ہمارے شعری ذوق کو زوال کیوں آ رہا ہے؟


میر تقی میر کی زندگی کا آخری دور تھا۔ ان کی عظمت کا ستارہ بام عروج پہ پہنچا ہوا تھا۔ معاصرین انہیں ”خدائے سخن“ تسلیم کر چکے تھے۔ دلی آنے والے ان کی غزلیں بطور سوغات ساتھ لے کر جاتے۔ اگر وہ اپنے منہ سے کسی شاعر کے حق میں تعریف کا ایک جملہ بول دیتے تو یہ اس شاعر کے لیے فضل و کمال کی مستند سند اور زندگی بھر کا طرۂ امتیاز بن جاتا۔ ایک دفعہ شیخ مصحفی سے ان کی غزل کا ایک شعر دوبارہ سنانے کی فرمائش کی تو شیخ مصحفی نے اسے اپنے لیے اتنی بڑی سعادت سمجھا کہ اٹھ کر بار بار میر کو سلام کیا اور کہا: ”دیوان چھپے گا تو اس شعر کے بارے میں لکھوں گا کہ حضرت نے دوبارہ سنا تھا۔“

انہی دنوں کی بات ہے کہ میر کے پاس ایک نو عمر لڑکا اپنے اشعار سنانے کے لیے آیا۔ میر نے اشعار سن کر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ”اگر اس لڑکے کو کوئی کامل استاد مل گیا اور اس نے اس کو سیدھے رستے پر ڈال دیا تو لاجواب شاعر بنے گا ورنہ مہمل بکنے لگے گا۔“

اس لڑکے کے متعلق میر کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ پہلے پہل اس نے مہمل اور لا یعنی قسم کی شاعری کی۔ لاحاصل فارسی ترکیبیں اور ثقیل مرکبات جن سے وجود میں آنے والا شعر لفظی طور پر ہی اتنا بوجھل ہوتا کہ مزید کسی معنوی گہرائی یا مقصدیت کے بار گراں کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر اس لڑکے کو سخن شناس زمانہ اور ادب آشنا معاصرین ملے تھے۔ جنہوں نے اس کے کلام پر خوب تنقید کی اور اس کا ٹھٹھا اڑایا۔ پہلے پہل تو اس لڑکے نے یہ کہہ کر ان کی باتوں کو نظر انداز کیا کہ ”گر نہیں ہے مرے اشعار میں معنی نہ سہی“ اور ”خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے“ مگر آخر کار اسے تنقید کا اثر قبول کرنا ہی پڑا۔

اس کا کوئی باضابطہ استاد تو تھا نہیں جس سے اصلاح لیتا، بس زمانے کی طعن و تشنیع نے ہی استاد کا کام دیا۔ وہ اپنی شاعری کی نوک پلک سنوارنے لگا، اپنے کلام کو معائب سخن سے پاک کیا، فصیح اور مستعمل زبان کو شعروں میں استعمال کیا اور بالآخر یہ لڑکا شاعری کے اس منصب تک پہنچا جو قسام ازل نے روز اول ہی سے اس کے لیے خاص کر رکھا تھا۔ جہاں یہ کہا جانے لگا کہ مرزا غالب اردو شاعری کے ابو الآباء ہیں اور وید اور گیتا کے بعد ہندوستان کا تیسرا مقدس صحیفہ ”دیوان غالب“ ہے۔

بہترین ادب ہمیشہ بہترین معاشروں میں پروان چڑھتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں احساس و خیال کی نزاکت، زبان و بیان کی لطافت اور کلام کی فصاحت و بلاغت کو سمجھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں، بارگاہ الہی سے انہیں فطرت سلیمہ میسر آئی ہوتی ہے اور لطیف ادبی ذوق ان کے رگ و ریشہ میں سمایا ہوتا ہے، یہی معاشرہ ادب عالیہ کی تخلیق کے لیے موزوں ٹھہرتا ہے۔

اس کے برعکس جہاں علم کے نام پر پیٹ کے مزدور تیار کیے جا رہے ہوں، ڈگریوں کا طومار سر پر اٹھائے تعلیمی اداروں کے سدھائے ہوئے مشینی پرزوں کا ریوڑ ہنکا چلا جا رہا ہو، بے ہودگی اور بد ذوقی کو دور دورہ ہو اور فطرت اپنی اصل سے 180 ڈگری پر منحرف ہو چکی ہو وہاں صورت حال یہ ہوتی ہے کہ کبھی تو ”کوئی عروج دے نہ زوال دے“ جیسی عامیانہ نظم اقبال کا شاہکار کلام سمجھ لی جاتی ہے، کبھی ”تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا“ کا معروف مصرع اساتذۂ ادب اور بیت بازی کے ”کمنٹیٹر“ کی نظر میں بے وزن اور بے معنی ٹھہرتا ہے اور کبھی نصابی کتاب میں ”جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی“ میں ”دہقان“ کو ”دھقاں“ اور ”کاخ امراء“ کو ”خاک امراء“ لکھ دیا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مغرب جب عروج کے آخری نکتے کو چھو رہا تھا تب بھی آس کی سب سے مشہور اور معروف ادبی صنف ڈرامہ تھا جس میں ظاہر پسندی اور مادہ پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ یہ ان کے ادب عالیہ کا ترجمان اور ان کے تہذیبی مزاج کا عکاس تھا۔ اس کے برعکس زوال کی آخری سرحد پر کھڑے ہو کر بھی ہمارا سرمایۂ افتخار غزل تھی۔ جس کی لفظی نزاکت، باطنی لطافت، معنوی گہرائی اور فکری گیرائی کا کوئی جواب نہیں ہو سکتا۔

لیکن آج شاید ہم اس آخری سرحد کے بھی اس پار کھڑے ہیں کہ غزل کے نام پر ایسے ایسے ہفوات بکے جا رہے ہیں اور انہیں داد بھی دی جا رہی ہے کہ بے اختیار منہ سے نکل جاتا ہے : ”یار! یہ کیا ڈرامہ ہے؟“

ذرا اپنے گرد و پیش کی معروف ”ادبی دنیا“ پر نظر تو دوڑائیے۔ کیا کیا گل کھلائے جا رہے ہیں؟ کہیں غزل کو نظم میں مکس کر کے ”غزم“ نامی نئی شعری صنف متعارف کروائی جا رہی ہے، کہیں ”ولدیت کے خانے“ میں ”فلاں بن تجربہ“ لکھنے کی خواہش ظاہر کی جا رہی ہے اور کہیں ”کچھ نیا کاٹنے“ کی دھن میں شب غم کے ساتھ ساتھ اردو عروض اور روایتی بحروں کے گلے کو بھی کاٹا جا رہا ہے۔

حد یہ ہے ریختہ جیسے اردو کے عالمی ادبی فورم پر ایک ایسے شخص کو مسلسل چالیس منٹ تک ہرزہ سرائی کا موقع دیا جا رہا ہے جس کی کل شاعری کا لباب یہ ہے :

بات بھی کیجیے، دیکھ بھی لیجیے
دیکھ بھی لیجیے، بات بھی کیجیے

ہمارے شعری ذوق کے زوال کا ایک بہت بڑا مظہر ہماری دینی نظمیں (حمد، نعت، منقبت، نوحہ اور اصلاحی کلام وغیرہ) بھی ہیں۔ کنفرم جنتی، لعنتی، یہ ہماری عبادت ہو رہی ہے اور عید کے ششکے وغیرہ تو اس زوال کی مکروہ ترین شکلیں ہیں لیکن اس سے ہٹ کر اگر ہم دیگر نعتوں اور نظموں پر غور کریں تو وہ بھی شاعری کے اس معیار کو نہیں پہنچتیں جو برصغیر اور اردو زبان کا خاصہ رہا ہے۔ مثلاً ایک معاصر شاعر اور نعت خواں کی نعت کا یہ شعر ملاحظہ ہو:

میں وہ گھر دیکھ آیا ہوں جہاں سلطان رہتے ہیں
جہاں بخشش شفاعت کا مری سامان رہتے ہیں

”سامان رہتے ہیں“ کا جملہ کتنا بھدا، بے ہودہ اور موضوع کے تقدس کے منافی ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے سونے کی انگوٹھی میں نگینے کی جگہ گندی مٹی کا ڈھیلا جڑ دیا ہو۔

اس طرح کی بے ہودہ تک بندیوں کو سن کر یہ باور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آج سے چند دہائیاں قبل اسی علاقے میں، اسی زبان میں، انہی موضوعات پر انیس، حالی، اقبال، بہزاد لکھنوی، ظفر علی خان، شورش کاشمیری، اقبال عظیم، مظفر وارثی اور ماہر القادری بہترین ادب تخلیق کر چکے ہیں۔ ناصر کاظمی کیا ہی بروقت یاد آئے۔ کہتے ہیں :

میٹھے تھے جن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی

مگر واویلا مچانے کا فائدہ کیا ہے؟ ہم ان لوگوں سے یہ توقع لگا کر بیٹھے ہیں کہ وہ اردو زبان میں بہترین ادب تخلیق کریں گے اور شاعری میں عمدہ اور گھٹیا کی تمیز کر پائیں گے جنہوں نے سرے اردو پڑھی ہی نہیں۔ جن کے ملک کی سرکاری زبان ہی ایک غیر ملکی لغت ہے۔ جنہوں نے نصاب تعلیم، آئین، عدالتی فیصلے، سائنسی و علمی مضامین، معاشرتی اور ریاضیاتی علوم الغرض زندگی کے تمام تر مظاہر اور دنیا کی ہر ہر رنگ کو انگریزی کی چادر اوڑھے دیکھا ہے اور فارسی اور عربی تو ایک طرف رہیں اپنی مادری زبانوں تک سے ناواقف ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ اردو شاعری کو وفات پائے کافی وقت بیت چکا ہے۔ ہم اپنے شعری ذوق کا جنازہ نکالنے کے بعد اس کی تجہیز و تکفین سے بھی فارغ ہو چکے ہیں۔ فیصل آباد کی مٹی کو صرف یہی فخر حاصل نہیں کہ وہاں نصرت فتح علی خان جیسا گنج ہائے گراں مایہ مدفون ہے بلکہ مرحومہ اردو غزل گوئی کا جسد لفظی و معنوی بھی وہیں محو استراحت ہے اور اس کے مزار کے کتبے پر یہ حروف جلی رسم الخط میں کندہ ہیں :

کس نے جینز کری ممنوع
پہنو اچھی لگتی ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments