ترین صاحب نے تراہ ہی نکال دیا

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


ہماری نسل نے اپنے بزرگوں کو بہت شوق سے سیاست اور نظریات پر بات کرتے سنا۔ اس وقت نو آبادیاتی نظام ختم ہوئے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا، کمیونزم کا جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا۔

سیاست پر بات کرنا، انقلابی نظر آنے کے لیے جلے کٹے لہجے میں سگریٹ، چائے پی کے نظام کو کوسنا اور ایک نئی دنیا کے خواب دیکھنا، دکھانا ان لوگوں کا مشغلہ تھا۔ ان کے بڑوں نے عمر بھر انھیں بتایا تھا کہ کیسے ان کی سیاسی جدوجہد نے انگریز کو یہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔

وہ نسل اسی وہم میں رہی اور گمان کرتی رہی کہ وہ بھی کچھ کر گزریں گے۔ جلسے جلوس، نعرے بازیاں، تھڑوں اور چائے خانوں میں سیاست پر بحث کرنا اور چشمے تڑوا کے، گریبان پھٹوا کے گھر جانا ان کا مشغلہ تھا۔

بیچ میں دو ایک مارشل لا بھی گزرے مگر ان کے خنے ڈھیلے نہ ہوئے۔ یہ نسل جب اپنی زندگی کے نصف میں پہنچی تو پاکستان دو ٹکڑے ہوا اور یہاں سے سیاست اور نظریات اپنی موت آپ مرنے لگے۔

بھٹو کی پھانسی شاید ایسا جھٹکا تھا کہ سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والے ہل کر رہ گئے لیکن ابھی دوسرے دھڑے کی خوش فہمیاں باقی تھیں۔ خیر سے گزرتے وقت نے آہستہ آہستہ انھیں بھی یہ سمجھا دیا کہ انگریز جاتے جاتے اپنا ہنٹر اپنے جانشینوں کو سونپ گیا ہے۔

وہ نسل گزر گئی، ہم اور ہمارے بعد آنے والی نسل کی بچی کھچی خوش فہمیاں، امیدیں اور نظریات، چند ہی برس میں دم توڑ گئے ہیں۔ آج اگر کوئی لانگ مارچ کا اعلان کرتا ہے تو سب کو معلوم ہوتا ہے کہ ڈیل ہو رہی ہے۔

کسی کا جلسہ کامیاب ہوتا ہے تو سب کو علم ہوتا ہے کہ ڈیل کامیاب ہو رہی ہے۔ کسی کے جلسے میں کرسیاں خالی ہوتی ہیں تو پتا چل جاتا ہے کہ باس سے بگڑ گئی ہے۔ حد یہ ہے کہ کسی ٹی وی چینل کی ریٹنگ آتی ہے یا کسی ہاؤسنگ سوسائٹی کے پلاٹس کی قیمتیں چڑھتی ہیں، کسی کے بچے کا سکول میں داخلہ ہوتا ہے یا خربوزہ ہی میٹھا نکل آتا ہے تو یہ بھی ڈیل کی کرامات سمجھی جاتی ہیں۔

ایسے میں جہانگیر ترین صاحب کا گروپ بنانے کا اعلان سنتے ہی ایک سرگوشی سی دوڑ گئی کہ کیا مائنس ون ہونے والا ہے؟ کیا ڈیل ناکام ہو گئی ہے؟ فارورڈ بلاک بننے والا ہے؟ کیا پی ڈی ایم پھر سے زندہ ہو گی؟ کیا اس بار اس میں ترین صاحب بھی شامل ہوں گے؟ بقول شخصے، ترین صاحب نے ایک بار تو ’تراہ‘ ہی نکال دیا تھا۔

یہ ’تراہ‘ کیا ہوتا ہے یہ وہی بہتر جانتے ہیں جن کا ’تراہ‘ نکلا ہو۔ باقی لوگ صرف اظہار ہمدردی کر سکتے ہیں مگر ایسی ہمدردی بھی کس کام کی کہ کوئی درد آشنا نہ ہو؟

ترین گروپ، چائے کی پیالی میں طوفان تھا یا بین بجانے والوں کا چھوڑا ہوا سانپ۔ پتا لگانے والے پتا لگاتے رہیں گے مگر جاننے والے جان چکے ہیں کہ ’پیج‘ سلامت ہے اور ڈیل ایک بار پھر پکی ہو گئی ہے۔

ترین صاحب اور ان کے ساتھیوں کے شکوے شکایات دور کرنے کے وعدے کر لیے گئے ہیں اور فی الحال یہ سانپ واپس پٹاری میں چلا گیا ہے مگر فقط فی الحال۔

سیاست پر بات کرنے اور تجزیے کرنے کے شوقین احباب کو ایک بار پھر بہت دھچکا پہنچا ہے۔ اتنی پھسپھسی تو پی ڈی ایم میں پڑنے والی پھوٹ بھی نہ تھی۔

ایک بے تکا لطیفہ یاد آ گیا۔ کہیں زوردار بم دھماکا ہوا، کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن کچھ تھوڑی بہت ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور ایک آدھ راہ گیر کو خراش آ گئی۔ حکومت نے متاثرین کے لیے امداد کا اعلان کیا تو ایک منھ پھٹ شخص نے سوال کیا کہ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن جن کا ’تراہ‘ نکلا ہے ان کے لیے بھی کوئی امداد؟

کچھ ایسا ہی حال یہاں ہے۔ ایک بار تو سب پہلے جیسا ہو گیا ہے، دھماکہ زوردار تھا لیکن نقصان کچھ خاص نہیں ہوا۔ گلے مل کے شکوے دور کر لیے گئے ہیں۔ صدقے کا بکرا باندھ دیا گیا ہے۔ مناسب ساعت دیکھ کر اسے قربان کر دیا جائے گا۔ سب کچھ درست ہو گیا ہے لیکن اس ساری کھیل کبڈی میں جن کا ’تراہ‘ نکلا، ان کے لیے بھی کوئی امداد ہے کہ نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).