قضیہ فلسطین اور ہندوستانی حکومت


رمضان کے مبارک مہینہ میں، ناجائز و غاصب ریاست اسرائیل نے ”مشرقی بیت المقدس“ کے علاقہ ”شیخ جراح“ میں ظلم و زیادتی، بے انصافی و بے رحمی اور زور و زبردستی شروع کی۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا ہوا، 10 /مئی 2021 ء کو غزہ کی پٹی میں پہنچ گیا۔ اس دن سے اسرائیلی قابض افواج اپنے لڑاکا طیارے کے ساتھ غزہ کی پٹی میں اپنی مکروہ اور خوفناک آواز کے ساتھ ایک سمت سے دوسری سمت میں چکر لگاتے ہوئے اپنے نشانہ پر بمباری کر کے معصوم شہریوں کے قتل کا ارتکاب کر رہی ہے۔ عالمی برادری کو نوٹ کرنا چاہیے کہ یہ کھلی دہشت گردی ہے جو ایک غاصب قابض ریاست کے حکم پر، بے خوف و خطر انجام دی جا رہی ہے۔ کچھ عالمی رہنماؤں کی طرف سے بے گناہ فلسطینیوں کے جانی و مالی نقصان پر متنبہ کیے جانے کے باوجود بھی اسرائیلی وزیر اعظم نے کوئی توجہ نہیں دی۔

غزہ کی پٹی میں مزید جانی و مالی نقصان کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، بروز: جمعہ 14 /مئی کو اجلاس منعقد کرنا چاہ رہی تھی؛ مگر امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا۔ پھر بروز: اتوار، 16 /مئی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ”مشرق وسطی کی صورت حال پر کھلی بحث“ کے عنوان سے اجلاس منعقد کیا۔ اس بحث میں ہندوستانی حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے، ہندوستان کے مستقل نمائندہ برائے اقوام متحدہ، جناب ٹی ایس تیر و مورتی نے، اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر زبردستی تھوپی گئی اس جنگ کے حوالے سے، اپنے بیان میں جو کچھ کہا، اس سے قضیہ فلسطین کے حوالے سے بی جے پی کی قیادت والی موجودہ این ڈی اے حکومت کا موقف سب کے سامنے آ گیا۔

انھوں نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین جاری کشیدگی کو فوراً ختم کرنے کرنے کو وقت کی ضرورت بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ”ہندوستان ہر طرح کے تشدد کی مذمت کرتا ہے اور فوری طور پر تناؤ ختم کرنے کی اپیل کرتا ہے۔“ انہوں نے کہا کہ ”ہندوستان غزہ پٹی سے راکٹ حملوں کی“ مذمت ”کرتا ہے۔“ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی حملے میں خواتین اور بچوں سمیت بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت کو انتہائی افسوسناک بتایا؛ مگر انھوں نے اس اسرائیلی بمباری کو انتقامی کارروائی (Retaliatory Strikes) سے تعبیر کیا۔ ہندوستانی حکومت کے پرانے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ”ہندوستان فلسطین کے جائز مطالبے کی مضبوط حمایت کرتا ہے اور (اس قضیہ کے ) دو ریاستی حل کے اپنے موقف پر پر عزم ہے۔“

ہندوستانی سفیر برائے اقوام متحدہ تیر و مورتی کے بیان کی کچھ لوگوں نے تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ رہا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی ہندوستان کے دیرینہ روایات مطابق عالمی سطح پر اپنے موقف کو پیش کیا ہے۔ جب ہم تیر و مورتی صاحب کے بیان کا باریکی سے جائزہ لیتے ہیں ؛ تو کم از کم اتنی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ انھوں نے ”صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں“ والی حکمت عملی سے کام لیا۔

انھوں نے اپنے بیان کے شروع میں رمضان کے مقدس مہینہ میں بیت المقدس، مسجد اقصی میں قابض افواج کی طرف سے تشدد اور پھر ”شیخ جراح“ کے باشندوں کی بحکم عدالت ممکنہ بے دخلی کی کارروائی کے حوالے سے گہری فکرمندی کا اظہار کیا ہے۔ پھر اسی بیان میں دہشت گرد اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی پر بمباری کو ”انتقامی کارروائی“ کہہ رہے ہیں۔ اس انتقامی کارروائی کے ذکر سے پہلے، وہ حماس کی طرف سے غاصب اسرائیل کے خلاف راکٹ حملے کی مذمت بھی کر رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی کورٹ کے فیصلے کے بعد ، طاقت کے بل پر، اسرائیلی قابض فوج نے شیخ جراح کے باشندوں کو غاصبانہ طریقے سے ان کے گھر سے بے دخل کرنے کی کوشش کی۔ پھر قابض فوج نے مسجد اقصی کی بے حرمتی کی اور روزہ داروں اور نمازیوں پر حملہ کیا؛ تب جاکر حماس کی عسکری ونگ ”القسام بریگیڈ“ کی طرف سے، اپنے شہریوں اور مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے انتقامی کارروائی کی گئی۔ اس کا ذکر ہندوستانی نمائندہ کی تقریر میں بھی ہے۔

پھر اسرائیل بھی غزہ کی پٹی پر بمباری شروع کر دیتا ہے۔ اس حقیقی صورت حال کے باوجود، حماس کی کارروائی کی مذمت کرنا اور اسرائیل کی بمباری کو انتقامی کارروائی قرار دینا بالکل ناقابل فہم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا ہندوستانی نمائندہ ”شیخ جراح“ کے مظلوم و بے بس لوگوں خلاف عدالتی و فوجی کارروائی، ان کو نقل مکانی پر مجبور کرنا، مسجد اقصی میں فوجی کارروائی اور پھر غزہ کی پٹی پر بمباری کی مذمت کرتے۔ حماس کی طرف سے کیے جانے والے راکٹ حملے کو انتقامی کارروائی قرار دیتے ؛ کیوں کہ حقیقی صورت حال یہی ہے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی ایلچی موجودہ مرکزی حکومت کے نظریے کی ترجمانی کر رہے تھے۔ مرکز کی موجودہ حکومت بی جے پی چلا رہی ہے۔ اس کے لیے فلسطینی قضیہ سے دل چسپی کی بہ ظاہر کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ مزید بر آں موجودہ ہندوستانی حکومت کا اسرائیلی حکومت سے بہت گہرا تعلق ہے۔

ماضی میں ہندوستانی حکومت، قضیہ فلسطین کے حوالے ہمیشہ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ ہندوستان اپنی آزادی کے روز اول سے ہی فلسطین کی حمایت کرتا رہا ہے۔ سن 1948 میں، ہندوستان ان تیرہ ممالک میں تنہا غیر عرب ملک تھا، جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں، فلسطین کے اقوام متحدہ کے تقسیم کے منصوبے کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ غیر عرب ممالک میں ہندوستان پہلا ملک ہے جس نے سن 1975 ء میں، فلسطینی عوام کے نمائندے کے طور پر پی ایل او کو تسلیم کیا۔ پھر ہندوستان کے دار الحکومت دہلی میں اسے دفتر کھولنے کو کہا گیا۔ مارچ 1980 میں، اس دفتر کو سفارتی حیثیت دی گئی۔ جب پی ایل او نے مشرقی یروشلم میں اپنے دارالحکومت کے ساتھ فلسطین کی ایک آزاد ریاست کا اعلان کیا؛ تو ہندوستان نے فوراً ہی اسے 18 /نومبر 1988 کو منظور کر لیا۔

فلسطینی رہنما یاسر عرفات ( 1929۔ 2004 ) کے ہندوستانی حکومت سے بہت اچھے روابط تھے۔ جب بھی وہ ہندوستان کے دورے پر آتے ؛ توان کا استقبال اسی طرح کیا جاتا، جیسا کہ کسی ریاست کے سربراہ کا استقبال کیا جاتا ہے۔ یاسر عرفات کی کی سن 2004 میں وفات کے بعد ، فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے محمود عباس نے ان کی جگہ لی۔ یو پی اے کے 2004 سے 2014 تک دس سالہ حکومتی دور میں، انھوں نے ہندوستان کا چار بار دورہ کیا۔ دس سال میں چار دورے، ہندوستان کے فلسطین کے ساتھ گہرے رشتے کو بتاتا ہے۔

بابائے قوم مہاتما گاندھی کی ایک تحریر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس متعدد خطوط آرہے تھے کہ وہ فلسطین میں یہودی اور عرب کے حوالے سے اپنے نظریہ کی وضاحت کریں۔ گاندھی جی نے ان خطوط کے جواب میں، 26 /نومبر 1938 کو اپنے ہفت روزہ انگریزی اخبار ”ہریجن“ میں، عرب کے ساتھ فلسطین کے گہرے رشتے کو واضح کرتے ہوئے تحریر کیا تھا کہ یہودیوں کے لیے ایک علاحدہ ملک کا مسئلہ ان کچھ زیادہ اپیل نہیں کر رہا ہے۔ وہ جہاں پیدا ہوں، اس جگہ کو اپنا ملک اور وطن سمجھیں۔

گاندھی جی لکھتے ہیں : ”دوسرے لوگوں کی طرح ان (یہودیوں ) کو اس ملک کو اپنا وطن کیوں نہیں بنا لینا چاہیے، جہاں وہ پیدا ہوئے اور جہاں وہ اپنی روزی روٹی میں لگے ہیں؟ فلسطین پر عربوں کا حق بالکل اسی طرح ہے، جس طرح انگریزوں کا انگلینڈ پر اور فرانس والوں کا فرانس پر۔ یہودیوں کو عرب پر تھوپنا، غلط اور غیر انسانی عمل ہے۔“

بابائے قوم مہاتما گاندھی کے اس انصاف پر مبنی نظریہ کو ہندوستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں نے کھلے دل سے قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم مسٹر جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، سابق صدر مسٹر پرناب مکھرجی وغیرہم نے ہمیشہ قضیہ فلسطین کی کھل کر حمایت کی۔ مسٹر مکھرجی نے سن 2015 ء میں، اپنے اردن اور فلسطین کے دورے پر گاندھی جی کی اس تحریر کے اقتباسات کو اپنی تقریروں میں کئی بار پیش کیا۔

عالمی برادری میں ہندوستان کی حیثیت مسلم ہے۔ ہندوستان کی سابقہ حکومتوں نے ہمیشہ فلسطین کی آزادی اور حق خود ارادیت کو تسلیم کیا اور اس کی حمایت کی ہے۔ اب فلسطین کا قضیہ بالکل نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ کئی شہروں اور قصبوں کو اسرائیل نے زبردستی قبضہ کر کے اپنے ساتھ انضمام کر لیا ہے۔ فلسطینیوں کو اپنا بسا بسایا گھر چھوڑ کر، نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ تا ہنوز رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ہندوستان کو چاہیے کہ اپنے پرانے موقف پر قائم رہتے ہوئے، ایک عالمی لیڈر کا کردار ادا کرتے ہوئے، فلسطین کے حق میں آواز بلند کرے اور مظلوم فلسطینیوں کو انصاف دلائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments