رنگ روڈ سکینڈل، جاوید چودھری اور ملک ریاض


’بھونچال‘ کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو موجودہ شب و روز اس کی عمدہ عکاسی کر رہے ہیں۔ ’ایک صفحے‘ پر پھولے نہ سمانے والی حکومت صرف دو واقعات سے ہی لرزنے لگ گئی ہے۔ جہانگیر ترین اور رنگ روڈ سکینڈل نے موجودہ حکومت کی نہ صرف چولیں ہلا دی ہیں بلکہ رعشہ طاری کر دیا ہے۔ رہی سہی کسر چودھری نثار کے 24 مئی کو حلف اٹھانے کی خبر نے پوری کر دی ہے۔ بہرکیف آج ہمارا موضوع سخن رنگ روڈ منصوبہ اور معروف کالم نگار جاوید چودھری صاحب کا ایک کالم ’رنگ روڈ۔ دوسرا پاناما اسکینڈل‘ ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ کی ابتدائی منظوری مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں سنہ 2016 میں دی گئی تھی۔ راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے زیر نگرانی بننے والے اس منصوبے کے لئے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کی جانب سے 40 کروڑ ڈالر قرضے کی پیشکش بھی کی گئی تھی مگر جولائی 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد اس منصوبہ پر مزید پیش رفت روک گئی۔ کچھ عرصہ پہلے اچانک اس منصوبہ کی فائل کو کچھ افراد کی نگاہ الفت کے سبب جھاڑ پونچھ کر اسے نئے انداز میں پیش کیا گیا۔

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق سڑک کی لمبائی بھی بڑھا دی گئی اور منظور نظر افراد کو نوازنے کے لئے آناً فاناً مہنگے داموں زمین کی خریداری بھی شروع کر دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق منصوبے کی الائنمنٹ تبدیل کر کے اردگرد کی ہاؤسنگ کالونیوں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ یہ ایسا اچھوتا منصوبہ ہے جو ابھی شروع بھی نہیں ہوا لیکن ملوث افراد نے اربوں روپے کما لئے ہیں۔ یہ منصوبہ سرکاری افسران۔ سیاسی شخصیات اور لینڈ مافیا کی ملی بھگت سے ہونے والی کرپشن کی بہترین عکاسی کر رہا ہے۔

اس حوالے سے ایکسپریس اخبار میں جاوید چودھری صاحب کا کالم ’رنگ روڈ۔ دوسرا پاناما اسکینڈل‘ پڑھا۔ چودھری صاحب نے بہت تفصیل سے تمام ہاؤسنگ کالونیوں کا نام لے کر تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ نوا سٹی اور اس کے مالک راؤ جنید افضل پر بہت توجہ رہی جس میں مبینہ طور پر وفاقی وزیر غلام سرور خان کے صاحبزادے منصور خان بھی پارٹنر ہیں۔ راؤ جنید افضل اور ان کے چچا چودھری قمر صاحب اس ہاؤسنگ سکیم سے پہلے واہ کینٹ میں نیو سٹی فیز 1 اور فیز 2 بھی بنا چکے ہیں۔

حکومتی شخصیات میں سے زلفی بخاری سے استعفیٰ لیا جا چکا ہے اور وفاقی وزیر غلام سرور خان اس سکینڈل سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں لیکن محترم وزیر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کیسے ان کی وزارت کے ماتحت سول ایوی ایشن کا این او سی راتوں رات اس نوزائیدہ سوسائٹی کو جاری کر دیا گیا۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والی ایک اور ہاؤسنگ سوسائٹی میں مبینہ طور پر ایک سابق چیف جسٹس کا صاحبزادہ بھی بے نامی پارٹنر ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان سب ہاؤسنگ کالونیوں نے آپس میں پول کر کے رنگ روڈ کی یہ ایکسٹینشن کروائی ہے۔

چوہدری صاحب کا مطمح نظر رنگ روڈ میں ایکسٹینشن سے پیدا ہونے والی صورتحال ہے۔ چودھری صاحب نے ایک ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کا نام لے کر ان کے مالکان، بے نامی شراکت داروں کے علاوہ پراپرٹی ڈیلروں کا حساب بھی لگا لیا کہ اس منصوبے سے کس کس نے کتنا کمایا لیکن حیران کن طور پر انھیں راولپنڈی کی بحریہ ٹاؤن نظر نہیں آئی جو اس منصوبہ کی اولین بینیفشری سکیم ہے۔ روات سے شروع ہونے والی رنگ روڈ کی لمبائی 40 کلومیٹر ہو یا 66 کلومیٹر بنے، اسے بحریہ ٹاؤن سے گزرنا ہی گزرنا ہے۔

چودھری صاحب اپنے کالم میں انتہائی دردمندی سے لکھتے ہیں ”آپ ظلم دیکھیے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر کس طرح فضا بناتے ہیں ’پورے پورے شہر کاغذوں میں بناتے اور پلاٹوں کی فائلیں بنا کر مہینے میں اربوں روپے جمع کر لیتے ہیں اور عوام سستے پلاٹوں اور گھروں کے لالچ میں اپنی عمر بھر کی کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں‘ یہ کیسے لوگ ہیں؟ کیا ان کے دل رحم سے بالکل خالی ہو چکے ہیں؟

یہ لکھتے ہوئے چودھری صاحب یقیناً بھول گئے ہوں گے کہ ملک ریاض بھی کچھ سال پہلے تک عوام کو ایسے ہی اپنے ’کرشماتی منصوبوں‘ سے لبھاتے رہے ہیں۔ ان کی سکیم کا نقشہ بننا تو دور کی بات ہے زمین کا وجود بھی نہیں ہوتا تھا لیکن درخواست فارم خریدنے کے لیے لوگ دیوانوں کی طرح لائن میں لگتے تھے۔

جاوید چودھری صاحب کا پرانا قاری ہوں لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیوں بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض کا نام آتے ہی ان کا زاویۂ نگاہ 180 ڈگری پر تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ کالم پڑھ کر مجھے چودھری صاحب کے کچھ پرانے کالم یاد آ گئے۔ گمان ہوتا ہے کہ وہ ملک ریاض سے بہت متاثر ہیں، ان کا کالم ”یہ بندہ اتنا برا نہیں“ پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ انتہائی غربت سے کھرب پتی بننے والے ملک ریاض ایک ”فرشتہ صفت“ انسان ہے، کوئی خامی انھیں چھو کر نہیں گزری، کاروبار بڑھانے کے لئے ان کے تمام ”ہتھکنڈے“ اصول و قواعد کے مطابق ہیں۔

انھیں تمام ہاؤسنگ کالونیوں کے مالکان کی خامیاں نظر آ گئیں مگر ملک ریاض پر زمینوں پر قبضے اور مخالفین کو قتل کروانے کے مقدمات کے باوجود وہ انھیں ایک ”دیوتا“ لگتے ہیں۔ انھیں ایک ہاؤسنگ سکیم کا راتوں رات این او سی لینا غلط نظر آتا ہے مگر ملک صاحب کا فائلوں کو پہیے لگا کر فوائد حاصل کرنے میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔

اپنی بدعنوانیوں کی وجہ سے ملک ریاض کو سپریم کورٹ سے 470 ارب روپے جرمانہ ہوا ہے مگر چودھری صاحب کی حکمت و دانش میں ان کا غریبوں کو کھانا کھلانا زیادہ مستحسن ہے۔ انھیں عیاری، مکاری اور دھوکہ دہی جیسے تمام ہتھکنڈے استعمال کرنے والے دیگر کالونیوں کے مالکان بے رحم لگتے ہیں لیکن بحریہ ٹاؤن کے کراچی میں زمین واگزار کروانے والی حقیقی صورتحال ان کے جذبۂ احساس کو نہیں چھو سکی۔ کراچی کے مظلومین کی آہیں اور سسکیاں اپنی جگہ مگر چودھری صاحب کے لئے یہ پہلو باعث اطمینان ہے کہ ملک صاحب تو اپنی ہر سکیم میں اللہ کو پارٹنر بنا لیتے ہیں اس لیے وہ کیسے غلط ہو سکتے ہیں۔ یقیناً واویلا مچانے والے شہری ہی غلط ہوں گے۔

مجھے اعتراف کر لینا چاہیے کہ شاید اپنی کج فہمی کے سبب میں فہم و فراست کی ان منازل تک نہیں پہنچ سکتا جہاں چودھری صاحب اپنی انقلابی سوچ کے سبب پہنچ چکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک کالم لکھا تھا کہ ریاست سویلینز کی کب بنے گی۔ اس کا جواب اب مل گیا ہے۔ ریاست سویلینز کی ماں تب بنے گی جب بیٹے ملک ریاض جیسے ہوں گے، جو نہ صرف سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز اور لیفٹیننٹ جنرلز کو ملازمت پیش کر سکتے ہوں بلکہ قلم فروش صحافیوں اور کالم نگاروں کی ایک لمبی فہرست کو بھی مدح سرائی پر مامور کر سکیں۔ جو نہ صرف ان کے لئے کالم لکھیں بلکہ یوٹیوب پر ان کے لئے پروگرام بھی کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments