ترین کے حامی اور یہی تنخواہ


جوانی میں جماعتِ اسلامی کے وفادار رہے عظیم چودھری صحافت میں آئے تو ’’لہوری گرڈ‘‘ کی وجہ سے میرے عزیز ترین دوستوں میں بھی شامل ہوگئے۔ مجھ سے کئی دہائیاں قبل مگر انہوں نے دریافت کرلیا کہ کل وقتی صحافت وطن عزیز میں معاشی تحفظ فراہم نہیں کرتی۔ کاروباری سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔ اخبارات اگرچہ آج بھی صحافی کی نگاہ سے پڑھتے ہیں اور جمعرات کی صبح چھپے اس کالم میں ایک فاش غلطی تلاش کر لی۔

جنرل اسلم بیگ کی بطور آرمی چیف میعادِ ملازمت اگست 1991میں ختم ہونا تھی۔ اسی باعث نواز شریف صاحب نے اسی برس کے جون ہی میں جنرل آصف نواز کو آئندہ آرمی چیف نامزد کردیا تھا۔ روانی میں میرے ہاتھوں مگر بیگ صاحب کی ریٹائرمنٹ کا سال 1999لکھا گیا اور کالم کو دفتر بھیجنے سے قبل میں اس کی تصحیح نہ کرپایا۔

1990 کی دہائی کو یاد کرتے ہوئے میں یہ حقیقت بھی نظرانداز کرگیا کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم متعارف ہوجانے کے بعد اگر وزیر اعظم ازخود قومی اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ کرے تو نئے انتخابات 90 دنوں میں نہیں بلکہ 60 دنوں میں کروانا پڑیں گے۔ اس غلطی کی نشان دہی بھی عظیم چودھری نے بہت اخلاص سے کی۔ حالانکہ ’’لہوری‘‘ہوتے ہوئے ان غلطیوں کے ارتکاب کی وجہ سے میرا ’’توا لگانے‘‘ کا بھرپور موقع ان کے ہاتھ آیا تھا۔

یہ کالم لکھنے سے قبل عظیم چودھری کا فون سننے کے بعد اگرچہ ایک بار پھر یہ خیال شدت سے ستانے لگا کہ میری وضع کے صحافی آج بھی ’’ریکارڈ کو درست‘‘ رکھنے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ سیاسی ہلچل کا زمانہ ہو تو سیاست دانوں کی ’’آنیاں جانیاں‘‘ چسکہ فروشی کی غرض سے زیر بحث لانے کے بجائے ان کی بدولت اُبھرے امکانات کو آئینی اور قانونی تقاضوں کے تناظر میں زیر غور لاتے ہوئے ’’تجزیے‘‘ کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ Likes’Ratingsاور  Sharesکی محتاج ہوئی دورِ حاضر کی صحافت کو اگرچہ ’’تجزیہ‘‘ کی ضرورت نہیں رہی۔ بوڑھا گھوڑا مگر نئے کرتب سیکھ نہیں سکتا۔ پرانی وضع سے جڑے رہنے کو لہٰذا مجبور محسوس کرتا ہوں۔

میرے کالم کا بنیادی مقصد آپ کو یہ باور کروانا تھا کہ جہانگیر ترین کی حمایت میں تحریک انصاف کی صفوں میں ہوئی ’’بغاوت‘‘ ٹی وی سکرینوں پر محض وقتی رونق لگارہی ہے۔ یوٹیوب پر چھائے ’’ذہن ساز‘‘ اسے اپنی دوکان چمکانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ اس سوال پر کوئی غور کی ضرورت ہی محسوس نہیں کررہا کہ ’’یہ تو ہوگیا- اب کیا؟‘‘

لطیفہ یہ بھی ہوا کہ جہانگیر ترین کے حامیوں نے اپنی ’’بغاوت‘‘ کا اعلان کیا تو اس کے عین ایک دن بعد عدالت میں پیش ہونے کے بعد ترین صاحب ہوشیاری سے دہراتے رہے کہ وہ اور ان کے اہم نوا ’’تحریک انصاف ‘‘ہیں۔ اس شناخت کو ترک کرنا نہیں چاہیں گے۔ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جداگانہ شناخت کے ساتھ علیحدہ نشستوں کے طلب گار بھی نہیں۔ انہیں حکومت اور خاص طور پر پنجاب حکومت سے چند شکایتیں ہیں۔ ان شکایات کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں سعید اکبر نوانی صاحب ان کے حامیوں کے نمائندے کی حیثیت سے منظر عام پر لے آئیں گے۔ قومی اسمبلی میں کیا ہوگا اس کی بابت وہ خاموش رہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی پوائنٹ آف آرڈر کے ذریعے فیصل آباد سے منتخب ہوئے راجہ ریاض صاحب ترین صاحب کے حامی گروہ کے گلے شکوے بیان کرنے کی کوشش کریں ۔

جہانگیر ترین کے حامیوں کی جانب سے ٹی وی سکرینوں پر رونق لگانے والی ’’بغاوت‘‘ محض اسی صورت ’’تجزیہ‘‘ کی مستحق ہوسکتی ہے اگر ان کی جانب سے اعلان ہو جاتا کہ وفاقی اور پنجاب حکومت ’’انتقامی کارروائیوں‘‘ سے باز نہ آئی تو قومی اور پنجاب اسمبلی میں آئندہ ماہ پیش ہونے والے بجٹ کی حمایت میں ووٹ نہیں ڈالے جائیں گے۔ وہ یہ اعلان کر دیتے تو عمران خان اور عثمان بزدار نئے بجٹ پیش کرنے کے بجائے قومی اور پنجاب اسمبلیوں کی تحلیل کے امکان کو سنجیدگی سے لینے کو مجبور ہو جاتے۔ جہانگیر ترین اور ان کے حامیوں کی جانب سے آئندہ بجٹ کے حوالے سے اختیار کردہ خاموشی وفاقی اور پنجاب حکومت کے اطمینان کو لہٰذا مناسب اور معقول ثابت کر رہی ہے۔

سیانے کہتے ہیں کہ سیاست میں بسا اوقات ایک دن برسوں پہ بھاری ہوتا ہے۔ حکومتوں کے پاس ’’ناراض‘‘ لوگوں کو راہِ راست پر لانے کے لئے انگریزی محاورے میں بیان کردہ ’’گاجر اور لاٹھی‘‘ جیسے بے شمار وسائل واختیارات موجود ہوتے ہیں۔ ان کی بدولت عمران حکومت نے اگست  2018 سے قومی اسمبلی میں برسوں سے ہمارے سیاسی منظر نامے پر چھائے اور ان دنوں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے کئی قد آور رہ نمائوں کو بے بس بنا رکھا ہے۔ جہانگیر ترین اور ان کے حامی تو ’’اپنے‘‘ ہیں۔ انہیں ’’چھائوں‘‘ میں بٹھا کر بھی ’’بندے کا پتر‘‘ بنایا جا سکتا ہے۔

بجٹ پاس کروانے کے لئے ویسے بھی حکومت کو ایوان میں موجود اراکین کی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ فرض کیا کہ ’’فنانس بل‘‘ کی حتمی منظوری کے لمحات کے دوران اپوزیشن سمیت اگر قومی اسمبلی میں 342 کے بجائے 200 کے قریب اراکین بھی موجود ہوں تو محض 101 نمبر دکھا کر بھی حکومت اپنا بجٹ منظور کروا سکتی ہے۔

اس مرحلے سے فارغ ہوجانے کے باوجود اٹھارویں ترمیم کی بدولت عمران حکومت کو یہ آئینی اختیار حاصل ہوگا کہ تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے جو اراکین حتمی گنتی کے دوران ’’دانستہ‘‘ انداز میں غیر حاضر نظر آئیں انہیں فلورکراسنگ کے الزامات کے تحت قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل کروانے کی کارروائی کا آغاز کرے۔ اس تناظر میں نااہلی کی درخواست سپیکر قومی اسمبلی کی وساطت سے الیکشن کمیشن کو بھیجی جاتی ہے۔

اس منصب پر ان دنوں اسد قیصر براجمان ہیں۔ ان پر ’’غیر جانب داری‘‘ کا الزام ان کا بدترین دشمن بھی نہیں لگائے گا۔ بدھ کے روز انہوں نے اپنے منصب کے تقدس کی پرواہ کئے بغیر وہ ٹویٹ بھی لکھ ڈالا ہے جس کے ذریعے کپتان کے حامیوں کی جانب سے ’’عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونے ‘‘کا اعلان کیا جارہا تھا۔ عمران حکومت کی جانب سے ’’باغی‘‘ اراکین کی نااہلی والی درخواست کو الیکشن کمیشن بھجوانے میں شاید وہ ایک دن بھی نہ لگائیں۔

مجھے کامل یقین ہے کہ جہانگیر خان ترین کی حمایت میں کھڑے ہوئے آٹھ اراکین قومی اسمبلی میں سے ایک بھی ان کی محبت میں اپنی نشست گنوانے کو تیار نہیں ہوگا۔ ’’اسی تنخواہ‘‘ پر گزارہ کرتے رہیں گے۔ جہانگیر ترین کی حمایت درحقیقت محض ’’رحم ظلِ الٰہی‘‘ والی فریاد ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب ایسے ماحول میں قومی اسمبلی کی تحلیل کے بارے میں سوچنے کی زحمت کیوں گوارہ کریں۔ ’’میں کسی کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گا‘‘ کی تکرار کے ساتھ بلکہ اپنے ’’اصولوں‘‘ پر ڈٹے ہوئے ’’نظر آنا چاہیں گے۔

جہانگیر خان اوران کے حامیوں کی جانب سے ٹی وی سکرینوں پر لگائی رونق کئی حوالوں سے عمران حکومت کی مدد گار بھی ثابت ہو رہی ہے۔ اس کی بدولت ہم وقتی طورپر بھول چکے ہیں کہ نواز شریف کا پھیلایا ایک ’’بیانیہ‘‘ بھی ہے۔ جاوید لطیف اس کی والہانہ حمایت کے اظہار کے سبب ان دنوں ’’غداری‘‘ کا مقدمہ بھگت رہے ہیں۔ ’’ایک بہادر آدمی‘‘ کی آبائی زمین پر’’نقشے کے بغیر بنائی عمارتیں‘‘ مسمار ہوئی ہیں۔

عمران خان صاحب ’’بھولے تو ہیں مگر اتنے بھی نہیں‘‘۔ جبلی طورپر جانتے ہیں کہ ’’قبل از وقت‘‘ انتخابات کے امکانات درحقیقت کن ’’حلقوں‘‘ کے لئے پریشانی کا باعث ہیں۔ ایسے انتخابات فی الوقت پاکستان پیپلز پارٹی کے مددگار بھی نظر نہیں آ رہے۔ چائے کی پیالی میں اُٹھے طوفان کی طر ح جہانگیر ترین کے حامیوں کی ’’بغاوت‘‘ بھی بالآخر ہوا میں تحلیل ہو جائے گی۔

میڈیا کو رونق لگانے کے لئے مگر بہلاوے درکار ہوتے ہیں۔ جہانگیر ترین کے حامیوں کی رچائی ’’بغاوت‘‘ قانون تقلیل افادہ کے تحت اپنی اصل اوقات دکھانا شروع ہوگئی تو ’’بینڈ باجہ بارات‘‘ کے ساتھ ٹی وی سکرینوں پر ’’بریکنگ نیوز‘‘ یہ چلنا شروع ہوگئی کہ بالآخر چودھری نثار علی خان صاحب نے طویل عرصہ خاموش رہنے کے بعد پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان کے مبینہ فیصلے کی بابت ڈرامائی تجسس بڑھایا جا رہا ہے۔

چودھری نثار علی خان اقتدار کے کھیل کے بہت زیرک کھلاڑی رہے ہیں۔ ان کی شہرت کو ذہن میں رکھتے ہوئے صحافیوں کی اکثریت یہ فرض کرنے کو بے چین ہے کہ چودھری صاحب محض صوبائی اسمبلی کے ایک ’’عام‘‘ رکن بننے کے لئے حلف نہیں اٹھائیں گے۔ غالباَ کوئی گہری ’’گیم‘‘ لگی ہے جس کا حتمی نشانہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہوں گے۔ میں فی الوقت اس ضمن میں خاموش رہنے کو ترجیح دوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments