کووڈ ویکسین، افواہیں، مشاہدات، تجربہ


دنیا میں جب سے کرونا کی ویکسین کا آغاز ہوا ہے، تب سے وطن عزیز میں اس کے متعلق نت نئی افواہوں اور خدشات کا سلسلہ شد و مد سے جاری ہے۔ روزانہ ایک نئی نویلی افواہ جنگل کی آگ کی مانند سوشل میڈیا پر پھیل جاتی ہے۔ فقط دوا پر ہی کیا موقوف، جب سے کووڈ 19 کی وبا پھیلی تو اسے بھی عالمی سازش قرار دے کر احتیاط کرنا تو درکنار، بیماری کے وجود کو ہی کفار کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔ کہ یہ بیماری تو حرام جانور کھانے سے ہوتی ہے (حرام کی کمائی کے متعلق کیا خیال ہے یہ نہیں بتایا گیا) ۔ ہم کہ ٹھہرے پیدائشی مسلمان، ہمیں تو یہ چھو کر بھی نا گزرے گی۔

اس بات میں ہمارے شوہر نامدار کی کئی قریبی دوستوں سے اچھی خاصی جھڑپ بھی ہوئی۔ یہ تو ہم بیویاں سمجھدار واقع ہوئی ہیں جو فوری صلح صفائی کرا کے معاملہ رفع دفع کرا دیتی تھیں ورنہ بات تلخ کلامی سے شروع ہو کر قطع تعلقی تک بھی پہنچ سکتی تھی۔ (شکریہ پیاری بھابھیو) ۔

ہم فضول بحث میں مشغول رہے اور وہ ”ناہنجار کفار“ اس بیماری کے تہہ تک پہنچنے کے لئے دن رات کا فرق مٹائے تحقیق میں مگن رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اس کی دوا بنانے میں کامیاب ہوئے اور ہمارے لئے ”گپ بازی“ کا نیا شغل جاری ہوا۔ ہم وہ جو کاغذوں کی حد تک اس بیماری کی ٹیسٹ کٹ تیار کر چکے تھے اب نئے ڈراموں میں مصروف ہو گئے۔

کرونا ویکسین میں مائیکرو چپ لگی ہے، جو آپ کی ساری معلومات بل گیٹس کو فراہم کرے گی۔ (نا ہم کوئی سائنس دان ہیں جو ہماری جاسوسی سے اسے نئے فارمولے حاصل ہو جائیں گے )

کرونا ویکسین لگوائیں گے تو اور بچے پیدا نہیں کر سکیں گے۔ (پہلے تو بڑے آئن سٹائن پیدا کر لئے ہیں )
کرونا ویکسین جہاں لگتی ہے وہاں مقناطیس لگا کے دیکھیں چپک جاتا ہے (تو کیا ہوا؟ )

رب راضی ہو اس نیک روح سے جس نے کرونا ویکسین لگی جگہ سے بلب جلا کر دکھایا، ہماری تو مانو دنیا روشن ہو گئی۔ ایک کی کرامت سے بلب روشن ہوا اگر گھر کے چار چھ افراد ویکسین لگوا لیں تو ہو سکتا ہے اے سی بھی چل پڑے۔ آگے گرمیاں ”شدید“ ہوں گی اور لوڈ شیڈنگ ”شدید تر“ بجلی کا مسئلہ حل سمجھیں۔ (بائے بائے واپڈا)

کرونا ویکسین لگوائیں اور دو سال بعد زندگی سے نجات پائیں۔ (یہ آفر محدود مدت کے لئے ہے، جب تک کوئی نئی اور تگڑی افواہ نہیں اڑتی)

آپ ویکسین لگوائیں تو آپ کی آواز، شکل، رنگت، کسی بھی چیز میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ (اور ہم اسی پہ خوش کہ ممکن ہے کھوئے ہوئے سر واپس مل جائیں )

خدا گواہ جب سے نئے پاکستان میں ویکسین کا عمل شروع ہوا، ہم نے اسی دن سے اپنی باری کا انتظار شروع کر دیا۔ ایک تو ہمیں یہ جلدی کہ جلدی سے یہاں سے جانے کی راہ نکلے اور دوسرا یہ بھی کہ اس ماسک اور سینی ٹائزر کے جھنجھٹ سے مکتی ملے۔

سسر جی ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں ”وڈے ڈاکٹر“ ہیں، سب سے پہلے فرد وہی تھے (ہمارے سرکل میں ) جن کو ویکسین لگی۔ اللہ کا کرم رہا یہ مرحلہ خیریت سے گزرا۔ معمولی سا بخار ہوا جسے ہم دیہاتی زیادہ لفٹ نہیں کراتے۔

امی، ابو کی ویکسین ہوئی، ہم پورا رمضان دعا کرتے رہے کہ اللہ جی اب اور کسی غم کو سہنے کا حوصلہ نہیں، سب خیریت رکھنا۔ دوسری ڈوز لگی اور اس کے بعد وہ ہم سے ملنے آئے، سب کشل منگل تھا۔

سولہ مئی سے تیس سے چالیس کی رجسٹریشن شروع ہوئی اور رات بارہ بج کر ایک منٹ پہ ہم دونوں میاں بیوی رجسٹر ہو چکے تھے۔ چوبیس مئی کو ڈرتے ڈرتے پہلی ڈوز لگوائی (ڈر ہمیں انجیکشن سے لگتا ہے، پھر چاہے وہ کوئی سا بھی ہو) ۔ ہلکا سا درد ہوا، دو منٹ میں ہم دونوں کی ویکسین ہو گئی۔ سلام اس بی بی کو جس نے ہمیں سنبھلنے، ڈرنے، رونے کا موقع فراہم نا کیا۔

آج دوسرا دن ہے ابھی تلک سب خیریت ہے، اور ان سب کی خیریت بھی نیک مطلوب ہے جو پہلی ڈوز لگوا چکے ہیں۔ ہمارے جاننے والوں میں سے کسی کے بازو پہ نا تو مقناطیس چپک رہا ہے، نا ہی بلب روشن ہوا ہے۔ (ہائے ہمارے ٹوٹے خواب)

ہمارے بیٹے کا مشورہ تھا کہ مما ان سے ایک ویکسین ”مانگ“ کے لے آنا میں اس سے کوئی تجربہ کروں گا۔ (انکل جیمز کاش آپ پاکستان آ کر دیکھ سکتے کہ آپ کی پیشگوئی کتنی جلدی درست ثابت ہو رہی ہے، آپ کا ہونہار شاگرد اب ویکسین سے تجربے کرنے کے درپے ہے۔ )

ہمارا مشاہدہ، تجربہ، مشورہ تو یہی ہے کہ آپ سب بھی جتنی جلدی ممکن ہو ویکسین کرا لیں۔ یہ ویکسین کوئی ڈیڑھ برس کے عرصے کی تحقیق کے بعد وجود میں آئی ہے۔ ہزاروں علم والوں کے علم کا نچوڑ ہے۔ اپنا نہیں تو ہم غریبوں کا خیال کر لیں جو اپنی یونیورسٹی واپس جانے کو بے تاب ہیں۔ موت کا ایک دن مقرر ہے، اس ”رجسٹر“ پہ جو لکھا ہے وہ انمٹ ہے۔ بقول میرے سرتاج جب مرنا ہی ہے تو کیوں نا اس طرف ہو کہ مریں جس طرف ”علم والے“ کھڑے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments