گالی، ریپ اور ”مٹی پاؤ سوچ“ کی عزیز داری


آپ نے گھر، دفتر، سڑک یا گلی میں آتے جاتے رنگا رنگ گالیاں تو سنی ہوں گی؟ ان گالیوں کے ننانوے فیصد کردار ماں، بہن، بیٹی ہوتے ہیں۔ یہ گالیاں لفظ ”میری“ سے نہیں ”تیری“ سے شروع ہوتی ہیں۔ تیری ماں کی، تیری بہن کی۔

گالی سامنے والے کو شرمندہ کرنے، نیچا دکھانے یا اپنی بے لگام جھنجھلاہٹ کے اظہار کا طریقہ ہے۔ اسی لیے گالی میں ان رشتوں کو بطور خاص نشانہ بنایا جاتا ہے جن کے بارے میں ہماری نفسیات دو رخی ہے۔ یعنی میری ماں کے پاؤں کے نیچے تو جنت لیکن تیری ماں کی۔ میری بہن تو ستی ساوتری اور پوتر مگر تیری بہن کی فلاں فلاں۔ میری بیٹی تو دودھوں دھلی لیکن تیری بیٹی ر اور ف۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے اکثریت جان بوجھ کر یا لاشعوری انداز میں دن میں کئی بار ان رشتوں کا اپنی زبان اور کلام سے ریپ کرتی ہے اور احساس تک نہیں ہوتا۔ اسی نفسیات کے اسیر ہونے کے سبب جب واقعی کسی کا فزیکل ریپ ہوتا ہے تو ہم میں اکثر وقتی رد عمل کے تحت پھڑپھڑاتے ضرور ہیں البتہ اس انفرادی و اجتماعی غم و غصہ میں مبتلا نہیں ہوتے جسے ذہن سازی کے خام مال کے طور پر احتجاج، مزاحمت و کراہیت کی تعمیری شکل میں ظاہر ہونا چاہیے۔ یعنی ایک انفرادی و اجتماعی بے حسی کی کیفیت میں بسیرے کی عادت پڑ جاتی ہے۔

اور پھر ہم ضمیر کی حدت سے بچنے کے لیے مختلف حیلہ ساز پناہیں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ یہ پناہ گاہیں حقائق کی چلچلاتی دھوپ سے سب کو بچانے کے کام آتی ہیں۔ وہ پولیس والا بھی ہمارے ہی گھر اور گلی محلے کی تربیتی پیداوار ہے جو اکثر تفتیش سے پہلے ہی اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ دراصل جو عورت شکایت لے کر آئی ہے اس کا کردار ہی مشکوک ہے۔ اس کا حصول انصاف کے لیے کسی مرد کا وسیلہ حاصل کرنے کے بجائے خود چل کر آنا ہی اس کی بے شرمی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ ”شریف عورتوں“ کا یہ شیوہ نہیں ہوتا۔ یعنی اصل مسئلہ (ریپ) کردار کی خود ساختہ نپائی کے ابتدائی مرحلے میں ہی کہیں غتربود ہو جاتا ہے۔

وہ وکیل جو قانون کی تمام باریکیوں کو جاننے کا دعویدار ہے اور جس کا واسطہ روزانہ درجنوں پیشہ ور اور شوقین وارداتیوں سے پڑتا رہتا ہے۔ وہ بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے باوجود ریپ زدہ بچے، بچی یا عورت یا وارث کو کٹہرے میں کھڑا کر کے ایسے ایسے رسیلے سوالات پوچھتا ہے کہ متاثرہ کردار سکتے سے گنگ ہو جائے اور جیوری اور جج کے چہروں پر طنزیہ و تفریحی مسکراہٹ پھیل جائے اور پورا مقدمہ ہی ایک المناک مسخرے پن کی شکل اختیار کر لے۔ اور پھر یہی رویہ متعصب قانونی مباحث و دلائل کی بوندا باندی میں قطرہ قطرہ اکٹھا ہو کر اکثر ججوں کے فیصلوں میں بھی جھلک اور چھلک پڑتا ہے۔

یہ نفسیات اور طرز عمل اعلیٰ ترین عہدے داروں سے لے کر مجھ تک سب کی مشترکہ میراث ہے۔

یہ کسی ٹھیلے والے کے نہیں بلکہ ایک صدر مملکت کے الفاظ ہیں کہ ”چند خواتین مغربی ممالک کا ویزہ لینے کے لیے بھی ریپ کروا لیتی ہیں۔“

یہ کسی راہ چلتے لا ابالی لونڈے کے نہیں بلکہ ایک منتخب وزیر اعظم کے الفاظ ہیں کہ ”خواتین جس طرح کے فیشن کر کے باہر نکلتی ہیں۔ کچھ مرد انھیں دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے۔“ اور یہ کسی جیدے کن ٹٹے کے نہیں بلکہ ایک معزز پارلیمنٹیرین کے الفاظ ہیں کہ ”مٹھائی پر مکھی تو آئے گی۔“

ان سب معززین کا خیال ہے کہ جو عورت فیشن سے دور ہے، سات پردوں میں رہتی ہے، آواز اونچی نہیں کرتی، غیر مردوں سے فاصلہ بنا کر چلتی ہے، مخلوط تعلیم کے ماحول سے محفوظ ہے، دینی فرائض پر کاربند ہے اس کا ریپ نہیں ہو سکتا۔ مگر چھ برس کا بچہ اور چار برس کی بچی اس خود ساختہ فریم میں کیسے فٹ ہو؟ اس پر اکثر زبانیں ادھر ادھر دائیں بائیں کی ہچر مچر شروع کر دیتی ہیں۔

ہم میں سے شاید ہی کوئی اس نظریے کا وکیل ہو کہ جتنا پردہ جسم کا ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ آنکھ کو پردے کی ضرورت ہے جس میں پتلی کی جگہ اکثر ایکسرے پلانٹ نصب ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ پہلی نگاہ قابل درگزر ہے مگر دوسری نگاہ کی نیت کے تم خود ذمے دار ہو۔

اس بابت ہر طرح کے سروے کم ازکم ایک نکتے پر متفق ہیں کہ پینسٹھ تا ستر فیصد ریپ ان کے ہاتھوں ہوتے ہیں جنھیں گھروں میں محرم، معزز، سمجھ دار اور بڑا سمجھ کے آنے جانے اور رہنے سہنے کی اجازت ہوتی ہے۔ گھر کی خواتین اور بچے انھیں احترام کے رشتوں سے پکار رہے ہوتے ہیں اور وہ ان عورتوں اور بچوں کو کسی اور زاویے سے ناپ رہے ہوتے ہیں۔

اور جب واردات ہو جاتی ہے تو نوے فیصد واقعات میں یہ وارداتیں گھر کے مکینوں کے سینوں میں دفن ہو جاتی ہیں۔ بات باہر نکل گئی تو بہت بدنامی ہو گی۔

یہ تصور نیک نامی و بدنامی اس عورت بچے یا بچی کی جسمانی و نفسیاتی حالت سے کہیں مقدس سمجھا جاتا ہے جسے اب باقی زندگی اسی نفسیاتی گھاؤ کے ساتھ بوند بوند جینا اور لمحہ با لمحہ مرنا ہے۔

بس وہ کہانیاں باہر آتی ہیں جن میں متاثرہ کردار زخمی یا قتل ہو جائے۔ باقی سب کچھ خوف اور ”دنیا کیا کہے گی“ کی موٹی سانس گھوٹ چادر تلے دفن ہو جاتا ہے۔ اور اگر کوئی مظلوم کردار معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے، جرات دکھانے اور کھل کے بات کرنے کی کوشش کرے تو اس کے منہ پر اس عزت کا توبڑا رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا ریپ کے بعد کوئی وجود نہیں رہا۔

ریپ متاثر کو گول گول گھورتی آنکھوں سے زیادہ فوری دلاسے، ایک عدد ہمدرد کاندھے اور یہ یقین دلانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اکیلا نہیں۔ اس کا قصور نہیں۔ ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔ مگر نوے فیصد واقعات میں متاثرہ بچہ، بچی اور خاتون مشکوک نگاہوں کے تیروں سے مزید چھلنی ہو کر نا امیدی و مایوسی کے اندھیرے غار میں اترتا چلا جاتا ہے۔ اور جینے کی امنگ آہستہ آہستہ مرنے لگتی ہے اور پھر وہ اندر اور باہر فقرے سہتے سہتے اپنا ہی سایہ بن جاتا ہے۔

اس پر مستزاد ہمارا منافقانہ شرمیلا پن بھی خوب ہے۔ ہر طرح کی فحش کلامی قابل قبول مگر ریپ کو ریپ کہتے ہوئے زیادہ تر لوگ حتیٰ کہ میڈیا بھی کتراتا ہے۔ عزت تار تار، عزت لٹ گئی، آبرو باختہ، جنسی زیادتی، اجتماعی زیادتی وغیرہ وغیرہ۔ ہر سابقہ و لاحقہ استعمال ہو گا مگر ریپ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے زبان پھسل جائے گی۔

حالانکہ ریپ کا مطلب ہے وہ جنسی تعلق جو زور زبردستی سے جوڑنے اور وکٹم کو شدید احساس عدم تحفظ میں مبتلا کر کے ایک بے بس و لاچار نیم انسان میں تبدیل کرنے کی خاطر بطور ہتھیار جان بوجھ کر استعمال کیا جائے۔ اس ایک اصطلاح کے بکثرت استعمال سے بیسیوں غیر متعلق و غیر ضروری الفاظ کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے جن کا لاشعوری و شعوری مقصد متاثرہ شخص کی اصل کیفیت پر پردہ ڈالنا یا جرم کی شدت کو کم کر کے پیش کرنا ہے۔

جس دن ہم سب ”مٹی پاؤ“ کی ذہنیت سے آزاد ہونے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں گے اس کے بعد بھی ریپ تو شاید ہوتے رہیں مگر سماجی سطح پر مزاحمت اور قانون کا مساویانہ و موثر استعمال جذبات سے مغلوب ریپسٹ کو بھی تعلیم دینا شروع کر دے گا کہ اپنے جذبات کو رسی باندھے یا پھر گلے میں رسہ پڑنے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments