شادی چاہے پہلی ہو یا دوسری شریعت کو مت بھولیں


کچھ روز قبل دوسری شادی پر لکھی گئی تحریر پر جہاں بہت سے لوگ میری رائے سے متفق ہوئے وہی بہت لوگوں نے کئی اعتراضات بھی اٹھائے، کچھ کو لگا کہ میں نے یک طرفہ صرف مرد حضرات کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایک فیمنیسٹ کی حیثیت سے تحریر لکھی۔ آج اس تحریر سے جڑی ایک اور تحریر کا مقصد ان تمام غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ یہ وہ موضوع ہے جس پر قسط وار تحریریں لکھی جا سکتی ہیں کیونکہ اس کے صحیح کو غلط اور غلط سے صحیح ہونے والی تمام تر وجوہات پر ہمارے معاشرے اور اس کے غلاموں کا بہت اہم کردار ہے۔ غلاموں کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ ان کی اپنی کوئی سوچ فکر اور ذاتی معیارات اور اقدار نہیں ہوتے۔ اور لوگ کیا کہیں گے جیسی دقیانوسی سوچ سے لوگوں کی زندگیاں حرام کرنا ان کا نصب العین ہوتا ہے۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ مجھے دوسری تیسری یا چوتھی شادی سے کوئی اعتراض نہیں لیکن جس سوچ اور نیت سے کی جاتی ہیں اس سے اختلاف ہے۔

https://populationstat.com/pakistan/

ورلڈ پاپولیشن سٹیٹ (ورلڈ سٹیٹیکل ڈیٹا) کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 22 کروڑ 47 لاکھ 37 ہزار 6 سو 14 ہے جس میں مردوں کی تعداد 11 کروڑ 56 لاکھ 47 ہزار 4 سو 74 ہے جبکہ خواتین کی تعداد 10 کروڑ 90 لاکھ 90 ہزار 1 سو 39 ہے۔ کچھ پرانے اعداد و شمار کے مطابق بیواؤں کی شرح تقریباً 40۔ 5 %، طلاق یافتہ کی شرح تقریباً 34۔ 0 %، شادی شدہ تقریباً 04۔ 63 % اور کنواری لڑکیوں کی شرح 22۔ 31 % ہے۔ اب انہیں موجودہ حالات کے تناسب میں دیکھیں تو کافی حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔

یہی اعداد و شمار آپ کو پاکستان بیورو آف سٹیٹیسٹیکس میں بھی مل جائیں گے جس میں آبادی کا تناسب ملتا جلتا ہی ہے۔ ان اعداد و شمار کو لکھنے کا مقصد ایک تو اس مہنگائی کے دور میں ہماری بڑھتی ہوئی آبادی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے خیر یہ موضوع بھی الگ سے زیربحث لائیں گے لیکن اس سے پہلے وہ حضرات جن کے مطابق خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے تو لہذا دوسری شادی کی اجازت اس لیے بھی ہونی چاہیے تاکہ اس بڑھتی ہوئی شرح کے مطابق خواتین کے لئے رشتے میسر ہو سکیں۔ تو جناب یہ تو آپ کی مردم شماری ایک قدم آگے چل رہی ہے یا پھر ان اداروں کو لوگوں نے اپنے ہاں بیٹی کی پیدائش ہونے کی خبر دینا چھوڑ دی ہے کوئی تو ایک وجہ ہوگی نہیں تو پھر کوئی ٹھوس دلیل دے کر واضح کریں کہ خواتین کی شرح کیسے زیادہ ہے، واضح رہے صرف پاکستان کی بات کی جا رہی ہے پوری دنیا کی نہیں۔

اب آتے ہیں دوسری شادی کی حمایت کرنے والوں کی طرف، چند وجوہات کی بنا پر میں خود بھی اس کے حق میں ہوں لیکن بات پھر وہی ہے کہ آپ کی سوچ اور نیت صاف ہونی چاہیے۔

سورۂ نساء
آیت: 3

وانۡ خفۡتمۡ الا تقۡسطوا فی ٱلۡیتٰمىٰ فٱنکحوا ما طاب لکم من ٱلنسآء مثۡنىٰ وثلٰث وربٰعۖ فانۡ خفۡتمۡ الا تعۡدلوا فوٰحدةً اوۡ ما ملکتۡ ایۡمٰنکمۡۚ ذٰلک ادۡنىٰٓ الا تعولوا

اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی* یہ زیادہ قریب ہے، کہ (ایسا کرنے سے نا انصافی اور) ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ۔

* اس کی تفسیر حضرت عائشہ (رضی اللہ عنھا) سے اس طرح مروی ہے کہ صاحب حیثیت اور صاحب جمال یتیم لڑکی کسی ولی کے زیر پرورش ہوتی تو وہ اس کے مال اور حسن و جمال کی وجہ سے اس سے شادی تو کر لیتا لیکن اس کو دوسری عورتوں کی طرح پورا حق مہر نہ دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم سے روکا، کہ اگر تم گھر کی یتیم بچیوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے تو تم ان سے نکاح ہی مت کرو، تمہارے لئے دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کا راستہ کھلا ہے (صحیح بخاری، کتاب التفسیر) بلکہ ایک کے بجائے دو سے تین سے حتیٰ کہ چار عورتوں تک سے تم نکاح کر سکتے ہو، بشرطیکہ ان کے درمیان انصاف کے تقاضے پورے کر سکو، ورنہ ایک سے ہی نکاح کرو یا اس کے بجائے لونڈی پر گزارا کرو۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان مرد (اگر وہ ضرورت مند ہے ) تو چار عورتیں بیک وقت اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ نہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی مزید صراحت اور تحدید کر دی گئی ہے۔ نبی کریم (ﷺ) نے جو چار سے زائد شادیاں کیں وہ آپ (ﷺ) کے خصائص میں سے ہے جس پر کسی امتی کے لئے عمل کرنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر) ۔

یعنی ایک ہی عورت سے شادی کرنا کافی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں انصاف کا اہتمام بہت مشکل ہے جس کی طرف قلبی میلان زیادہ ہوگا، ضروریات زندگی کا فراہمی میں زیادہ توجہ بھی اسی کی طرف ہوگی۔ یوں بیویوں کے درمیان وہ انصاف کرنے میں ناکام رہے گا اور اللہ کے ہاں مجرم قرار پائے گا۔ قرآن نے اس حقیقت کو دوسرے مقام پر نہایت بلیغانہ انداز میں اس طرح بیان فرمایا ہے «ولن تستطیعوا ان تعدلوا بین النساء ولو حرصتم فلا تمیلوا کل المیل فتذروھا کالمعلقة» (سورة النساء: 129 ) ”اور تم ہرگز اس بات کی طاقت نہ رکھو کہ بیویوں کے درمیان انصاف کر سکو، اگرچہ تم اس کا اہتمام کرو۔ (اس لئے اتنا کرو) کہ ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ کہ دوسری بیویوں کو بیچ ادھڑ میں لٹکا رکھو“ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ شادی کرنا اور بیویوں کے ساتھ انصاف نہ کرنا نامناسب اور نہایت خطرناک ہے۔

میں یہاں نام ظاہر کیے بغیر آپ سے کچھ لوگوں کی دو شادیوں کی وجوہات اور پھر ان کے تجربات شیئر کروں گی۔ ایک موصوف کی دو بہت ہی خوبصورت بیٹیاں تھیں بیٹے کی خواہش بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی انہیں ایک خاتون اچھی لگیں ان سے ناجائز تعلقات کو ترجیح دینے کی بجائے انہوں نے دوسری شادی کو ترجیح دے کر ایک شرعی رشتہ بنایا اور دونوں بیگمات کو اس ایک گھر میں رکھا ہوا ہے اور دوسری بیگم سے بھی ماشاءاللہ چار بچے ہیں اور سب سے اچھی بات ان کے گھر کا ماحول اور بچوں کی تربیت ایسی ہے کہ بڑی ماں اور چھوٹی ماں دونوں سے ایک جیسی محبت ہے اور بہن بھائیوں کا آپسی پیار بھی ویسا ہی ہے جو یہ واضح کرتا ہے کہ اس شخص نے دونوں بیگمات کو یکساں حقوق دے رکھے ہیں اور اپنے فرائض بھی وہ بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔

پھر ایک موصوف نے تو پہلے چھپ کر شادی کی، کیونکہ تب اسے اس کی بیگم کم اور بچوں کی ماں زیادہ محسوس ہونے لگی، خیر عرصہ گزرنے کے بعد اپنی شادی بارے آگاہ کیا اور پھر اسے گھر بھی لے آیا۔ پہلی بیوی نے کچھ نا کہا کیونکہ اس نے تو جو کرنا تھا کر لیا اور جوان بچوں کا ساتھ تھا چپ کر کے اس فیصلے کو تسلیم بھی کر لیا۔ پھر اچانک اسے خیال آیا دوسری شادی تو میری بہت بڑی غلطی ہے بچوں سمیت دوسری بیوی کو گھر سے نکال دیا، کئی بار یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا پھر بالآخر دوسری بیوی نے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ اختیار کر لیا اور تب اسے احساس ہوا نہیں میں تو محبت کرتا ہوں اس سے اور اسے گھر واپس لانے کے لئے ہر حد تک گیا لیکن عورت نے بھی جب فیصلہ کر لیا تو وہ بھی اس سے پیچھے نہ ہٹی اور یوں ان کی علیحدگی ہو گئی، مطلب موصوف نے صرف دل پشوری کے لئے دوسری شادی رچائی تھی۔

پھر ایک طرف دو بہت ہی پیار کرنے والا خوبصورت جوڑا اچھی خاصی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں کہ نا جانے کہاں سے حسد کی ماری ایک خاتون ان کی زندگی میں آ جاتی ہے۔ اور اپنے شر سے بسا بسایا گھر برباد کر دیتی ہے اور وہ کوئی اور نہیں اس کی اپنی بہن ہوتی ہے۔ اب شریعت کے مطابق سالی سے شادی نہیں ہو سکتی تو جناب نے بیوی کو ہی طلاق دے کر سالی سے گھر بسانے کا فیصلہ کر لیا۔ اب یہاں عورت ہی عورت کی دشمن ہے اور وہ رشتے میں ایک دوسرے کی بہن بھی ہیں، اور اس سب میں وہ مرد بھی برابر کا خطاکار ہے بلکہ گناہگار ہے جس نے شریعت کا بھی مذاق بنایا اور خوبصورت رشتوں کو گالی بنا دیا۔

اور بھی کئی لوگ ہیں جو ہنسی خوشی دو، دو بیگمات کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کچھ کو بیگمات کے گزر جانے کے بعد بچوں کی خاطر بھی دوسری شادی کرنی پڑتی اور ان میں سے بھی 50 فیصد خوش اور 50 فیصد اسے غلطی سمجھ کر گزار رہے ہیں۔ ایسے تلخ فیصلوں پر اکثر زندگیاں بچوں کی خراب ہوتی ہیں، ان کی باقی کی زندگی صدمے میں گزر جاتی ہے اور پھر وہ ان کی شخصیت پر ایسے اثرات مرتب کرتی ہے جس کو خمیازہ اکثر انہیں آنے والی زندگی میں آنی والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ صاحب استطاعت شخص کو تو ویسے ہی 2، 2 شادیاں کرنی چاہیں تاکہ معاشرے سے جوان لڑکیوں کی شادی کے بوجھ کو کم کیا جاسکے اور انہیں ایک بہتر زندگی دی جاسکے۔ آئیڈیا برا نہیں لیکن سوال پھر وہی کتنے فیصد لوگ ایسا کرتے ہیں؟ چلیں مان لیا کہ وہ ایسا کر بھی لیں تو جناب صاحب استطاعت والے اپنی استطاعت سے باہر پہلے تو شادی ہی نہیں کرتے، اسٹیٹس خراب ہوتا ہے، لوگ کیا کہیں گے کہ غریب کو اٹھا کر گھر لے آئے، پہنے اوڑھنے، چلنے پھرنے کی بھی تمیز نہیں۔

پھر دوسری طرف وہی غریب لڑکی یا چلو یہ کہہ لیں مڈل کلاس کا طبقہ اپنی بیٹیوں کے لئے بھی ایسے اونچے گھروں کے رشتے ہی تلاش کرتا ہے، یا پھر کم از کم نوکری اچھی اور پکی ہو، گھر اپنا ہو اور ایک عدد گاڑی بھی ہو ایسے رشتوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ پھر چاہے لڑکے میں شرافت یا انسانیت نام کی کوئی چیز ہو نا ہو۔ شریف لیکن غریب لڑکا جس کے پاس اپنا کوئی ٹھکانہ نا ہو ہم اسے رشتہ بھی نہیں دیتے یہ ایک المیہ ہے ہمارے اس معاشرے کا۔

اور جب پیسا دیکھ کر لڑکی بیاہ دیتے ہیں تو ساتھ ہی اکثر رخصتی کے وقت بیٹی کے کانوں میں آواز ڈال دی جاتی ہے کہ بیٹی اب وہی تیرا اصلی گھر ہے اب وہاں سے تیرا جنازہ ہی اٹھنا چاہیے۔ پھر چاہے وہاں وہ ایک ایک پل موت کے برابر ہی کیوں نہ گزار رہی ہو۔ صرف اس لیے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ بیٹی اپنا گھر بھی نا بسا سکی اور اس کی وجہ اس کی باقی بہنوں کے بھی رشتے نہیں ہوں گے کیونکہ ایک نے گھر نہیں بسایا تو باقی کیا خاک بسائیں گی تو چلو اسی دکھ سے ساری زندگی اسی دلدل میں گزارو اور اگر واپس آ جاو تو معاشرے کی تہمتیں اور گالیاں سننے کے لئے تیار ہو جاو۔

ایک شخص کے پاس بہت پیسا تھا اس نے دنیا جہاں کی چیزیں اپنی بیٹی کو دیں پھر لڑکے والوں نے منہ کھول کھول کر جو فرمائشیں کی وہ بھی پوری کرتے چلے گئے، لڑکا شادی سے پہلے اچھی خاصی نوکری کرتا تھا اچھا خاصا پڑھا لکھا بھی تھا اور خوبصورت بھی، اللہ نے پیارا سا بیٹا بھی دے دیا، بیٹی کا باپ اور بھی چوڑا ہو گیا کہ اللہ کا دیا سب ہے میری بیٹی کے پاس، لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ نصیب نہیں دے سکا اپنی بیٹی کو جو اسے بہت خوش دکھائی دے رہی تھی چند عرصے بعد باپ کی دہلیز پر واپس آ گئی بیٹے سمیت، اب بتائیں کیا اتنی دولت سے انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے نصیب خرید لیا؟ اب اسی بیٹی کی شادی ایک غریب سے کر رہے ہیں کہ شریف ہے بیٹے کو بھی سنبھال لے گا ہماری بیٹی کو خوش رکھے گا، معاشرے کی ایک اور تلخ حقیقت ہے یہ بھی۔

اب بات کرلیتے ہیں ان خواتین کی جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ جس سے وہ پیار محبت کے دعوے کر رہی ہیں وہ پہلے سے کسی کا شوہر کسی کا باپ ہے لیکن اندھی محبت میں اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیاں بھی برباد کر دیتی ہیں۔ اور بعد میں نا وہ اس کی رہتی ہے نا اپنے گھر والوں کی۔ کسی نے صحیح کہا کہ شریعت اور سنت کے مطابق تو شادی بس 20 سے 25 سال کی عمر میں کردی جاتی ہے، باقی مجبوری، معاشرے کے دباؤ، جنسی ضرورت اور ناجائز تعلقات سے بچنے کے لئے ہی کی جاتی ہیں۔ میرے اس بات سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ضرور ہوگا لیکن یہ سب بھی نصیب سے جڑی باتیں ہیں لیکن اس میں صحیح اور غلط کا راستہ ہم نے خود اختیار کرنا ہے۔

جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں یہاں شادی اور نکاح کو اتنا مشکل کر دیا گیا ہے کہ آپ دوسری تیسری تو کیا پہلی شادی کا بھی تصور نہیں کر سکتے۔ جس غریب کی 6 لڑکیاں ہوں چھٹی تک پہنچتے پہنچتے اس کی عمر 35 سے اوپر گزر ہی جاتی ہے۔ ایک ایک کو پڑھانا لکھانا اور پھر شادی کے لئے جہیز اکٹھا کرتے کرتے عمر گزر جاتی ہے۔ کہیں لڑکی والوں کی ڈیمانڈز ایسی ہوتی ہیں کہ غریب لڑکا انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اپنی برادری سے باہر شادی نہیں کر سکتے اور کہیں خاندان سے باہر رشتے کرنے کا رواج نہیں ہوتا۔

اور غلطی سے کہیں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کر لیں اور عزت غیرت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اور پھر اگر سونے پر سہاگا کورٹ میرج کر لیں تو قتل و غارت تک بات پہنچ جاتی ہے۔ ایسے ہی حالات و واقعات رہے تو دوسری تیسری شادی کیا پہلی بھی نہیں ہوگی اور معاشرے میں ناجائز تعلقات استوار کرنے والوں کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔ اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے شریعت کے مطابق شادیاں کرنی ہیں، شادی اور نکاح کو آسان بنانا ہے یا پھر نوجوان نسل کو غلط راستے اختیار کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ سب نے اپنے اپنے حصے کا فرض ادا کرنا ہے، اپنی سوچ اور نظریہ میں لچک پیدا کریں، اسلام صرف چار شادیوں کی ہی نہیں پسند کی شادی کی بھی اجازت دیتا ہے، خدارا اپنی نیت اور سوچ کو صاف رکھتے ہوئے اس سنت کو پورا کریں اور دوسروں کو بھی کرنے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments