ایتھوپیا کے ابودجانہ کی کہانی



”اس ایتھوپین اتھلیٹ سے بچ کے رہنا ذرا، اس گروپ میں یہی تمہارے لیے خطرہ بن سکتا ہے“

میرے مینیجر نے دھیرے سے میرے کان میں سرگوشی کی تو میں نے بائیں طرف دوڑنے کے لیے تیار کھڑے اس سوکھے اور لاغر سے اتھلیٹ پر ایک بھرپور نظر ڈالی اور ”ہوں“ کہہ کر باقی اتھلیٹس کا بغور جائزہ لینے لگ گیا، وہ سب مختلف ملکوں سے آئے ہوئے تھے اور سب کی آنکھوں میں جیت کی چمک اور بھوک دور سے ہی نظر آ رہی تھی۔

اور پھر سگنل ملتے ہی ہم نے دوڑ لگادی اور ایک دوسرے سے آگے پیچھے نکلتے ہوئے آخر میں صرف میں اور ابودجانہ ہی رہ گئے، ابودجانہ کے دوڑنے سے لگ رہا تھا کہ وہ کسی بھی صورت ہار قبول نہیں کرے گا لیکن میں بھی گزشتہ آٹھ ماہ سے اس دوڑ کے لیے انتہائی سخت تیاریوں کے مراحل سے گزر چکا تھا اور ابودجانہ کو مجھ سے جیتنا بہت مشکل تھا اور چوتھے چکر میں ابودجانہ کو اس بات کا بخوبی احساس ہو چکا تھا کہ وہ مجھ سے کسی صورت بھی جیت نہ سکے گا اس لیے اب وہ غصے میں نظر آ رہا تھا اور کسی بھی اسپورٹس مین کے لیے یہ بات ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اور یہی ہو رہا تھا، وہ اچانک دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور آنکھوں میں غصہ اور نفرت بھر کر دانت پیستے ہوئے چلایا

”پیچھے۔ پیچھے۔ پیچھے ہٹ جاؤ۔ مجھے یہ مقابلہ جیتنا ہے“
میں نے ہانپتے ہوئے ابودجانہ کو حیرت سے دیکھا اور مسکرا کر کہا
”کس نے روکا ہے تمہیں؟ بھاگو اور نکل جاؤ آگے“
اس نے پھر اسی انداز میں چلا کر کہا
”تم مت بھاگو۔ مت بھاگو“

میں اس کے مطالبے میں شدت دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کیونکہ آج تک میرے ساتھ کبھی ایسا نہ ہوا تھا بلکہ کھیلوں کی تاریخ میں کوئی اسپورٹس مین ایسا رویہ اپناتا نہ دیکھا گیا تھا، یہ عالمی مقابلوں میں قواعد و ضوابط کی بھی سخت خلاف ورزی تھی اور اگر میں ابودجانہ کے اس رویے کی شکایت کر دیتا تو اس پر پابندی بھی لگ سکتی تھی اور جرمانہ بھی ہو سکتا تھا لیکن میں نے اسے نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک دم پوری طاقت لگا کر ابودجانہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے تیزی سے آگے نکل گیا اور تب پیچھے سے میں نے ابودجانہ کے منہ سے غلیظ گالیوں کی ایک بوچھاڑ آتے ہوئے سنی مگر وہ نہ اسے جواب دینے کا وقت تھا اور نہ ہی رکنے کا، بس، آگے اور آگے بڑھنے کا وقت تھا اور پھر میں ابودجانہ سے دس منٹ پہلے مقررہ لائن کو کراس کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

تھوڑی دیر بعد تقسیم انعامات کا مرحلہ آن پہنچا، میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا، شاید میری نظریں ابودجانہ کو تلاش کر رہی تھیں کہ ایک لمبا تڑنگا ایتھوپین میرے پاس آیا اور کہنے لگا

”تمہیں جیت مبارک ہو، تم بہت اچھا دوڑتے ہو، کمال اسٹیمنا ہے تمہارا، لگتا ہے خوب محنت کی ہے تم نے“
میں نے مسکرا کر اس کا شکریہ ادا کیا تو وہ کہنے لگا
”میں ابودجانہ کا مینیجر ہوں“
میں نے ہنستے ہوئے اسے کہا
”ابودجانہ کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دیں تھوڑی۔ وہ مجھے پوری دوڑ کے دوران برا بھلا کہتا رہا ہے“

میں اسی لیے تمہارے پاس آیا ہوں، میں دیکھ رہا تھا کہ ابودجانہ سخت غصے میں بار بار تمہارے انتہائی نزدیک ہو رہا تھا جو کہ غیرمعمولی بات تھی، میں اسے سمجھاؤں گا، اسے معاف کر دینا وہ اپنے بیٹے کی وجہ سے بہت ڈسٹرب ہے ان دنوں ”

بیٹے کی وجہ سے۔ ؟ میں نے اس کے مینیجر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
”کیا ہوا اس کے بیٹے کو؟

اس کے بیٹے کو کینسر ہے، جس کا علاج بہت مہنگا ہے اور ابودجانہ یہ دوڑ جیت کر اس رقم سے اس کا علاج کرنے کی سوچ رہا تھا لیکن خدا کو شاید کچھ اور ہی منظور ہوگا کہ اس کی ٹکر تم جیسے اتھلیٹ سے ہو گئے ورنہ باقیوں کو تو وہ منٹوں میں ہرا دیتا ”

یہ کہہ کر اس کے مینیجر نے ایک بار پھر ابودجانہ کے رویے کی مجھ سے معافی مانگی اور چل پڑا۔
اچانک جیسے مجھے کچھ یاد آ گیا ہو میں نے اس کے مینیجر کو آواز دی اور دھیرے سے کہا
”تم اپنی اور میری بات چیت کا ذکر کسی سے نہ کرنا، ابودجانہ سے تو ہرگز نہیں“
کیوں۔ ؟ اس نے الجھے ہوئے انداز میں کہا
ؓبس وعدہ کرو کہ یہ بات چیت ہمارے ہم دونوں تک ہی محدود رہے گی؟
اس نے حیرت زدہ سے انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہا
”ٹھیک ہے میں کسی سے کچھ نہ کہوں گا“

جیسے ہی وہ آگے بڑھا سٹیج سے میرا نام پکارا گیا، تالیوں کی گونج میں ایک ٹرافی اور پانچ لاکھ ڈالرز کا ایک چیک مجھے پکڑایا گیا تو میں نے اسٹیج پر کھڑے ایونٹ کے میزبان سے مائیک لیا اور کہا

”خواتین و حضرات! میں یہ مقابلہ تو جیسے تیسے جیت گیا ہوں لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ آج کی جیت کا اصل حقدار میرا ایتھوپین دوست ابودجانہ ہے، میری شاید قسمت اچھی تھی جو میں فاتح ٹھہرا لیکن دیکھا جائے تو یہ ٹرافی اور انعامی رقم ابودجانہ کو ملنی چاہیے، کم ازکم میری ذاتی رائے یہی ہے کہ ابودجانہ ایک بے مثال اتھلیٹ ہے اس لیے میں یہ انعام میں ملنے والے پانچ لاکھ ڈالرز ابودجانہ کو دینے کا اعلان کرتا ہوں اور مجھے امید کہ میرا دوست اس رقم کو لینے سے انکار کر کے میرا دل نہیں توڑے گا“

اور پھر تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد ابودجانہ نے وہ رقم لے لی، رقم لیتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔

تقریب ختم ہوئی تو سب اتھلیٹس اپنے اپنے ہوٹلوں میں چلے گئے، میں بھی آ کر اپنا سامان پیک کر رہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی،

”یس کم ان“
میں نے آواز لگائی

اندر آنے والا ابودجانہ کا وہی مینیجر تھا اور اس نے اندر داخل ہوتے ہی مجھے گلے سے لگا لیا اور جذبات بھری آواز میں بولا

”تم اتھلیٹ ہی نہیں انسان بھی بہت عظیم ہو“
میں نے ہنستے ہوئے کہا
” تم بھی عظیم انسان بن سکتے ہو“
کیسے۔ ؟ اس نے گالوں پر آئے آنسو پونچھتے ہوئے کہا
”اپنا وعدہ پورا کر کے“
اس نے زور سے قہقہہ لگایا اور کہا
”یہ راز اس عظیم ایتھوپین کے سینے میں ہمیشہ دفن رہے گا“
اور پھر ہم دونوں نے ایک زوردار قہقہہ لگا کر ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ دیا۔

وطن واپس آ کر میں اپنے بزنس، جم، گھریلو مصروفیات اور دیگر معاملات میں ایسا الجھا کہ کسی بات کی خبر نہ رہی اور پھر ایک عالمی مقابلے کے لیے میں برازیل پہنچ گیا۔ تیسرے روز اچانک اپنے رہائشی ہوٹل کی لابی میں مجھے ابودجانہ کا وہی مینیجر مل گیا، ہم دونوں بڑی گرم جوشی سے بغلگیر ہو گئے اور الگ ہوتے ہی میں نے اس سے ابودجانہ کے بیٹے کے بارے پوچھا تو وہ ایک دم غمزدہ سا ہو گیا اور کہنے لگا

”وہ بچ نہ سکا تھا، ڈاکٹرز کہتے تھے کہ آپ لوگوں نے اسے امریکہ علاج کے لیے لانے میں بہت دیر کردی ہے لیکن پھر بھی آپریشن کیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکا تھا، اب ابودجانہ نے خدمت خلق کا بیڑا اٹھالیا ہے وہ ایتھوپین بچوں کے علاج کے لیے پورے ملک میں جدید ہسپتال بنوا رہا ہے، بس یہی اس کی زندگی کا واحد مقصد ہے کہ کسی بچے کا غربت کی وجہ سے رہ نہ جائے،

تم نے اس راز کی حفاظت کے وعدے پر ابھی تک قائم ہو یا؟
نہیں نہیں۔ اس نے تیزی سے کہا ”
وہ راز آج بھی میرے سینے میں دفن ہے اور ہمیشہ دفن رہے گا ”
بہت اچھی بات ہے ”۔ میں نے کہا اور پھر ادھر ادھر کی چند باتوں کے بعد ہم دونوں اپنی اپنی راہ ہو لیے۔

اگلے روز دوڑ کے وقت مجھے ابودجانہ اپنے دائیں طرف چھٹے نمبر پر کھڑا نظر آیا اور جیسے ہی دوڑ کا آغاز ہوا ابودجانہ بجلی کے کسی کوندے کی طرح لپکا اور سب کو پیچھے ہوا آگے نکلتا چلا گیا، میں نے دو تین بار اس سے آگے نکلنے کے لیے بھرپور کوشش کی لیکن ابودجانہ نے میری ہر کوشش ناکام بنا دی اور وہ ہم سب کو پیچھے چھوڑتا ہوا وکٹری سٹینڈ تک نہایت آسانی سے پہنچ گیا۔ اول آنے پر

ٹرافی اور دس لاکھ ڈالر کی انعامی رقم لیتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک اور نمی تھی اور صرف میں جانتا تھا کہ ایک بیٹا ہارنے والا ابودجانہ اپنے ملک کے ہزاروں بیٹوں اور بیٹیوں کو کسی صورت بھی ہارنا افورڈ نہ کر سکتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments