حالیہ فلسطینی اسرائیلی لڑائی! ایک تجزیہ


گزشتہ جمعہ کی صبح غزہ کے مکین گلیوں اور بازاروں میں نکل آئے کہ اپنی فتح کی خوشی منا سکیں اس لیے کہ گیارہ روزہ لڑائی میں سیز فائر پر اتفاق ہو گیا تھا لیکن اس دوران جہاں سیکڑوں لوگ اپنی جان سی ساتھ دھو بیٹھے، وہیں شہری سہولتوں کی بڑی تباہی بھی دیکھنے میں آئی۔ جہاں پہلی بار فلسطینی راکٹ تل ابیب، اور دوسرے بڑے شہروں تک پہنچ گئے وہیں گیارہ روز کی مسلسل بمباری نے غزہ شہر کا نقشہ ہی بدل کے رکھ دیا۔ دونوں طرف سے اپنی اپنی فتح کا اعلان کیا گیا۔

اس لڑائی کا آغاز دس مئی کو ہوا جب اسرائیل نے حماس کے داغے گئے راکٹوں کے جواب میں، غزہ پر بمباری شروع کر دی، اس سے پہلے اپریل میں فلسطینی بیت المقدس میں مظاہرے کر رہے تھے۔ پچھلے بیس سال میں اس طرح کے واقعات تسلسل سے ہو رہے ہیں اور ہر بار ایسے ہی سیز فائر کے اعلانات پر، اگلی باری کے انتظار میں، ختم ہو جاتے ہیں۔ آج ہم موجودہ کرائسس کے پس منظر میں موجود ان عوامل پر روشنی ڈالیں گیں جو شاید مستقبل پر اثرانداز ہونے کے صلاحیت رکھتے ہیں۔

موجودہ کرائسس کی شروعات اپریل کے مہینے ہی ہو چکی تھی لیکن دوسرے عوامل کی شمولیت نے ان کی رفتار میں تیزی پیدا کردی اور بالآخر دس مئی کو ایک دھماکے کے ساتھ یہ صورت حال بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔

اس قضیہ کی تاریخ میں گھسے بغیر چارہ بھی نہیں اور آج کا بلاگ اس طویل کہانی کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لیے قصہ اس اپریل ہی سے شروع کرتے ہیں۔

اس کا آغاز اس وقت ہوا جب اپریل کے شروع میں اسرائیلی پولیس نے مشرقی بیت المقدس میں دمشقی دروازے کے سامنے کھلی جگہ پر رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں، یاد رہے کہ یہ جگہ نہ صرف پرانے شہر میں داخلے کا بڑا راستہ ہے بلکہ مقامی عرب عموماً اس جگہ رات گئے اکٹھے بھی ہوتے ہیں بالخصوص رمضان کے مہینے میں۔ پولیس کے ان اقدامات کو فلسطینی عوام نے اسرائیلی ریاست کے جابرانہ پالیسی میں توسیع سمجھتے ہوئے ان کے خلاف پر امن احتجاج شروع کر دیا اور پولیس کو ان رکاوٹوں کو ختم کرنے پر مجبور کر دیا۔

اس دوران مشرقی بیت المقدس کے شیخ جراح کے علاقے میں دائیں بازو کے یہودی آباد کارواں کی کارروائی کے نتیجے میں عرب خاندانوں کی اپنے گھروں سے بے دخلی پر پہلے ہی احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے۔ اگرچہ فلسطینی عربوں کے یہ مظاہرے پر امن تھے لیکن ان پر نہ صرف پولیس کا تشدد ہو رہا تھا جنہوں نے مظاہرین پر ربڑ کوٹڈ گولیاں چلائیں بلکہ سٹن گرینڈ بھی پھینکے بلکہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں اور آباد کاروں نے فائرنگ بھی کی۔ یاد رہے کہ اسرائیلی پولیس کا یہ رویہ کوئی نیا نہیں۔

بیت المقدس میں آباد عربوں کی ان کے گھروں سے بے دخلی کوئی نئی کہانی نہیں۔ مشرقی بیت المقدس کا علاقہ سنہ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت اردن کا حصہ تھا جہاں خالی زمیں پر ریاست اردن نے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے 1956 میں گھروں کی تعمیر کی اور 28 گھرانے ان مکانات میں آباد ہو گئے۔ 1967 کی جنگ کے بعد جب پورے بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا تو اسرائیلی کنیسٹ ( اسمبلی) نے ایک قانون پاس کیا کہ مشرقی یروشلم کے علاقے میں، وہ تمام علاقے جو کبھی یہودیوں کے ملکیت میں تھے، اب اپنے اصل مالکوں کو واپس کر دیے جائیں گے۔

یہودی آباد کاروں کا دعوی ہے کہ ان کے آبا و اجداد نے انیسویں صدی کے اواخر میں شیخ جراح کے علاقے میں زمین خریدی تھی۔ اس قانون کے تحت یہودی تو زمین پر اپنی ملکیت جتا سکتے ہیں لیکن لاکھوں فلسطینیوں کو یہ حق حاصل نہیں جن کو 1948 میں زبردستی گھروں سی نکال دیا گیا تھا اور جو آج بھی مختلف ممالک میں مہاجرین کے کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سنہ 2007 میں اس شیخ جراح کے علاقے کی یہ زمین ایک امریکی ادارے ”نہالات شمعون انٹرنیشنل“ نے خرید لی اور عدالت میں زمین پر قبضے کا مقدمہ کر دیا جس کے نتیجے میں سنہ 2008 / 2009 میں

چار فلسطینی گھرانوں کو بے گھر کر کے ان کی جگہ یہودی آباد کاروں کو دے دی گئی۔ گزشتہ تقریباً بارہ سال سے بقیہ سات گھروں کے لیے عدالتی کارروائی جاری ہے اور فلسطینی ہر ہفتہ اس جبری بے دخلی کے خلاف پرامن مظاہر کر رہے ہیں لیکن اسرائیلی نظام عدل کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور بالآخر اس سال فروری میں بقیہ چھ گھرانے یعنی ستائیس افراد کو گھروں سے بے دخلی کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف اسرائیلی سپریم کورٹ میں کی گئی اپیل اسی ہفتہ فیصلہ سنایا جانا تھا لیکن اس کو تیس دن تک موخر کر دیا گیا۔ اسی فیصلہ کے سلسلے میں شہر کے دوسرے حصوں سے فلسطینی لوگ شیخ جراح کے متاثرین کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کر رہے تھے جہاں ان کو پولیس کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اس سلسلے میں یاد دہانی ضروری ہے کہ شیخ جراح سے فلسطینی لوگوں کی بے دخلی کو ہمیں وسیع تر اسرئیلی قانونی نظام کے تناظر میں دیکھنا ہو گا جس کہ تحت، اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کی حوصلہ افزائی اور فلسطینیوں کی بے دخلی سے، آبادی کے تناسب کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق یہ پالیسی نسلی پرستی کی تعریف پر پورا اترتی ہے اور اس سلسلے میں شیخ جراح کے علاقے میں فلسطینی عوام کی جدوجہد اور اس میں دوسرے علاقے کے نوجوانوں کی شمولیت دراصل ان کے اپنے اپنے گھروں کی حفاظت کی جدوجہد بن چکی ہے۔

فلسطینیوں کے خلاف جابرانہ اور نسل پرست ریاستی پالیسی کا ایک اور اظہار دمشقی گیٹ پر رکاوٹوں کے خلاف فلسطینیوں کے احتجاج کے دوران پولیس کا مسجد اقصی میں بھی داخل ہونا بھی تھا جہاں انہوں نے عبادت کرنے والوں پر دھماکے دار تیز روشنی والے ہتھیاروں سے حملہ کر دیا جس کا مقصد دراصل لوگوں کو یاد دہانی کرانا تھا کہ وہ یہاں کے حاکم ہیں۔

مسجد اقصی نہ صرف مسلمانوں کی تیسری مقدس ترین جگہ ہے بلکہ فلسطینیوں کے لیے سب سے اہم قومی علامت کی حیثیت بھی اختیار کر چکی ہے۔ اس پر اسرائیلی حاکمیت جتانے کی کوئی بھی کوشش ایک سیاسی برانگیختگی میں شمار کی جائے گئی۔ سنہ 2017 میں بھی اسرائیل نے مسجد کے داخلی دروازوں پر میٹل ڈیٹیکٹر لگانے کی کوشش کی لیکن فلسطین احتجاج، جس میں فلسطینی اتھارٹی کا اسرائیل سے اپنے تعلقات کا منجمد کرنا شامل تھا، کے نتیجے میں اس نے ان کو ہٹا لیا۔ مغربی کنارے میں مسلسل پابندیوں میں جکڑے شہری کی زبور حالی اور مشرقی بیت المقدس کے علاقے سے فلسطینی شہریوں کی گھروں سے بے دخلی نے ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ پولیس کا مسجد اقصی میں داخل ہونے کے اس قدم نے ان چنگاریاں پر تیل کا کام کیا اور موجودہ کرائسس کو آگ کی طرح بھڑکا دیا۔

ان حالات میں فلسطینی سیاسی عوامل کا کیا رول رہا اور بظاہر فلسطینی اتھارٹی کس طرح عضو معطل بیکار بنی رہی اور فلسطینی جسد سیاست میں نئے خون کو روکنے کے لیے کس طرح الفتح اور حماس ایک بار پھر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اس پر بات اگلی نشست تک اٹھا رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments