سوال


اپریل کی ایک سرمئی شام کا وہ وقت جب سورج جامن کے درختوں کے برابر آ چکا تھا۔ علی اور حسن جامن کے ایک بوڑھے درخت سے ٹیک لگائے سامنے سڑک کی جانب دیکھ رہے تھے۔ وقفے وقفے سے کوئی کار یا موٹرسائیکل سڑک سے جب گزرتی تو دھول کے کئی دائرے ہوا میں اپنے پیچھے پیچھے بناتی چلی جاتی۔ سڑک کی دوسری جانب گندم کے کھیت تھے اور دن بھر گندم کے سٹے بھٹی میں پکتے رہے تھے اور اب شام کی ہلکی ہلکی سرد ہوتی ہوا ان کو لوری سنا رہی تھی ابھی کچھ دیر بعد رات ہو جائے گی اور کھیت سو جائے گا مگر اس کے سینے سے چند آوازیں رات بھر آتی رہے گی۔

علی اپنے بائیں دیکھو سورج کسی نوزائیدہ بچے کے گالوں کی مانند معلوم ہو رہا ہے۔ حسن نے اپنی انگلی سورج کی جانب کرتے ہوئے کہا۔ علی نے اپنا چہرہ بائیں جانب موڑا اور دوسرے ہی لمحے اپنی نگاہ سامنے گندم کے کھیتوں کی جانب موڑ لی۔ آج کا دن بھی ختم ہو گیا ایک اور دن۔ جس میں نا جانے کتنے لوگوں نے پہلی سانس لی اور کتنے آخری لے سکے۔ کتنے مسافر منزل پر پہنچے اور کتنے راستہ بھول گئے۔ کتنے خوشحال ہوئے اور کتنے برباد۔

کتنے پیٹ بھر کر کھانا کھا سکے اور کتنے بھوکے رہ گئے۔ کتنے توبہ توڑ گئے اور کتنے دوبارہ کر سکے۔ کتنے پہلی بار غلطی کر بیٹھے اور کس نے آخری غلطی کی۔ کس نے پہلی محبت کی اور کس نے آخری۔ کون راستے میں بیٹھ گیا اور کون چلتا رہا۔ مگر اس سب کے بعد بھی کیا ہے؟ ہاں یہ ”کیا ہے؟“ ہی باقی رہ جانے والا ہے۔ حسن نے آہستہ آہستہ سر کو ہلایا اور ”کیا ہے؟ کیا ہے؟“ کہتے ہوئے خاموش ہو گیا۔ اس نے پھر دھیرے دھیرے بولنا شروع کیا۔ کیا ہے؟ کیا تھا؟ کیا ہوگا؟ یہ سب سوال عجیب ہیں کیوں علی تمہارا کیا خیال ہے۔ سوال عجیب ہوتے ہیں نا۔ علی جس کی خالی آنکھیں سامنے گندم کے کھیتوں پر ٹکی ہوئی تھیں وہاں پر جمی رہی اور اس نے کہنا شروع کیا ہاں، میرے دوست سوال عجیب ہوتے ہیں۔ تم نے صحیح کہا مگر کیا سوال ہوتے بھی ہیں؟

کیا مطلب ہے تمہارا۔ حسن نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

دیکھو حسن مطلب یہ ہے کہ سوال خود کیا ہے۔ یہ ہمارے اندر ہے یا باہر۔ لوگوں کے اندر اس کا وجود ہے یا باہر۔ ہم سے جب کوئی اپنی کم علمی کی بنیاد پر کچھ پوچھتا ہے تو کیا وہ سوال ہوتا ہے یا کچھ اور۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے اس کے ہاں بھی اس کے اشارے موجود ہوں مگر مبہم ہوں۔ وہ صرف ابہام کو دور کرنے کے لیے کچھ پوچھتا ہو مگر کیا وہ ابہام سوال ہوتے ہیں؟

حسن چند لمحے خاموش رہا اور پھر اس نے کہا میرے نزدیک تو سوال نامعلوم سے معلوم کی جانب چلنے کا نام ہے۔ سوال جو ہمارے ذہن میں تحریک کا باعث ہے۔ روح میں حرارت کا موجب ہے۔ علی چونکا اور اس نے کہا روک جاو میرے دوست۔ سوال کا معلوم اور نا معلوم سے کیا تعلق ہے۔

جو ہمارے ادراک میں آ جائے وہ معلوم اور جو نا آ سکے وہ نا معلوم حسن نے آہستہ سے کہا۔

علی نے اپنے بائیں جانب دیکھا جہاں سورج کا آدھا لال گال ہی باقی رہ گیا تھا۔ اس نے کہا حسن اس سورج کو دیکھو اس کے من میں تم کو کوئی سوال نظر آتا ہے؟ سامنے ان کھیتوں کی جانب دیکھو کیا تم کو لگتا ہے ان کے ساتھ سوال ہیں؟ ان جامن کے درختوں کو دیکھو کیا ان کے پاس بھی سوال ہیں؟ اوپر ان پرندوں کو دیکھو کیا ان کے پاس بھی سوال ہیں؟ کیا یہ سب نا معلوم کو معلوم کرنے کی جستجو میں ہیں میرے دوست؟

حسن نے اوپر آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا مجھے تو لگتا ہے کہ ہر کسی کا اپنا اپنا سوال ہے۔ ہر کسی کا ایک نامعلوم ہے جس کو اس نے معلوم کرنا ہوتا ہے۔ ہر کسی کے سوال اس کو معلوم ہیں۔

سامنے سڑک پر ایک کسان اپنے بیل ہانکتے ہوئے لے جا رہا تھا۔ علی نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا میرے دوست سوال خود کیا ہے، یہ بھی شاید ایک سوال ہو۔ معلوم نا معلوم ہے اور نا معلوم بھی ہمیں معلوم ہے بس اندرونی تلاش کی کمی ہے۔ یہ جامن کے درخت، گندم کے کھیت، یہ بیل، میں اور تم، ہم سب کو اپنے اپنے زار معلوم ہیں مگر ہم بتانے سے گھبراتے ہیں۔

درختوں کے مکین واپس آچکے تھے اور کھیت لوری سن رہے تھے وہ دونوں اٹھے اور پگڈنڈی پر چلتے ہوئے کچی سڑک پر آ گئے۔

عاصم علی پنو
Latest posts by عاصم علی پنو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments