اسد علی طور: یہ کونسی بڑی بات ہے


اگلے دن رات کو پنڈی پہنچا تھا اور چھوٹے بھائی کے پاس کینٹ میں رکا کیونکہ دوسرے دن آس پاس بہت سے کام تھے اور شیڈول بہت ٹائٹ تھا جبکہ شام کو واپس پشاور بھی پہنچنا تھا۔ اس لئے ابصار عالم کی بیمار پرسی بھی اگلے ہفتے تک موقوف کر لی۔

شام ڈھلے گاڑی موٹروے پر چڑھی تو اسلام آباد سے ایک دوست کا فون آیا کہ کہاں ہو ؟

موٹروے پر ہوں اور پشاور واپسی ہے۔ میں نے جواب دیا

تم نے تو کہا تھا کہ ابصار عالم کو دیکھنے اس کے گھر جائیں گے اور میں تو تمھارا انتظار کرتا رہا۔

سوری یار بہت مصروف رہا۔ اس لئیے موقع ہی نہیں ملا لیکن اگلے ہفتے آوں گا تو ابصار عالم کے پاس بھی جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ تب تک اسد علی طور، عمار مسعود یا کسی اور صحافی دوست کی بھی ابصار عالم والی حالت کر دی ہو تو اسے بھی دیکھ لیں گے۔

ھم دونوں دوستوں کا قہقہہ گونجا اور فون بند ہو گیا۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے میں سوشل میڈیا پر اسد علی طور کے سپیس پر موجود تھا جس پر لندن سے کوئی صاحب بودے دلائل کے ساتھ بات کر رہے تھے اور سردار شعیب انتہائی مدلل انداز میں اس کے فرسودہ اور بے بنیاد نقطہ نظر کے پرخچے اڑا رہا تھا۔ جبکہ بیچ بیچ میں اسد طور میزبان ہونے کے ناطے بات سمیٹنے کی کوشش کر رھا تھا کہ اچانک اسد طور کے دروازے پر دستک کی آواز سنائی دیا اور وہ کچھ دیر کے لئے چلے گئے۔

میں انتظار کر تا رہا کہ وہ واپس آئیں تو میں اپنی بات کروں گا لیکن کافی وقت گزرنے کے بعد بھی وہ واپس نہیں آئے تو میں تازہ ترین ٹوئیٹس کی طرف متوجہ ہوا۔ اچانک وسیم عباسی کی ٹوئیٹ پر نظر پڑی تو سکتے میں آ گیا۔ لکھا تھا کہ  “اسد علی طور پر گھر میں نا معلوم افراد کا حملہ۔ زخمی حالت میں ہسپتال منتقل!”

میں ابھی سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ عمار مسعود نے بھی اسی سپیس میں یہ خبر اناؤنس کر دی۔

میں نے سراسیمگی میں اسد علی طور کا نمبر ملایا لیکن ظاہر ہے اس وقت وہ اس پوزیشن میں کہاں تھا کہ فون پر بات کرتا۔ اس لئے میں ایک بے چینی کے ساتھ ٹہلتا اور دوستوں کو فون پر فون کرتا رہا تاہم ابھی مزید معلومات کسی کے پاس بھی نہ تھیں ۔

تقریبا آدھ گھنٹہ بعد ایک دوست نے تازہ ترین ویڈیو بھیجی جس میں اسد علی طور زخمی جسم اور خون آلود کپڑوں کے ساتھ ہسپتال میں پھر رہا تھا۔

یہ دیکھ کر جان میں جان آئی کہ چلو صرف زخمی ہے، جان سے تو نہیں گیا۔ جان سے جاتا بھی تو کوئی کیا بگاڑ لیتا۔

عذاب دیدہ وری گر کہیں رقم ہو جائیں

تو حکم یہ ہے کہ وہ ہاتھ سب قلم ہو جائیں

اسد علی طور کے بارے ابھی تک میں اس نتیجے پر نہیں پہنچا کہ اس کا قد کاٹھ بحیثیت صحافی زیادہ بلند ہے یا بحیثیت ایک دلیر نوجوان لیکن جو لوگ اس سے آگاہی رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اسد طور ایک صحافی کی جبلت لے کر پیدا ہوا ہے۔ اس لئے وہ ایک حیرت انگیز مہارت کے ساتھ ان گوشوں سے بھی خبر اچک لیتا ہے جو اس جیسے صحافیوں کےلئے غنیم کے منطقے سے کم نہیں۔ اسد نہ صرف خبر اڑا لیتا ہے بلکہ شام ڈھلے اپنے یو ٹیوب چینل پر ایک جنوں خیز دلیری کے ساتھ لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔

گزشتہ پچاس گھنٹوں کے دوران وہ یکے بعد دیگرے کچھ ایسے موضوعات اور ششدر کر دینے والی سٹوریز سامنے لے آیا کہ ایسٹبلشمنٹ اور عمران خان تو کیا شہباز شریف تک کو بھی نہیں بخشا حتی کہ شہباز شریف کو بھی اپنے ٹھوس دلائل اور حیرت انگیز معلومات کی بنیاد پر چودھری نثار والی پوزیشن پر لے کے گیا۔

کچھ دن پہلے اس نے ا پنے والدین کو ملنے والی دھمکیوں کا ذکر بھی کھل کر کیا جبکہ جعلی صحافیوں کے تو وہ بخیے ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے۔

سو اسد علی طور کے جرائم کی فہرست طویل بھی ہے اور خوفناک بھی اس لئے اسے شکر گزار ہونا چاہیے کہ ایک “خطرناک مجرم ” ہوتے ہوئے بھی اسے زندہ رہنے دیا گیا۔ صرف پھینٹی لگائی گئی تو یہ کونسی نئی یا بڑی بات ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments