وبا، افواہ اور ٹیکہ



کوویڈ 19 نظام تنفس پر حملہ کرنے والا اک وائرس ہے جو انسان کے جسم میں داخل ہو کر پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے جس سے انسان کو سانس لینے میں شدید دشواری کے بعد موت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ کورونا سے جلد یا بدیر صحتیابی آپ کے مدافعتی نظام پر منحصر ہے۔ کچھ لوگوں کو کرونا کی شدید علامات ظاہر ہوئیں جبکہ کچھ افراد کی معمولی بخار کے بعد انفیکشن سے جان چھوٹ گئی۔ بہت سے ممالک شروع میں اس وبا کو محض عام نزلہ زکام سمجھتے رہے، بہت سے ممالک اس بیماری کے وجود سے ہی انکاری رہے اور چند ممالک اب بھی اس بیماری کو ماننے میں تذبذب کا شکار ہیں۔

حسب روایت کورونا کے خلاف افواہوں کا وہ بازار گرم رہا پوچھئے مت ہر شخص اپنے طور اس افواہ (وبا) کا ماہر بن کر بھانت بھانت کے مشورے اور پیشین گوئیاں کر رہا تھا۔ کوئی اسے امریکہ کی گمبھیر سازش قرار دے رہا تھا۔ جبکہ امریکی اس کا الزام چائنہ کو دے رہے تھے۔ ابتدا میں بہت سے ممالک چین کو اس وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار سمجھتے تھے اور اس کی وجہ کورونا کا پہلا کیس چین کے صوبہ ووہان میں سامنے آنا تھی۔ جبکہ دوسرا گروہ جو اسے امریکہ کی کارستانی کہہ رہا تھا ان کا ماننا تھا چو نکہ امریکہ کو چین کی معاشی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی لہذا امریکہ نے چین میں حیاتیاتی جنگ کا اک تجربہ کیا ہے۔

پھر آہستہ آہستہ دونوں مفروضوں نے دم توڑنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد ایک گروہ ایسا بھی تھا جو اس کو یہودیوں کی سازش قرار دے رہا تھا۔ تو کچھ احباب اسے میڈیسن بزنس سے وابستہ لوگوں کی کارستانی گردان رہے تھے۔ وبا کے ابتدا میں بہت سے احباب اور رشتہ داروں کے منہ میں اک ہی جملہ تھا۔ یار کسے نوں ویکھیا ای کورونا نال بیمار ہوندیا؟ (کیا کسی کو کورونا سے بیمار ہوتے دیکھا ہے؟ ) ۔ اس وقت تو خیر میرے پاس اس بات کا جواب انکار میں ہی تھا مگر اب تک میرے ارد گرد بیشمار لوگ اس بیماری سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم کسی کی وفات نہیں ہوئی۔

ایک ملک کے اعلٰی عہدے داران نے یہ عذر پیش کیا کہ ہم نے مختلف جعلی سیمپل کورونا ٹیسٹنگ کے لئے لیبارٹری میں بھیجے تھے جن کے نتائج مثبت ہیں چونکہ اس لیب نے جعلی سیمپل سے کورونا کی مثبت رپورٹس بنائیں ہیں لہذا کورونا نام کی کوئی بیماری نہیں ہے یہ سب جھوٹ ہے اور ایک سازش ہے۔ جبکہ کسی بھی سائنسی تجربہ چاہے وہ لیب میں ہو یا کہیں بھی اس میں غلطی کا امکان بہرحال موجود ہوتا ہیں۔ ابتدائی ایام میں اس بیماری نے امریکہ کو شدید متاثر کیا اور حال ہی میں انڈیا میں اس وبا سے اچھا خاصہ نقصان ہوا ہے۔

ویکسین کی ایجاد کے بعد بہت امید بندھی ہے کہ اب اس بیماری سے جلد ہی ہماری گلو خلاصی ہو جائے گی۔ مگر ویکسین کو لے کر انسانی رویہ بہت تشویش ناک ہے۔ وہی اشخاص جو پہلے کورونا کو نہیں مان رہے تھے اور اس کو ایک سازش سمجھ رہے تھے اب ان کے ہاتھ اک اور بات آ گئی ہے اور وہ ہے کورونا ویکسینیشن۔ کورونا ویکسین کے خلاف جو افواہوں کا نیا غبارہ بھرا جا رہا ہے اس میں بہت سی باتیں شامل ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کروں گا۔

1۔ سب سے مضحکہ خیز دعوی یہ کیا جا رہا ہے کہ بل گیٹس اس ویکسین کے ذریعہ پوری دنیا کے انسانوں میں ایک الیکٹرانک چپ داخل کرنے کے بعد انسانی دماغوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لے گا۔ ان لوگوں کو شاید یہ نہیں پتا انسانی دماغ کو چپ سے کنٹرول کرنے کی نسبت زیادہ آسان طریقہ موجود ہے۔ مختلف گیمز اور مختلف سوشل ویب سائٹس با آسانی یہ ہدف پورا کر سکتی ہیں خاص طور پر گیمز جو کھیلنے والے کے دماغ کو بہت زیادہ اپنے کنٹرول میں کر لیتی ہیں۔

2۔ اب وہ مسئلہ سامنے آتا ہے جس کے بارے میں ہمارے پاکستانی حضرات بہت ہی حساس ہیں، وہ یہ کہ دنیا والے ویکسینیشن سے ہم پاکستانیوں کو بچے پیدا کرنے کی خاصیت سے مرحوم کرنے کے در پر ہے (صلاحیت اس لئے نہیں لکھا کیوں کہ یہ خاص صلاحیت صرف پاکستانیوں کی ہی سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے چاہے وہ پولیو کے دو قطروں سے ہو چاہے کورونا کی ویکسین سے ) ۔

3۔ کورونا ویکسین سے خون لوتھڑوں میں تبدیل ہوتا ہے اور اس سے متعلقہ شخص کی موت ہو جاتی ہے جبکہ ایسا ایک آدھ کیس ضرور ہوا مگر اس کی وجہ دیگر عوامل بھی تھے جیسے پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا ہونا۔

اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں آپ نے سن رکھی ہوں گی اور ان تمام جھوٹی باتیں پھیلانے میں سب سے زیادہ ان یوٹیوب چینلز کا ہاتھ ہے جو چند ویوز کے لئے سنسنی پھیلاتے رہتے ہیں۔

حکومت پاکستان نے کورونا کی فری ویکسینیشن شروع کر دی ہے اس کے لئے آپ کو اپنا یا کسی عزیز (جن کی عمر 30 سال سے زیادہ ہے ) کا شناختی کارڈ نمبر 1166 پر بھیجنا ہے اور آپ کو باقی ہدایات میسج کی شکل میں موصول ہو جائیں گی۔ اپنا اور اپنے خاندان کا خیال کریں خصوصاً عمر رسیدہ افراد کو جلد از جلد ویکسین لگوائیں اور کسی بھی قسم کے پروپیگنڈا کا شکار مت ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے پاس پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہ بچے۔

انسان اور کورونا اک دوسرے کے خلاف قریب پچھلے دو سالوں سے جنگ میں مصروف ہیں کبھی حضرت انسان کا پلہ بھاری ہو جاتا اور کبھی میوٹیشن کے بعد کرونا کا۔ حتمی جیت کس کی ہو گی اور یہ جنگ کب تلک جاری رہے گی اس کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ لیکن مجھے قوی امید ہے کہ انسان بہت جلد اس جنگ میں فاتح ہو گا۔ مگر تب تک ہم سب کو مل کر حفضان صحت کے اچھے اصولوں کو اپنانا ہو گا۔ احتیاط کریں، ماسک پہنیں، محدود رہیں محفوظ رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments