ائر بلو میں فلائنگ کس کا سکینڈل اور ایک صالح نوجوان


سوشل میڈیا پر ایک صاحب شدید رنجیدہ ہیں۔ انہوں نے ائر بلو کے خلاف ایک ویڈیو میں دل کا غبار نکالا ہے۔ وہ فرماتے ہیں

”میرا نام بلال فاروق علوی ہے۔ میں کراچی میں جاب کرتا ہوں۔ بیس مئی 2021 کو صبح سات بجے کی ائر بلو کی فلائٹ سے میں کراچی سے اسلام آباد کے لیے سفر کر رہا تھا اپنی فیملی کے ہمراہ۔ میری جو تھی وہ سیٹ نمبر فائیو تھی۔ سیٹ نمبر فور پر ایک کپل بیٹھا ہوا تھا جو کہ ہم سے اگلی سیٹ تھی۔ اس پے وہ کچھ نازیبا حرکات کر رہے تھے۔ اور مسلسل غیر اخلاقی حرکات میں ملوث تھے۔ ائر ہوسٹس کو اس بابت میں آگاہ کیا گیا۔ انہوں نے ایک دفعہ تو ان کو بلا کر وارننگ دی لیکن وہ بدستور اپنی ان حرکات سے باز نہ آئے۔ ائر ہوسٹس نے پھر بجائے اس کے کہ ان کے خلاف کوئی ایکشن لیتے یا ان کی کوئی سیٹ چینج کرتے انہوں نے ایک لحاف وغیرہ ان کو دے دیا اور وہ بدستور اپنی حرکات میں ملوث رہے اور جاتے ہوئے وہ کپل کہہ کے گیا ہمیں کہ آپ لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی کی پرائیویسی میں انٹر فیئر کرنے کا۔ اور اس بابت میں نے تحریری طور پر کمپلین کی اور اس کے اوپر مجھے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔“

یہاں ہمیں سب سے پہلے رک کر علوی صاحب کے جذبے کی تعریف کرنا پڑے گی۔ یوں جوڑوں کو روکنا کسی عام شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ ائر ہوسٹس اور جہاز کا عملہ تک اسے روکنے سے قاصر رہا۔ ایسی تربیت ہم نے تو صرف اسلامی جمعیت طلبا کے صالح نوجوانوں میں دیکھی ہے کہ کسی بھی جوڑے کو دیکھ کر اسے کسی بھی طرح روکنے کی کوشش میں جت جائیں مبادا وہ کوئی نازیبا حرکت نہ کر دے۔ گمان غالب ہے کہ علوی صاحب بھی اسی نرسری کے پروردہ ہوں گے یا کسی ایسی ہی اچھی جگہ سے یوں برائی تلاش کر کے روکنے کی تعلیم پائی ہو گی۔

جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے جہاز کی سیٹ کی پشت بیٹھنے والے کے سر سے اونچی ہوتی ہے۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھا شخص صرف سیٹ کے بیچ کی ننھی سی درز سے اگلی سیٹ کی بہت مختصر سی جھلک دیکھ سکتا ہے۔ اب علوی صاحب یہ مفصل منظر اس صورت میں دیکھ سکتے تھے کہ وہ اگلی سیٹ کے ساتھ جا کر راہداری میں کھڑے ہو جائیں، اپنی سیٹ پر کھڑے ہو جائیں، یا اگلی سیٹ والا جوڑا اپنی سیٹ پر بیٹھنے کی بجائے سامنے کھڑا ہو کر یا سیٹ پر گھٹنوں کے بل کھڑا ہو کر محبت کا عملی مظاہرہ کر کے دکھائے۔ خدا جانے ان میں سے کون سی صورت برپا ہوئی ہو گی جو علوی صاحب کو اتنی زیادہ پریشانی اٹھانی پڑی۔

بہرحال ہمیں اس بارے میں سوچتے ہوئے وہ حیا دار خاتون یاد آ گئیں جو ایک نئے گھر میں منتقل ہوئیں تو ان کی ایک رشتے دار ان سے ملنے آئیں اور پوچھا کہ اس نئے گھر میں کوئی تکلیف تو نہیں؟ وہ خاتون فرمانے لگیں کہ ویسے تو کوئی تکلیف نہیں لیکن ہمارے سامنے والے گھر میں ایک نیا نیا شادی شدہ جوڑا رہتا ہے جو نہایت بے حیا ہے اور اکثر سرعام ہی اخلاق باختہ حرکات کرتا پایا جاتا ہے۔ اس وقت بھی وہ سرعام بوس و کنار میں مصروف ہو گا۔ رشتے دار کو یقین نہ آیا اور کھڑکی کے پاس جا کر دیکھنے لگی۔ اس نے کہا کہ مجھے تو ان کے گھر میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ خاتون بولیں کہ ایسے تھوڑی دکھائی دے گا، یہ کرسی روشندان کے نیچے رکھو، اس پر سٹول رکھو اور پھر اس پر کھڑے ہو کر ان کے گھر میں جھانکو تو پھر تمہیں ان کے گھر کے اندر کا منظر دکھائی دے گا۔

بہرحال وہ خاتون اپنی جگہ حق بجانب تھیں اور علوی صاحب اپنی جگہ۔ ہم نے ان کے بیان پر غور کیا ہے۔ ائر بلو اب جس طرح مسافروں کو لحاف دینے لگی ہے اس سے تو لگتا ہے کہ اس کی سروس پہلے سے بہتر ہو گئی ہے۔ عام فضائی کمپنیاں تو معمولی سا لوئی جیسا مہین سا کمبل دیتی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس محبت میں شدت سے مبتلا جوڑے کے عشق کو دیکھتے ہوئے خاص طور پر ویسا ریشمی لحاف فراہم کیا گیا ہو گا جیسا جہیز میں دیا جاتا ہے۔ لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ لحاف کے اندر چھپنے کے باوجود بھی اس جوڑے کی غیر اخلاقی حرکات و سکنات علوی صاحب کی عقابی نگاہوں سے نہ چھپ سکیں اور وہ انہیں بدستور دیکھنے میں کامیاب رہے۔ کہیں علوی صاحب کو عصمت چغتائی کا لحاف نہ یاد آ رہا ہو جو معاملات چھپانے میں ناکام رہتا تھا۔

جہاں تک ان کے اس مطالبے کا تعلق ہے کہ ائر ہوسٹس کو اس جوڑے کے خلاف کوئی ایکشن لینا چاہیے تھا، ہم اس سے کلی طور پر متفق ہیں۔ مثلاً ائر ہوسٹس جہاز کا دروازہ کھول کر اس جوڑے کو باہر نکال سکتی تھی۔ یا اسے سیٹ نمبر چار سے آگے کسی جگہ مثلاً کاک پٹ میں بھیج سکتی تھی۔ یا علوی صاحب کو جہاز کی دم پر بٹھانے کا بندوبست کر سکتی تھی۔ بہرحال جوڑے کو منع کرنے اور اس پر لحاف ڈالنے کے باوجود بھی اگر علوی صاحب اس کی نازیبا حرکات دیکھتے رہے تو ائر ہوسٹس کے پاس ایک آپشن اور تھی جو اس نے استعمال نہیں کی۔ وہ دوسرا لحاف علوی صاحب پر بھی ڈال سکتی تھی تاکہ انہیں رومان دکھائی دینا بند ہو جائے اور ان کا دل یوں کھٹا نہ ہو۔

دوسری طرف علوی صاحب بھی ایکشن لے سکتے تھے۔ مثلاً وہ اپنی آنکھیں بند کر سکتے تھے یا ائر ہوسٹس سے آنکھوں پر چڑھانے والا کھوپا لے کر استعمال کر سکتے تھے تاکہ رومان زدہ جوڑے کو دیکھ کر ان کے ارمان نہ مچلیں، دل نہ جلے، غلط قسم کے خیالات سر میں نہ گھومیں وغیرہ۔ علوی صاحب کو اگر ولایت جانا پڑا تو خدا جانے ان کے دل پر کیا گزرے گی کہ فرنگی جوڑے جہاز کے باہر بھی ہوں تو جہاز بنے رہتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments