فلسطین کی حمایت میں نکلے شاہ محمود قریشی پاکستان کا نقصان کر بیٹھے


اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ گیارہ روز کی بمباری اور وحشیانہ فضائی حملوں کے بعد بند ہوچکی ہے۔ گزشتہ روز اسرائیلی کابینہ کی طرف سے غزہ پر بمباری روکنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں حماس نے بھی اسرائیل پر راکٹ پھینکنے کا سلسلہ بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے جنگ بندی کی ’توثیق‘ کردی تھی۔ یہ جنگ بندی امریکی صدر جو بائیڈن کی مداخلت اور غزہ میں اسرائیلی اہداف کی تکمیل کے بعد ممکن ہوئی ہے۔
اسرائیلی حملوں میں اڑھائی سو کے لگ بھگ شہری جاں بحق ہوئے جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ غزہ کی شہری املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا اور مواصلات کا نظام تباہ کیا گیا ہے۔ حتی کہ اسرائیلی بمباری سے ایسی رہائشی عمارتیں بھی محفوظ نہیں رہیں جہاں عالمی میڈیا اداروں کے دفاتر تھے۔ اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر عالمی میڈیا اور حماس خود اسے دو طرفہ جنگ قرار دے رہے ہیں۔ حماس ایک چھوٹے سے فلسطینی علاقے غزہ میں حکمران ہے اور اس کی عسکری صلاحیت بے حد محدود ہے۔ اسی لئے وہ ناقص اور پرانی طرز کے راکٹوں کے ذریعے اسرائیل کی شہری آبادیوں پر حملے کرتے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ حالت جنگ میں وہ اپنے دفاع کے لئے یہ اقدام کرتے ہیں۔ عام طور سے یہ راکٹ نشانے پر نہیں لگتے۔ انہیں یا تو اسرائیلی فضائی نظام ضائع کردیتا ہے یایہ راستے میں ہی گر کر تباہ ہوجاتے ہیں۔
اسرائیل نے ماضی کی طرح اس بار بھی حماس کے راکٹوں کو عذر بنا کرغزہ پر حملوں کا آغاز کیاتھا اور دنیا بھر کی اقوام کی طرف سے احتجاج اور مذمت کے باوجود 11 روز تک یہ بہیمانہ سلسلہ جاری رہا۔ امریکہ نے ہمیشہ کی طرح اسرائیل کا مکمل طور سے ساتھ دیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کسی قسم کی کوئی قرار داد منظور ہونے نہیں دی۔ حتی کہ ’جنگ بندی‘ سے ایک روز پہلے فرانس کی جانب سے پیش کی گئی اس قرار داد کی بھی مخالفت کی گئی جس میں صرف تشدد بند کرنے اور شہری آبادیوں کو محفوظ رکھنے کی بات کی گئی تھی۔ امریکہ کسی عالمی پلیٹ فارم پر کوئی ایسا مؤقف اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے جس سے اسرائیل مخالفت کا تاثر پیدا ہوتا ہو حالانکہ شہریوں کو ہلاک کرنا اور گنجان آبادی پر بہتری فضائی قوت کے ساتھ تسلسل سے حملے بنیادی طور پر انسانیت کے خلاف اقدام تصور ہونا چاہئے۔ فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے گزشتہ روز جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ان حملوں کو فلسطینیوں کی نسل کشی کے مماثل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’دنیا کے ہر ملک کا فرض ہے کہ وہ علاقے میں امن ، انصاف اور آزادی کو یقینی بنائے‘۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئیترس نے اس موقع پر کہا تھا کہ ’اگر دنیا میں کوئی جہنم ہے تو وہ اس وقت غزہ کے بچوں کی زندگی ہے‘۔ اس سے اسرائیل کی بالادستی ، بے پناہ فوجی طاقت اور اس کے ناجائز استعمال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اس کے باوجود جب یہ حملے روکنے کو جنگ بندی کہا جائے گا اور حماس بھی اس ’جنگ‘ میں اپنی کامیابی کے دعوے کرے گی تو صرف بین الاقوامی میڈیا سے شکوہ نہیں کیاجاسکتا اور نہ ہی اسے اسرائیل نواز عناصر کی طرف سے یک طرفہ طور پر فلسطینیوں کو جنگی فریقی قرار دینے کی کوشش کہا جاسکتا ہے۔ حماس کے علاوہ اس کی حمایت کرنے والے ممالک کو اب اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہوگی کہ وہ اس حکمت عملی سے کس حد تک فلسطینیوں کے حق زندگی اور آزادی کی جد و جہد کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ گزشتہ 11 روز کے دوران دنیا کی بہترین افواج میں شامل اسرائیلی وار مشینری نے غزہ کی ایک چھوٹی سی مجبور ، بے وسیلہ و محصور آبادی پر انسانیت سوز حملے کئے۔ ان حملوں کو دو فریقوں میں جنگ قرار دینے سے اسرائیل کا مؤقف مضبوط اور فلسطینیوں کے نقطہ نظر کو ضعف پہنچتا ہے۔
عسکری طور سے حماس نہ تو باقاعدہ فوج ہے اور نہ ہی یہ چھوٹا سا گروہ اسرائیل کو کوئی نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کجا وہ خود کو جنگ میں اسرائیل کے مد مقابل کے طور پر پیش کرے اور میڈیا کو یہ موقع فراہم کرکے کہ وہ اسرائیل اور حماس یا فلسطینی شہریوں کو یکساں طور سے جنگ میں ملوث گروہ قرار دے ۔ اور جنگ سے دور عالمی رائے اس سے متاثر ہو۔ یہ ایک اہم اور باریک نکتہ ہے۔ حماس کی یہ حکمت عملی بنیادی طور پر علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام اور دو ریاستی منصوبہ کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ حماس اس کا برملا اعلان بھی کرتی ہے۔ فلسطینیوں اور ان کے حق آزادی کے لئے کام کرنے والوں کو البتہ یہ سوچنا پڑے گا کہ کیا اسرائیل کو نیست و نابود کرنے پر استوار حکمت عملی کبھی فلسطینیوں کے مصائب و آلام ختم کرواسکے گی؟
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مسلسل امریکی مخالفت کی وجہ سے11 روز تک جاری رہنے والی اسرائیلی جارحیت کو ختم کروانے کے لئے کوئی اقدام نہیں کرسکی۔سلامتی کونسل کو اس وقت سب سے طاقت ور اور بااثر عالمی فورم کی حیثیت حاصل ہے لیکن یہ فورم ویٹو کا اختیار رکھنے والے پانچ ممالک کی مرضی ، مفاد اور سیاسی ضرورتوں کا محتاج ہوکر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی واضح زیادتی، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور شہریوں کو ہلاک کرنے کی پالیسی کے باوجود سلامتی کونسل اسے مسترد کرنے یا اس کی مذمت کرنے کی قرار داد بھی منظور نہیں کرسکی۔ اس دوران اسلامی تعاون تنظیم کی درخواست پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس منعقد ہؤا جس میں مسلمان ممالک کے نمائیندوں نے اسرائیل کے خلاف پر جوش تقاریر کیں۔ ان میں البتہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنے جوش و خروش اور تند و تیز بیان کی وجہ سے بازی لے گئے۔
جنرل اسمبلی کے پاس کسی بھی تنازعہ پر کوئی اقدام کرنے کا اختیار نہیں اور اس کی قرارداد یں ایک بیان سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، جنہیں نافذ کرنے یا جس پر عمل کروانے کا اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس ناکارہ عالمی فورم پر تقریر کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے مطالبہ کیا کہ ’فلسطینیوں کی حفاظت کے لئے بین الاقوامی فورس تعینات کی جائے۔ اور اسرائیل کو غزہ جانے والے تمام راستے کھولنے پر مجبور کیا جائے تاکہ غزہ کے عوام تک امدادی ساز و سامان پہنچایا جاسکے۔ اگر سلامتی کونسل حفاظتی فورس بھیجنے پر اتفاق نہیں کرتی تو ہم خیال اقوم اپنا اتحاد قائم کرکے علاقے میں مبصر بھیجیں تاکہ جارحیت کی روک تھام ہو اور فلسطینیوں تک انسانی امداد پہنچائی جائے‘۔ پاکستانی وزیر خارجہ کی تقریر کے اس حصہ کو جذباتی نعرے بازی سے زیادہ کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ جو ملک کشمیر کے سوال پر نریندر مودی کے یک طرفہ اور جابرانہ اقدامات کے خلاف دنیا کے ایک ملک کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہ ہؤا ہو، اب اس کا وزیر خارجہ اقوام متحدہ کے مقابلے میں ہم خیال اقوام کا گروہ بنانے کی بات کررہا ہے جو اسرائیلی جارحیت کی روک تھام کرسکے۔
شاہ محمود قریشی نے اسرائیل سے غزہ جانے والے راستے کھولنے کا مطالبہ تو کیا ہے لیکن وہ مصر سے یہ سوال نہیں کرسکے کہ اس نے غزہ کے ساتھ اپنی سرحد کیوں بند کی ہوئی ہے اور کیوں غزہ کے شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کے لئے وہ اپنی طرف کی سرحد نہیں کھولتا؟ یا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ’ہم خیال اقوام کا اتحاد‘ قائم کرنے کا نادر تصور پیش کرنے سے پہلے مسلمان تعاون تنظیم کے اجلاس میں یہ نکتہ کیوں نہیں اٹھایا گیا۔ اس گروپ میں شامل تمام57 اقوام تو اسرائیلی جارحیت کو مسترد بھی کرتی ہیں اور فلسطینیوں کو ان کا حق بھی دلوانا چاہتی ہیں۔ ان کے پاس وسائل بھی ہیں اور وہ مشترکہ فوج کھڑی کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ یا جیسا کہ بھارتی ادیبہ ارون دھتی رائے اور چند دیگر دانشوروں نے مصر سے مطالبہ کیا تھا کہ اس کی فضائیہ غزہ کو نو فلائی زون قرار دے کر اسرائیل کو حملے روکنے پر مجبور کرے، انہی خطوط پر اگر او آئی سی کے تمام ممالک فضائیہ کا ایک ایک اسکوارڈن بھی فراہم کرتے تو اسرائیلی حملے روکنے کا مؤثر اقدام کیا جاسکتا تھا۔ تاہم اس کے لئے جس سیاسی ہم آہنگی اور سفارتی اعتماد سازی کی ضرورت ہے ، وہ مسلمان ممالک میں ناپید ہے۔ اسرائیل کے ہمسایہ تمام عرب ممالک ماضی کے تجربات کی روشنی میں سیکھ چکے ہیں کہ وہ عسکری طور سے اسرائیل کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ مصر جنگ بند کروانے کے لئے تو متحرک رہا لیکن اس نے غزہ کو سہولت فراہم کرنے کے لئے سرحد کھولنے کا حوصلہ نہیں کیا کیوں کہ اس کا مقصد براہ راست اسرائیل سے جنگ کا خطرہ مول لینا تھا۔
شاہ محمود قریشی نے جنرل اسمبلی کی تقریر میں ہی خیالی چھکے مارنے کی غیرضروری مشقت نہیں کی بلکہ اس کے بعد سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں غیر محتاط الفاظ استعمال کرکے فلسطین کے بارے میں پاکستانی مؤقف کو کمزور کرنے میں بھی کردار ادا کیا۔ ٹیلی ویژن کی اینکر بیانا گولوڈریگا کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ ’وہ بہت بااثر لوگ ہیں، وہ میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں‘۔اس بیان کو بیانا نے ’ یہود مخالف ‘ قرار دیا۔ شاہ محمود قریشی خود پر یہود مخالف بیان کے الزام کو مسترد کرنے میں ناکام رہے۔ ان کا اصرار رہا کہ ’ان کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے اور انہیں بہت زیادہ کوریج دی جاتی ہے اور اس سے ہوا یہ ہے کہ عام شہریوں کی جانب سے شیئر کی جانے والی ویڈیوز کی وجہ سے وہ لوگ بھی جاگ اٹھے ہیں جو عام طور پر خاموش رہتے ہیں‘۔
یہودیوں اور اسرائیل کے بارے میں مسلمان ملکوں میں ضرور ایک خاص طرح کا مزاج اور سوچ پائی جاتی ہے لیکن کسی ملک کے وزیر خارجہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے کوئی ایسا مؤقف اختیار نہ کرے جو کسی قوم یا عقیدہ کی مخالفت پر مبنی تصور ہو یا جس کا واضح اور ٹھوس ثبوت پیش نہ کیا جاسکے۔ یہ کہنا کہ یہودی عالمی میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں، سازشی نظریہ کی بنیاد پر استوار ایک سوچ ہے۔ بدقسمتی سے نازی عہد میں اسی قسم کے پروپیگنڈا کو عام کرکے یہودیوں کی نسل کشی کی گئی تھی۔ یہ معاملہ یہودیوں اور متعدد ممالک کے لئے انتہائی حساس اور ناقابل قبول ہے۔
شاہ محمود قریشی نے انٹرویو میں پہلے غلط مؤقف اختیار کیا پھر اس سے پیدا ہونے والے تاثر کو مسترد کرنے میں ناکام رہے۔ عالمی سفارت کاری میں پاکستان کو اس کوتاہی کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments