کے انتظامی معاملات کو حل کرنے میں بھی پرکاش کی معاون ثابت ہوئی۔

ہوٹل کا دوسرا سٹاف بھی اپنے نئے جنرل مینجر کے انسان دوست رویے سے بہت متاثر ہوا اور وہ اسے اپنے باس سے زیادہ ہمدرد اور مخلص دوست جاننے لگے۔ پر کاش ایک اصول پسند شخص تھا اور کمپنی کے مفاد پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتا تھا لیکن اس کی سختی میں بھی شفقت کا پہلو غالب رہتا۔ ٹریسا کی مدد اور تمام سٹاف کے ٹیم ورک کی وجہ سے ہوٹل دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرنے لگا۔ کمپنی کی طرف سے طے شدہ تمام اہداف مقررہ وقت سے پہلے ہی حاصل کر لیے گئے اور ہوٹل کا سالانہ ریونیو ڈیڑھ ملین ڈالرز سے بڑھ کر سترہ لاکھ ہو گیا۔

پرکاش نرائن کو اچھی کارگردگی کی بنیاد پر سال میں چار بونس ملے جو تقریباً سولہ ہزار امریکی ڈالرز بنتے ہیں اور اس نے اپنے بونس کا بیش تر حصہ اپنے ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں میں برابر تقسیم کر دیا کیونکہ وہ انہیں اپنی کامیابی میں برابر کا شریک سمجھتا تھا اور وہ ہر سہ ماہی اپنے تمام سٹاف کے اعزاز میں اپنی جیب سے ایک بڑی ٹریٹ کا اہتمام بھی کر تا تھا۔

ماں ٹریسا اپنے منہ بولے بیٹے کی ترقی اور کامیابی پر بہت خوش تھی وہ اکثر اسے اپنے گھر دعوت پر بلاتی اور اس کی پسند کے امریکن کھانے تیار کرتی لیکن جس دن پرکاش نرائن کو دعوت پر گھر بلایا جاتا تو ٹریسا کسی قسم کے گوشت کے پکوان تیار نہیں کرتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ پرکاش نرائن ایک سبزی خور انسان ہے اور اپنے مذہبی عقیدے کے اعتبار سے بھی وہ گوشت کھانا پسند نہیں کرتا۔ پرکاش کو بھی ٹریسا کی محبتوں کا دل سے احساس تھا وہ اسے اپنی سگی ماں کی طرح عزت و احترام دیتا اور اپنی منہ بولی ماں کے گھر جاتے ہوئے اس کے لیے تحفے تحائف لے جاتا۔

مدر ڈے، کرسمس اور نیو ائر کے موقعوں پر وہ اسے خصوصی گفٹ اور کارڈ دیتا۔ وقت گزرتا گیا اور دو سال کے بعد پرکاش نرائن کو کمپنی میں ترقی دے دی گئی۔ اب اسے اپنی ملازمت کے سلسلے میں دوسری ریاست جانا پڑ رہا تھا۔ جس دن پرکاش کو الوداعی پارٹی دی گئی وہ دن ٹریسا کے لیے ایک اور اداس دن تھا وہ جی بھر کر رونا چاہتی تھی لیکن اس نے پرکاش کی خاطر اپنے آنسو چھپا لیے کیونکہ وہ جانتی تھی پرکاش اسے روتا دیکھ کر پریشان ہو جائے گا۔

الوداع ہونے کا وہ دن دونوں ماں بیٹے کی ملاقات کا آخری دن ثابت ہوا کیونکہ پرکاش امریکہ میں پانچ سال کام کرنے کے بعد اپنی سگی ماں سے ملنے انڈیا چلا آیا جو سالوں سے اس کی راہ تک رہی تھی۔ پھر پرکاش کبھی لوٹ کر امریکہ نہ گیا۔ وہ اپنی منہ بولی ماں ٹریسا کے ساتھ آن لائن رابطے میں رہا مگر ایک دن اسے فیس بک کی پوسٹ کے ذریعے خبر ملی کہ اس کی منہ بولی امریکی ماں اپنے سگے بیٹے رابرٹ کے پاس چلی گئی ہے۔ وہاں، جہاں سے کبھی کوئی لوٹ کر واپس نہیں آیا۔ وہ اپنے پیارے شوہر ڈیوڈ کو ہمیشہ کے لیے اکیلا چھوڑ گئی۔ پرکاش نرائن اکثر اپنی منہ بولی امریکی ماں کو یاد کر کے آنسو بہاتا ہے اور اپنے بھگوان سے اس کی آتما کی شانتی کے لیے پرارتنا کر تا ہے۔

پرکاش کبھی کبھی اپنے تخیل کے گھوڑے پر سوار ہو کر پرواز کرتے ہوئے اپنی منہ بولی ماں کے گھر پہنچ جاتا ہے جہاں ایک بوڑھا شوہر Love Seat پر اکیلا بیٹھا ہوا اپنی مرحوم بیوی کے کتوں کو سہلا رہا ہو تا ہے اور ان سے اپنے دل کی باتیں کرتا ہے۔ وہ شدید تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ اپنی محبوب بیوی کے مرنے کے بعد وہ بوڑھا اب کام کرنے بھی نہیں جاتا، اس نے ٹی وی دیکھنا بھی بند کر دیا، گھر کے صحن کی کیاریاں بھی ویران پڑی ہیں اور وہ باقاعدہ کھانا بھی نہیں کھاتا، بئیر بھی اب اسے کوئی سکون نہیں دیتی۔

وہ اداس بوڑھا ہر وقت بڑے ہال کے دروازے پر ٹکٹکی لگائے دیکھتا رہتا ہے کہ شاید ٹریسا کہیں سے آ نکلے اور Hun کہہ کر اسے پکارے، اسے اپنے گلے لگائے، اسے کوئی کام کہے، اس کے لیے کھانا گرم کرے، اس کے ساتھ ڈانس کرے، لیکن ٹریسا کے مرنے کے بعد گھر میں ہر وقت سکوت چھایا رہتا ہے۔ ایک شمشان گھاٹ جیسا سکوت جہاں بھٹکی ہوئی روحیں اپنے پیاروں سے جدائی کے غم میں تڑپ رہی ہوتی ہیں لیکن ان کی آہ و بکا اور چیخ و پکار کسی کو سنائی نہیں دیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments