جوناتھن کلر کا ساختیاتی تصور


ادب کی دنیا میں مختلف ادوار کے تحت تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ ترقی پسند، جدیدیت اور مابعد جدیدت بذات خود ادبی تنقیدی نظریات نہیں ہیں بلکہ یہ مختلف ادوار ہیں جن کے تحت مختلف ادبی و تنقیدی رجحانات نے جنم لیا۔ جدیدیت کے تحت جو تنقیدی نظریات اردو ادب میں متعارف ہوئے ان میں ساختیاتی تصور اہم نظر یہ کے طور پر ابھرا۔

ساختیات نے نہ صرف زبان و ادب کی ماہیت کے بارے میں، بلکہ ذہین انسان کی کارکردگی کے بارے میں کئی سوال اٹھائے۔ اس کے علاوہ ساختیاتی کی ایک اصطلاح کے طور پر متن میں لفظ و معنی کے لسانیاتی نظام میں بھی کئی اہم نکات کا اضافہ کیا ہے۔

”ساخت“ انگریزی لفظ (Structure) سے ”ساختیاتی“ (Structuralism) کی اصطلاح وضع ہوتی ہے۔ ساختیاتی ایک ادبی اور لسانی اصطلاح ہونے کے باوجود اپنے وسیع معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ ساختیات نہ صرف زبان کی ساخت اور ڈھانچے کے متعلق معلومات فراہم کرتی ہے بلکہ یہ متن میں لفظ اور معنی کے رشتے کے نظام سے تعلق رکھتی ہے۔

ساختیات کا دائرہ عمل پوری انسانی زندگی، ترسیل و ابلاغ اور تمدن انسانی کے تمام مظاہر پر حاوی ہے۔ ساختیات کا فلسفہ چیلنج پر ہے کہ ذہن انسانی حقیقت کا ادراک کس طرح کرتا ہے اور حقیقت جو معروض موجود سے کس طرح پہچانی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہ بات خاطر نشان رہنا چاہیے کہ ساختیات صرف ادب یا ادبی اظہار سے متعلق نہیں بل کہ اساطیر، دیو مالا، قدیم روایتیں، عقائد، رسم و رواج، طور طریقے، تمام ثقافتی معاشرتی مظاہر مثلاً لباس و پوشاک، رہن سہن، خورد و نوش، بودو باش، نشست و برخاست وغیرہ بھی پردہ مظہر جن کے ذریعے ذہن انسانی ترسیل معنی کرتا ہے یا ادراک حقیقیت کرتا ہے، ساختیات کا میدان ہے۔

ساختیاتی نہ صرف چھپے ہوئے الفاظ تک خود کو محدود رکھتی ہے بلکہ متن کے اندر چھپے معنی اور معنیاتی نظام کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتی ہے یعنی زبان کی سطحی واقفیت سے تفہیم کے تقاضے پورے نہیں ہوتے بل کہ متن کے اصل معنی تک رسائی حاصل کرنے سے ہوتے ہیں۔

ساختیات کا بانی سوئس ماہر لسانیات فردی ناں سوسیئر (7581ء۔ 3191ء) ہے مگر ساختیات یعنی (Structuralism) کی اصطلاح روسی +امریکی ماہر لسانیات اور نقاد رومن جیکب سن (4981ء۔ 3891ء) نے 9291ء میں سوسیئرکے طریق مطالعہ کے لیے استعمال کی]1[۔ ساختیات بنیادی طور پر ادراک حقیقت کا اصول ہے یعنی حقیقت یا کائنات ہمارے شعور اور ادراک کا حصہ کس طرح بنتی ہے۔ ہم اشیا کی حقیقت کا تعین کس طرح کرتے ہیں اور معنی خیزی کا عمل کیوں ممکن ہوتا ہے اور کیوں جاری رہتا ہے۔

زبان کی ساخت سے مراد زبان کے مختلف عناصر کے درمیان رشتوں کا وہ نظام ہے جس کی بنا پر زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ سوسیئرکہتا ہے کہ کائنات میں معنی خیزی ممکن ہے نشانات کے نظام (Sign۔ System) کی وجہ ہے جس میں ہر شے باہمی رشتوں میں گندھی ہوتی ہے۔ رشتوں کے اس نظام کے تفاعل سے معنی قائم ہوتے ہیں اور اشیا کی پہچان ممکن ہو جاتی ہے۔

ساختیات پر ابتدائی کام رومن جیکب سن نے کیا۔ رومن روسی ہیئت پسندی سے بھی وابستہ رہا اور ساختیات سے بھی۔ اس لیے اس کے تنقیدی تصورات ان دونوں مکاتب کے درمیان پل کا کام دیتے ہیں۔ رومن نے جب ساختیات کی طرف توجہ دی تو گرائمر یا شعریات مرتب کرنے کی سعی کی۔ رومن شعریات کو زبان کا مخصوص عمل قرار دیتا ہے۔ رومن نے یہ واضح کیا ہے کہ لفظ میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ذریعہ بھی بن سکتا ہے اور قصہ بھی۔ لہٰذا ادب کے سارے عمل کو لفظ کی اس صلاحیت میں تلاش کرنا چاہیے۔

رولاں بارتھ پہلا اہم ساختیاتی نقاد ہے۔ اس نے ساختیات اور نشانیات (Semoitics) کے نظری اور فلسفیانہ مباحث بھی اٹھائے اور ساختیاتی طریق مطالعہ کا اطلاق ادب پر بھی کیا۔ رولاں بارتھ کلچر کیمونیکشن سٹرکچر کا تھنکر ہے۔ ثقافتی ترسیل کے تجربے سے غرض رکھتا ہے۔ اس کے مطالعہ کا دائرہ بہت وسیع ہے اور مختلف سطح کی ثقافتی جہتوں پر بات کی۔ اس کا ہر کام تصوری پیش کش پر ہے۔ بارتھ نے جو ساختیاتی مطالعہ پیش کیا اس میں یہ بتایا کہ کس پوری پوری کہانی پانچ کوڈز کے باہمی تفاعل سے وجود میں آ کر معنی حاصل کرتی ہے۔ اس نے ان کوڈز کو Hermeneutic، Semantic، Symbolic، Proairetic، Culturalکا نام دیا۔

اہم ساختیاتی تحریروں کے مطالعے سے ساختیاتی تنقید کے اہم خصائص کی فہرست یہ بنتی ہے۔
٭ ساختیات متن اساس ہے۔
٭ ساختیاتی تنقید معانی کی تشریح کے بجائے معانی پیدا کرنے والے نظام کو دریافت کرتی ہے۔
٭ ساختیاتی تنقید ساخت یا شعریات کو ضابطوں کا نظام تصور کرتی ہے۔
٭ ساختیات قاری کی آزدی مگر قرات کے منظ ہونے کا تصور دیتی ہے۔
٭ ساختیاتی تنقید ادب کا نظری ماڈل دیتی ہے۔

مغرب میں ساختیاتی تنقید کو آگے بڑھایا۔ ساختیاتی تنقید کے سلسلے میں ساسیئر، بوی اسٹروس، جونتھن کلر، رابرٹ شلر، اولین، فلپ پیٹی، پیٹرس یاکس، فریڈک جیمس، جیراڈ گریٹ، ہیوزے یا رادی، بارتھ، توردارف، کرسٹائن وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ مغرب میں ساختیاتی تنقید کو آگے بڑھانے میں جونتھن کلر کا نام اہم ہے۔

جونتھن کلر Jonoton Culler ( 1966 )

امریکی ادبی نقاد اور نظریہ دان، امریکہ ریاست اوہابو کے شہر کلیولینڈ میں پیدا ہوئے۔ 6691ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ سینٹ کالج آکسفورڈ سے سی اے کی سند حاصل کی۔ 8691ء میں بی۔ فل اور 2791ء میں ذی۔ فل کی ڈگری مکمل کی۔ 6791ء میں انھیں رسل نوویل کا انعام ملا۔

کلر نے فرانسیسی ساختیات اور پس ساختیات کو انگریزی زبان سے متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے تشریح متن، قاری، ادبی مترائن کے علاوہ فلو برڈ، سائبر، بارتھ پر بھی لکھا۔ ان کی دو کتابوں نے ساختیاتی فکر میں اہم جگہ پائی۔

1- On Deconstruction, Theory and Criticism after Structuralism (1982)
2- Structuralist Poetics (1975)

جونتھن کلر ساختیاتی نظریے کے سبب معروف ہوئے۔ کلر کا خیال ہے کہ ساختیاتی لسانیات نظام میں مخصوص قرائن کو تشکیل دیتے ہیں۔ کیوں کہ یہ نہ انسانی کے ساتھ اس کے وجود کے وثوق کے ساتھ بیان کر پاتا ہے۔ ان کی نظر میں زبان ثقافت کی طرح ایک جیسی ہوتی ہے۔ کلر نے انسانی علوم کے متعلق ماڈل پیش کیا۔ کلر، ساسیئرکے لانگ (longue) اور پرول (Parole) کے نظریے کے بجائے نوام چومسکی (Noam Chomsky) کے اہلیت اور کارکردگی کے نظریے کو اہمیت دیتا ہے۔

نوام چومسکی کے نظریے کے مطابق تمام زبانوں کی بنیاد الگ ہی ہے۔ زبان کو تحت الشعوری طور پر ہم اپناتے ہیں۔ زبان ہمارے تحت الشعوری میں ہوتی ہے اور اسی بنا پر زبان کا لسانی نظام غیر شعوری طور پر زبان کی ذہنی کارکردگی کا حصہ بن جاتا ہے۔ تحت الشعوری کے تحت ہم زبان کا استعمال کرتے ہیں جس کی بنا پر صحیح کلمے خلق کر سکتے ہیں اور زبان کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کلر ادبی نظریے کے لیے اس بات پر زور دیتا ہے کہ شعریات کا اصل معروض متن نہیں بلکہ اس کا پڑھا جا سکنا ہے یا قابل فہم ہونا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ فن پارہ کس طرح سے سمجھ میں آتا ہے۔ اس علم اور ان روایات کو جن سے قاری اس قابل ہو جاتا ہے کہ فن پارے سے کس طرح معنی اخذ کر سکے۔ کلر کا نقطہ نظر یہی ہے کہ متن کے بجائے اس کے معنی پر توجہ دی جائے۔ ہم ان اصولوں کا اندازہ نہیں لگا سکتے جن کی وجہ سے متن تخلیق ہوتا ہے۔ تھوڑا مشکل کام ہے لیکن قاری کو ان اصولوں کا پتہ لگانا قدرے آسان ہے جو متن کو سمجھانے میں آسانی پیدا کرے۔

اگر متن کی آگاہی کے لیے کچھ حدود طے کر دیں جو تربیت یافتہ ماہر قائرین کو مقابل قبول ہوں تو ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ متن کو سمجھنے کے لیے کن معیارات اور طریقوں کی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ جب تربیت یافتہ قاری متن کو پڑھتا ہے تو اس کے اندر چھپے تمام مفاہیم کا بخوبی علم رکھتا ہے۔ اس کو اندازہ ہوتا ہے کہ فن پارے کا مفہوم کیا ہے اور اس کو پرکھنے کے لیے کون سے اصول کو اپنایا جائے گا اور اس طرح وہ قاری بہ ظاہر نا ممکن متن کو بھی معنی پہنانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ گویا جانتھن کلر متن کی ساخت پر زور نہیں دیتا۔ اس نظام کو زیر بحث لاتا ہے جس کے ذریعے قاری متن کی تفہیم اور تصریح کے عمل میں جو نظام مضمر اور تعارف ہوتے ہیں ان کی شناخت کی دریافت پر زور دیتا ہے۔

جونتھن کلر ساختیاتی نظریہ قرات کے لیے مشہور ہے جیسے اس نے اپنی کتاب
Structuralist Poetics: Structuralism, Linguistics and the Study of Literature

میں پیش کیا ہے۔ کلر اس بات پر زور دیتا ہے کہ قرات کے نظریے کے لیے ضروری ہے کہ وہ افہام و تفہیم اور تحسین کاری کو ضابطہ بند کر سکے جو بالعموم قارئین قرات کے دوران استعمال کرتے ہیں۔

کلر اپنے مقدمے کو واضح کرنے کے لیے ایک دلچسپ مثال دیتا ہے :
”Night is generally my time for walking,
It was the best of times, it was the worst of time,
concerning the exact year there is no need to be preise ”.

کلر کہتا ہے کہ اس نے اپنے کئی ساتھیوں کو اسے پڑھنے کو دیا۔ ایک صاحب نے رات، وقت، زمانے اور سال کے تصور میں تقسیم کے رشتے کی طرف توجہ دلائی، دوسرے نے نفسیاتی یا خارجی صورت حال کا ذکر کیا، تیسرے نے ہیئتی ڈھانچے کی طرف اشارہ کیا۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ کلر کہتا ہے کہ بالآخر مجھے بتانا پڑا کہ صرف دوسری سطر ہی نہیں باقی سطریں بھی ڈکنس کے ناولوں The Old Curiosity ShopاورOur Mutualکے ابتدائی حصوں سے ماخوذ ہیں۔

جونتھن کلر کے نقطہ نظر سے جو اہم بات ہے وہ یہ نہیں کہ قاری کو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے بلکہ یہ کہ قارئین نے ان سطروں کو پڑھتے ہوئے تعبیر و تفریح کے لیے ایسے طور طریقوں کا استعمال کیا جو بالعموم برتے جاتے ہیں اور جو قابل شناخت ہیں۔ رامن سیلڈن نے کلر کے اس نظریے پر تنقید کی اور کہا کہ قارئین متن کی تفہیم کے لیے جن داخلی اصولوں کا استعمال کرتے ہیں کیا واقعی ان کا معروضی تجزیہ کر کے انھیں کلی بحث سے ضابطہ بند کیا جا سکتا ہے۔ رامن کہتا ہے کہ کلر نے اس بات کی تو نشان دہی کر دی کہ مختلف اصناف کے طریقے ہر دور میں الگ ہوتے ہیں لیکن وہ آئیڈیولوجی کے اثر پر توجہ نہیں کرتا۔

کلر نے جو تصور پیش کیا اس کا کہنا ہے کہ صنعت کا تصور قاری کے ذہن میں ایک معیار ایک توقع پیدا کر دیتا ہے۔ بارتھ اس چیز پر زور دیتا ہے کہ اسدب وہ ہے جس میں معنی پیدا کرنے کا وہ نظام جو متن اور قرات کے عمل در عمل سے وجود میں آتا ہے جس کا صنف ہرگز پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتا۔

ساختیات ماہرین کی بڑی تعداد نے ادبی فن پاروں کا مطالعہ اس طرح کیا ہے کہ ان اصولوں اور ضوابط اور ان رشتوں کے روابط کا پتہ چلایا جا سکے جو مل کر ادبی روایت کے تجریدی نظام کی تشکیل کرتے ہیں۔ ملر کہتا ہے کہ ادب کی ایسی شعریات مرتب کی جائے جس کا رشتہ انفرادی فن پاروں سے اس طرح کا ہو جیسا LangueاورParoleسے ہوتا ہے۔ ساختیاتی تنقید، ادبی متن اور ادبی قرات کی ایسی شعریات وضع کرنا چاہتی تھی جو ان اصولوں اور قاعدوں کی تجریدی طور پر منضبط کر سکے جن کی رو سے ادب کی مختلف شکلیں شاعری، ناول، افسانہ وغیرہ وجود میں آتی ہیں۔ اس کے متعلقہ کلچر سے وابستہ لوگ ان کو پڑھ اور بول سکتے ہیں اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ساختیاتی شعریات کے نظام کے تعین سے جس کی مدد سے قاری متن کو سمجھ کر پڑھ سکتا ہے اور اس کو یہ معلوم ہو کہ لفظ کس طرح معنی بنتا ہے۔ کلر کا یہ کہنا ہے کہ ادب کی کوئی بھی افہام و تقسیم اصولوں اور روایتوں کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ جن کے باعث کسی بھی متن سے معنی اخذ کیے جاتے ہیں۔ یہ نظام جو دوسرے لفظوں میں شعریات کا نظام ہے ایک متن کو جب مختلف قاری پڑھتے ہیں تو اس سے ہر کوئی مختلف معنی اخذ کرتا ہے۔ کلر کہتا ہے ”اگرچہ معنی کا یہی تنوع دراصل قاری اساس تنقید کے بہت سے نظریہ سازوں کے لیے دقت کا باعث بنتا ہے لیکن اس نظریے کا چیلنج ہی ہے کہ مختلف قرآنوں کے امکانات اور مفاہیم کے تنوع کو ضابطہ بند کیا جائے۔ اس لیے کہ قارئین میں معنی کا اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن تقسیم و تعبیر کے لیے قارئین جو پیرائے اور طور طریقے استعمال کرتے ہیں، ان میں کچھ تو ملتے جلتے ہوں گے، ان کو دریافت کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

قاری اساس تنقید ادبی کام میں زبان کو اہمیت دیتی ہے اور قاری سے یہ توقع کرتی ہے کہ وہ متن کی معنویت کو اپنے طور پر لے جس میں قاری کے جذبات بھی شامل ہوتے ہیں۔ قاری اساس تنقید سے نئے تنقیدی نظریے کو فروغ ملا جس کا روایتی نقاد پہلے بیانیہ، پلاٹ، کردار، اسلوب اور ساخت کے حوالے سے کسی نہ کسی طور پر مطالعہ کرتے آئے تھے کیوں کہ متن انفرادی قاری کو تخلیقیت سے روشناس کراتا ہے۔ قاری اساس تنقید میں قاری کا ردعمل لیے ہوتا ہے اس کے بعد متن پر تنقید کی گنجائش ہوتی ہے۔

کلر اپنے ساختیاتی نظریہ قرات کو چومسکی کے نظریہ اہلیت کی بنیاد پر استوار کرتا ہے۔ جس طرح کسی زبان کے اصول و ضوابط اس زبان کے بولنے والے کے وجدان و مزاج کا حصہ بن جاتے ہیں اور لاتعداد جملے بول سکتے ہیں نیز ایسے جملے بھی ادا کرتے ہیں جن کو نہ پہلے سنا ہو اور اپنی اہلیت کی بنا پر لفظوں کی کڑیوں کو بطور بامعنی جملوں کی پہچان اور سمجھ سکتا ہے کیوں کہ اپنی زبان کے اصول و ضوابط اور طور طریقے اس کے ذہن و مزاج میں چھپے ہوتے ہیں۔

کلر کا کہنا ہے کہ جس طرح لسانی اہلیت زبان کی کارکردگی کا احاطہ کرتی ہے اسی طرح ادب قرات کی کارکردگی کی تہ میں وجدانی طور پر کسی نہ کسی طرح کی ادبی اہلیت ضرور کام کرتی ہو گی اور اس نوع کی ادبی اہلیت کے اصول و ضوابط کے تعین کی پوری کوشش کی جا سکتی ہے یعنی ادبی قرات کے کچھ اصول روایت ضرور ہوں گی جن سے قاری وجدانی طور پر مدد لیتے ہیں۔

ہم سب کسی متن کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس متن کے بارے میں ہماری کچھ توقعات ہوتی ہیں ہم ان توقعات کی روشنی میں اس متن کو پرکھتے ہیں اور معنی پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ موضوع کی سطح پر بھی کوئی اصول ضرور ہوتے ہیں۔ قرات کے عمل کے دوران وہ اصول عمل آرا رہتے ہیں۔ کلر نے ان تصورات سے Vraisemblisation، Motivation، RecuperationاورNaturalisationکی اصطلاحات کے ذریعے بحث کی ہے اور قرات کی لانگ کے تعین کی کوشش کی۔ اس کا خیال ہے کہ سب تصورات کی کل جمع وہ ادبی اہلیت ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی متن لکھا جاتا ہے یا جس کی رو سے قارئین ادبی متن کو پڑھتے اور اس کو سمجھتے ہیں۔

بقول کلر ”ساختیاتی شعریات کا کام ان اصول و ضوابط کا وضع کرنا نہیں بل کہ ان کا پتہ چلانا اور ان کو منضبط کرنا ہے“ ۔ کلر نے یہ بھی بحث اٹھائی کہ مختلف طرح کے متون کی ساخت یعنی اصناف کا نظریہ الگ ہے۔ ممکن نہیں کیوں کہ اہلیت جو ان کو پیدا کرتی اس کی کوئی داخلی فارم متعین نہیں کی جا سکتی۔ قاری کی اہلیت کی بات البتہ کی جا سکتی ہے اسی طرح متن کو بطور ادب پڑھنے کے لیے ادبی اہلیت شرط ہے۔ تفہیم کے جو طریقے ایک صنف کے لیے وضع کیے گئے ہیں ان کا اطلاق دوسری صنف پر نہیں ہو سکتا لہٰذا ایک دور کے طریقے دوسرے دور سے مختلف ہوتے ہیں کیوں کہ ان میں برابر تبدیلی ہوتی ہے۔

جونتھن کی کتاب 1975ء میں منظر عام پر آئی اس میں کلاسیکی ساختیات کی رو سے قرات کے عمل اور اس کے اصول وضع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسے کلر نے یوں بیان کیا ہے :

”Man is not just homo sapiems but homo significans; A creature who gives sense to thing“
لیکن کلر نے اپنی کتاب کے آخری جملے میں یہ اقرار بھی کیا کہ:
”As yet we understand very little about how we read“
اس فکر کا اگلا قدم کلر نے اپنی کتاب میں اٹھایا
”On deconstruction theory and criticism after structuralism (1982)

اس کتاب میں کلر نے وضاحت کی کہ رد تشکیل کی رو سے اگرچہ قاری اور متن کی الگ الگ مرکزیت کو بے دخل کیا جا سکتا ہے اور اصل چیز متنیت (Textuality) ہے تاہم ایک ایسی صورت حال میں جہاں ساختیات اور پس ساختیات میں گہرا رشتہ ہے اور ایک منطقیت دوسرے کے استفہامیے میں بدل جاتی ہے۔

کلر نے جو ساختیاتی تصور پیش کیا مختصر یہ کہ ہم جس صنف کا مطالعہ کرتے ہیں ہمارے ذہن میں اس صنف کے متعلق ایک معیار پیدا ہو جاتا ہے۔ اس معیار کے ذریعے متن کا سامنا کرنے میں رہنمائی حاصل ہو جاتی ہے جب قاری کسی کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے سرورق پر ناول، افسانہ، غزل لکھا ہوا دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں اس صنف کے متعلق رائے قائم ہو جاتی ہے اور اس متن میں چھپے معنی کو گرفت میں لانا آسان ہوتا ہے۔ فکر متن کی تہ میں جو ساخت کارفرما ہے اس پر زور نہیں دیتا بلکہ قاری کے ذریعے متن کی افہام و تفہیم اور تعبیر و تفریح کے عمل میں جو نظام مضمر اور متعارف ہوتا ہے اس کی ساخت کی دریافت پر زور دیتا ہے۔

ایک متن سے بے شمار معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ کلر کہتا ہے کہ کسی بھی متن کے کوئی بھی ناقابل قبول معنی تبھی ممکن ہیں جب دوسرے تمام معنی جن کا تصور کیا جا سکتا ہے، قبول قبول ہوں۔ معنی کا قابل قبول ہونا یا نہ ہونا کسی نہ کسی نظام کی رو سے طے پاتا ہے۔ خواہ یہ نظام ہماری نگاہوں سے کتنا پوشیدہ کیوں نہ ہو لیکن متن کی قرات اور معنیاتی عمل میں اس کا رفرما رہنا ثابت ہے ایسا نہ ہو تو کوئی بھی معنی ممکن نہیں ہو سکتے۔

ماخذات
احمد سہیل، ساختیات: تاریخ، نظریہ اور تنقید (دہلی: آئی بلاک، لکشمی نگر، 11092)
گوپی چند نارنگ، ادبی تنقید اور اسلوبیات (لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، 1991ء
گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، (دہلی: ناگری پرنٹرس، 4002ء)
ناصر عباس، ڈاکٹر، ساختیات: ایک تعارف (اسلام آباد: پورب اکادمی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments