افتخار چوہدری کا جلسہ اور خدائی مددگار


سال تھا 2007 اور مہینہ شاید اپریل یا مئی کا تھا، ٹھیک سے یاد نہیں، لیکن اتنا یاد ہے کہ اس رات کو تو موسم قدرے خوشگوار تھا لیکن دن میں اچھی خاصی گرمی تھی۔ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو غالباً 4 بجے سہ پہر لاہور ہائیکورٹ خطاب کے لیے پہنچنا تھا۔ لاہور بار کے وکلا نے سول کورٹ کے قریب لوئیر مال پر پوسٹ ماسٹر جنرل چوک میں سٹیج سجا رکھا تھا جہاں ہائیکورٹ کی طرف بڑھنے سے پہلے افتخار چوہدری کا مختصر خطاب متوقع تھا۔ (معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری 4 مئی 2007 کو اسلام آباد سے روانہ ہوئے اور 5 مئی 2007 کو لاہور پہنچے تھے – مدیر)

دن بھر نجانے کتنے پیدل چکر سول کورٹ سے ہائیکورٹ کے لگے یاد نہیں۔ مال روڈ پر وکلا، طلبا تنظیموں اور سیاسی ورکروں کا قبضہ تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے گیٹ پر جمعیت کے سٹال سے ترانے گونج رہے تھے۔ اس سے آگے انارکلی کے قریب تاجروں کے زیراہتمام سٹالز پر پانی پلائے جانے کا بندوبست تھا۔ ہائیکورٹ کے باہر جی پی او چوک میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رنگ برنگے سٹیج سجے ہوئے تھے۔ ہر طرف ایک گہما گہمی تھی اور ایک عید کا سماں تھا۔

ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈال ڈال اور نعرے لگا لگا کر چار بجائے لیکن افتخار چوہدری کی آمد کا کوئی نشان نہ تھا۔ ایسے ہی چار سے آٹھ بجے اور آٹھ سے بارہ لیکن افتخار چوہدری جن کی گاڑی غالباً زمرد خان یا اعتزاز احسن ڈرائیو کر رہے تھے بمشکل جہلم پہنچ پائے۔ پوسٹ ماسٹر جنرل چوک سڑک پر موجود جیسے جیسے رات بڑھتی گئی ویسے ویسے ہی نیند اور تھکاوٹ بھی حاوی ہوتے گئے۔

رات کھلی آنکھوں صبح میں بدلی، گرمی بڑھنے لگی اور پھر کہیں 11 بجے کے قریب خبر ملی کہ داتا دربار لاہور میں افتخار چوہدری کی دستار بندی کی جا رہی ہے یا پھر شاید انھیں چادر عنایت کی جا رہی ہے (ٹھیک سے یاد نہیں )۔ یہ خبر سننا تھی کہ کالے کوٹوں کے اندر تھکاوٹ سے نڈھال جسموں اور نیند سے بوجھل آنکھوں نے ایک بار پھر انگڑائی لی، اپنی بچی کھچی توانائیاں یکجا کیں اور بھرپور استقبال کے لیے ہم ایک بار پھر تیار ہو گئے۔

دور سے آتا ہوا ریلا قریب آیا اور پی ایم جی چوک میں سجے سٹیج کو نظر انداز کرتے ہوئے اپر مال کی جانب مڑا۔ ہم بھی افتخار چوہدری کی گاڑی کے پیچھے ریلے کے ساتھ ہولیے۔ گرمی اور تھکاوٹ توقع سے زیادہ بڑھ چکے تھے۔ بس ایک اطمینان تھا کہ اس ”نیک کاز“ کا ساتھ نبھایا ہے اور بس یہ سب اب ختم ہونے کو ہے اور پھر گھر پہنچ کر خوب آرام کروں گا۔ پنجاب یونیورسٹی کے سامنے کریکر پھوڑے گئے اور سپیکروں سے بار بار اعلان سنائی دیا کہ ناظم اعلیٰ نے معزول چیف جسٹس کو شمشیر عدل پیش کی ہے۔

راستے میں لگے سٹالوں اور سٹیجوں سے ہوتے آخر یہ ریلا ہائیکورٹ پہنچا۔ وہاں بھی سٹیج تو خوب سجا تھا، حاضر سروس جج بھی موجود تھے لیکن سخت دھوپ سے بچاو کے لیے سروں پر کسی سائبان کا بندوبست نہ تھا۔ گرمی اور پسینے میں کھڑے کھڑے نہ ختم ہونے والی تقاریر سن کر جیسے تیسے واپس سول کورٹ پہنچا جہاں بیسمنٹ کی پارکنگ میں میری موٹر سائکل کھڑی تھی۔

بس اب فوری گھر پہنچ کر لمبی تان کر سونے کا ارادہ تھا۔ موٹر سائکل کو چابی لگا جیسے ہی سوار ہوا تو پتا چلا کہ موٹر سائکل کا ٹائر پنکچر تھا۔ اب تو جیسے ہوش ہی اڑ گئے، ہمت جواب دے گئی۔ موٹر سائیکل کو کھینچ کر باہر لایا۔ ایک تو اتوار کا دن تھا دوسرا جلوس کی وجہ سے دور دور تک کسی پنکچر لگانے والے کا نام و نشان نہ تھا۔ سول کورٹ جس کے ارد گرد ہر وقت گہما گہمی رہتی ہے وہاں ایک پرسرار سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔

کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے کہ اچانک تصویر میں نظر آنے والے صاحب نظر آئے۔ تقریباً بھاگتے ہوئے میرے قریب آئے اور آتے ہی مدد کی پیشکش کی۔ انھیں کئی بار سول کورٹ میں دیکھ رکھا تھا۔ اتنا تو معلوم تھا کہ منشی نہیں ہیں لیکن یہ کرتے کیا ہیں اور چھٹی کے دن وہاں کیوں موجود تھے، کچھ معلوم نہیں۔ وہ جو بھی کرتے ہوں سچی بات ہے کہ مجھے تو اس دن ایک فرشتہ ہی لگے تھے۔ فوری کچھ پیسے اور موٹر سائکل ان کے حوالے کیے اور سول کورٹ کے احاطے میں آ گیا، جہاں مکمل ’ویرانی‘ تھی۔

بار روم تو بند تھا۔ ایک زنجیر زدن کرسی جس کے اوپر چھٹی کے دن بھی پنکھا پوری رفتار سے چل رہا تھا پر بیٹھ کر ان صاحب کا انتظار کرنے لگا۔ جب خاصا وقت گزر گیا اور یہ صاحب واپس نہ آئے تو احساس ہوا کہ یہ میں نے کیا کیا۔ میں تو اسے جانتا تک نہیں تھا اور موٹر سائکل اس کے حوالے کر دیا۔ تھکاوٹ اور نیند کی پریشانی پہلے کیا کم تھی کہ اب موٹر سائکل کھو دینے کا رنج بھی شامل ہو گیا تھا۔ میں پریشانی اور تذبذب کے عالم میں باہر سڑک پر آ گیا۔

اب ظاہر ہے کہ ان صاحب کے واپس آنے کی امید تو ویسے ہی دم توڑ چکی تھی۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ موٹر سائیکل کا انتظار کیا جائے یا گھر پہنچنے کا کوئی اور طریقہ اختیار کیا جائے۔ ابھی سڑک پر کھڑے کچھ منٹ ہی گزرے تھے کہ دور سے مجھے باہر کھڑا دیکھ کر وہ صاحب موٹر سائکل پر سوار ہارن بجاتے ہوئے میری طرف بڑھ رہے تھے۔ ان صاحب کو پنکچر لگی موٹر سائکل پر سوار آتے دیکھ کر میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ ان صاحب نے آتے ہی بتایا کہ بہت دور سے پنکچر لگوا کر لانا پڑا تھا۔ وہ ایسی گرمی میں موٹر سائکل گھسیٹ کر کہیں دور سے پنکچر لگوا کر لانے اور میری مدد کرنے پر بہت خوش نظر آرہے تھے۔ میرے لیے تو یہ واقعی اس دن ایک فرشتہ ثابت ہوئے۔

کچھ دن پہلے ایک وکیل دوست نے ان کی تصویر فیس بک پر لگائی تو یہ سارا واقعہ یاد آ گیا اور ساتھ ہی یہ بھی احساس ہوا کہ ایسے کئی کریکٹر عدالتوں، کچہریوں میں نظر آتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگیاں وکیلوں کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔ ان کی قدر کی جانی چاہیے۔

نوٹ: جن صاحب کے متعلق یہ مضمون ہے ان کی تصویر بھی اس تحریر کے ساتھ منسلک کی جا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments