فلسطینیوں کے زخم اور دنیا کی بے حسی


اسرائل اور فلسطین کے درمیان ایک نام نہاد جنگ بندی کا اعلان ہو گیا ہے ۔ یہ جنگ بندی نام نہاداس لئے ہے کہ یہ کوئی دو ملکوں کے درمیان باقاعدہ جنگ نہیں تھی۔ فلسطینیوں کے پاس تو اپنی کوئی بری بحری یا فضائی افواج موجود ہی نہیں ہیں نہ ہی ان کے پاس اسرائیل کی طرح جدید ترین ہتھیار اور گولہ بارود ہیں، اس لئے یہ جارحیت بنیادی طور پر اسرائیل کی یک طرفہ تباہ کن کارروائیوں پر مشتمل ہوتی ہے اس لئے اس کودو فریقوں کے درمیان باقاعدہ جنگ کادرجہ دینا غلط ہے۔

دراصل یہ اسرائیل کی یک طرفہ بربریت اور سفاکی ہے اور اسی طرح پیش کی جانی چاہیے اب کم از کم یہ ضرور ہواہے کہ اسرائیل نے اپنے حملے بندکردیے ہیں اور غزہ میں امدادی سامان پہنچ رہا ہے، جہاں حالات بدستور نازک ہیں۔

اسرائیل نے حملے 21 مئی کو بند کیے یہ حملے تقریباً دو ہفتے جاری رہے جس میں ڈھائی سے تین سو فلسطینی جاں بحق ہوئے جن میں سو سے زیادہ بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ گو کہ فلسطین کے لوگ اب غزہ کی پٹی اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر آباد ہیں، حالیہ اموات زیادہ تر غزہ میں ہی ہوئیں جب کہ اسرائیلی ہلاکتوں کی تعداد ایک درجن سے بھی کم ر ہی جس میں صرف ایک اسرائیلی فوجی اور دیگر سویلین یہودی لوگ شامل تھے۔

صورت حال کو دیکھتے ہوئے بالآخر اقوام متحدہ نے بھی کچھ حرکت کی ہے اور اس کے امدادی ٹرک غزہ میں آرہے ہیں۔ ان ٹرکوں پر دوائیں، خوراک اور ایندھن وغیرہ شامل ہیں۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے اپنے حملوں میں غزہ کے تقریباً تمام اسپتال تباہ کردیے اور بجلی پانی نہ ہونے کے باعث تمام صحت کے مراکز تقریباً مفلوج کیے جا چکے ہیں۔

اسرائیل کے حملے روکنے کے بعد سرحد پر واقع کرم ابو سالم کا راستہ کھول دیا دراصل غزہ کی پٹی مکمل طور پر اسرائیل کے محاصرے میں ہے اور اس میں آمد و رفت کے تمام بری، فضائی اور بحری راستوں پر اسرائیل کا مکمل قبضہ ہے اس طرح غزہ ایک محصور علاقہ ہے جہاں کے لوگ ایک طرح سے بڑی جیل میں رہ رہے ہیں۔ آمد و رفت کے راستے تک اسرائیل نے مسدود کررکھے ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے ڈھائی جانے والی اس تباہی میں دو لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا گیا جبکہ تقریباً ایک ملین لوگ پانی کی فراہمی سے محروم کردیے گئے کیونکہ غزہ کی تمام بڑی پانی کی لائنیں تباہ کی جاچکی ہیں۔

اسرائیل کے اپنے حملے روکنے کے بعد بھی مشرقی یروشلم میں بیت المقدس کے احاطے کے باہر فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنایا اور جھڑپیں ہوئیں جن میں ایک بار پھردرجنوں فلسطینی زخمی ہوئے اس طرح مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ علاقوں میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بظاہر امن قائم ہونے کے بعد بھی اسرائیل اور حماس دونوں اپنی فتح کا دعوی کر رہے ہیں۔ جیسے ہی اسرائیل نے حملے بند کرنے کا اعلان کیا فلسطینی شہری غزہ کی سڑکوں پرنکل آئے اور اپنی فتح کے نعرے لگانے لگے امریکا یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اسرائیل نے حملے روکے رکھنے کے لئے اسے مضبوط یقین دہانی کرائی ہے۔

دو ہفتوں کے ان حملوں نے ایک بات تو واضح کردی ہے کہ اس تنازع میں اب پرامن تعلقات کی باتیں مزید پیچھے چلی گئی ہیں بلکہ پرامن بقائے باہمی کا تصور تقریباً ختم کر دیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا دینے کے لئے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے یہ ”جرات مندانہ“ اقدامات اٹھائے ہیں، ساتھ انہوں نے اپنی غیر معمولی کامیابی کابھی دعویٰ کیا ہے۔

حالیہ حملوں کا پس منظر یہ ہے کہ مشرقی بیت المقدس میں اسرائیل نے کچھ فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی کوششیں کیں یہ کام وہ اس سے قبل بھی کرتا رہا ہے یقیناً جن مکانوں میں فلسطینی رہتے ہیں انہیں عدالتوں کے ذریعے یہودیوں کی ملکیت قرار دے دیا جاتا ہے اور پھر فلسطینیوں کو بزور طاقت بے دخل کر دیا جاتا ہے۔

اس حالیہ بے دخلی کے بعد حماس نے کچھ راکٹ فائر کیے جن میں نوے فیصد راکٹ کو اسرائیل کے حفاظتی حصار نے فضا میں ہی تباہ کر دیا مگر جواب میں اسرائیل نے تابڑ توڑ حملے کیے اور پھر سیکڑوں کی تعدادمیں بموں اور راکٹوں کی بارش فلسطین کے رہائشی اور تجارتی علاقوں پر کردی جس سے بڑی تباہی اور بربادی ہوئی۔

اب جب غزہ کے فلسطینی اپنے گھروں کو واپس آرہے ہیں تو انہیں تباہ شدہ مکانوں اور آتش زدہ سامان کے علاوہ کچھ نہیں مل رہا۔ اصل بات یہ ہے کہ فلسطینی عوام کو انصاف فراہم کیا جائے یعنی اسرائیل کی جارحیت اور مظالم بند کرنے کے لئے عالمی برادری آگے آئے اور اسرائیل کومجبور کرے کہ وہ اب ایسے اقدام نہیں اٹھائے گا۔

یاد رہے کہ حماس نے 2007 ء میں غزہ کا انتظام سنبھال لیا تھا اور فلسطینی دو حصوں میں بٹ گئے تھے ایک حصہ یاسر عرفات کے جانشین محمود عباس کے زیر اثر دریائے اردن کے مغربی کنارے پر آباد ہے ا ور دوسرا حصہ غزہ کی پٹی میں مشتمل ہے جہاں حماس کا اختیار ہے۔

اس نئے تنازع کے آغاز میں اسرائیل نے جن علاقوں سے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالا وہ غزہ میں نہیں بلکہ ”شیخ جراح“ کے علاقے میں اور مسجد اقصی اسلام کی مقدس مساجد میں ہے اور اسے قبلہ اول بھی کہا جاتا ہے۔

اسرائیل نے اس طرح کے حملے اکیسویں صدی میں بھی بار بار کیے ہیں جیسے 2008 ء اور 2014 ء میں شدید بمباری کر کے سیکڑوں فلسطینی شہریوں کو ہلاک اور ہزاروں کو زخمی کر دیا گیا تھا جس کے بعد تباہ شدہ مکانوں کو بنانے میں فلسطینیوں کو برسوں لگ گئے تھے مگر اب پھر فلسطینی اپنے تباہ مکانوں کی تعمیر نو میں لگ جائیں گے۔

اسرائیل کے حالیہ حملے رکوانے میں امریکی صدر جو بائیڈن اور مصر کے صدر جنرل سیسی نے اہم کردارادا کیا ہے مصر اس پورے خطے میں امریکا کا قریبی ساتھی رہا ہے اور مصری فوج کے حکمران انور سادات اور حسنی مبارک سے لے کر جنرل سیسی تک سب امریکا کا دم بھرتے رہے ہیں۔ ایک دور تھا کہ 1950 ء اور 1960 ء کے عشروں میں مصر میں جمال عبدالناصر جیسے قوم پرست اور سوشلسٹ خیالات والے لوگ برسراقتدار تھے لیکن 1970 ء کے بعد اس خطے میں بنیادی تبدیلی آئی جس میں مصرکی فوج نے بڑا کردار ادا کیا اور اسرائیل سے مفاہمت کی راہ اپنائی جس کا بڑا نقصان فلسطینی عوام کو ہوا۔

اب جو بائیڈن اسرائیلی حملے رکوانے کا سہرا اپنے سر تو باندھ رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکا حماس کے حملوں سے اسرائیل کے دفاع کی مکمل حمایت کرتاہے جنہوں نے اسرائیل میں بے گناہ افراد کی جانیں لی ہیں۔ لیکن بائیڈن اس بات کی مذمت نہیں کرتے کہ اسرائیل ایک یہودی کے جواب میں دس سے بیس گنا زیادہ فلسطینی شہریوں کو ہلاک کردیتا ہے جو زیادہ تر بے گناہ ہوتے ہیں۔ امریکا کو اسرائیلی کی بے گناہی کا پختہ یقین ہوتاہے مگر وہ کبھی فلسطینی عوام کو بے گناہ قرار نہیں دیتا بلکہ اسرائیل کے ”دفاع کے حق“ کا تحفظ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے اور اسرائیل کو بھاری مالی اور فوجی امداد دیتا ہے۔

حالیہ حملوں کے بعد امریکا میں یہ تبدیلی دیکھی گئی ہے کہ امریکا کی نوجوان نسل نے فلسطینی عوام کے ساتھ خاص ہم دردی کا اظہار کیاہے۔ خود برسراقتدار ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر اس بات پر خاصی گفتگو ہو رہی ہے۔ پہلے روایتی طور پر تقریباً تمام امریکی چاہے وہ ری پبلکن ہوں یا ڈیموکریٹ، اسرائیل کے حامی تھے مگراب امریکی رائے عامہ میں بھی خاصی ڈرامائی تبدیلی آ رہی ہے جس کا اظہار مختلف جائزوں میں کیا گیا ہے ۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے اکثر نوجوان رکن فلسطینیوں کے لیے ہم دردی کا برملا اظہار کرنے لگے ہیں لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ خود صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملاہیرس اس تنازع پرروایتی نقطہ نظر رکھتے ہیں اور اسرائیل کی برملا حمایت کرتے نظرآتے ہیں اس سلسلے میں کملا ہیرس تو دو قدم آگے بڑھ کراسرائیل کی پشت پناہی کرر ہی ہیں اور بار بار کہہ رہی ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔

صدر اور نائب صدر کے رویے سے ہٹ کر ڈیموکریٹک پارٹی میں ہم آہنگی نظر نہیں آ رہی، کیونکہ کئی ڈیموکریٹ ارکان غزہ اور غرب اردن میں رہنے والے فلسطینی مظلوموں کی حالت کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ یہ ڈیموکریٹ اسرائیلی حکمت عملی کے ناقد ہیں اور اسے فلسطین کی حالت زارکا بنیادی ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ امریکی عوام کا سب سے نمائندہ ادارہ کانگریس ہے جس میں روایتی طور پر اسرائیل کی غیر مشروط حمایت ہوتی رہی ہے۔

لیکن اکیسویں صدی کے پہلے بیس سال میں امریکی کانگریس کی ساخت میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ پہلے یہ ادارہ بڑی حد تک سفید فام امریکیوں پر مشتمل تھا جو زیادہ تر قدامت پسند اور اسرائیل کے حامی تھے مگر پچھے دو عشروں میں کانگریس میں طرح طرح کے دیگر ارکان منتخب ہو کر پہنچے ہیں اور ان کا پس منظر بھی سفید فام اکثریت سے خاصا مختلف ہے۔

اس نئی رنگا رنگی کے باعث اب امریکی کانگریس کی یکساں سوچ میں بھی دراڑیں پڑ رہی ہیں، گو کہ یہ ابھی بہت کمزور آوازیں ہیں اور مجموعی امریکی روئیے کی غمازی نہیں کرتیں جس سے اسرائیل کو کوئی بڑا خطرہ لاحق ہو لیکن پھر بھی ان ابتدائی آوازوں کا کچھ مثبت ا ثر پڑ رہا ہے۔

اب 2021 ء میں کانگریس کے دو ایوانوں یعنی ایوان نمائندگان جسے قومی اسمبلی کہا جاسکتا ہے اور ایوان بالا یعنی سینیٹ کے تقریباً ایک چوتھائی ارکان سفید فام نہیں ہیں اوران کا تعلق سیاہ فام یا ہسپانوی اور ایشیائی برادریوں سے ہے۔ یاد رہے کہ صرف بیس برس قبل دو ہزار میں یہ تعداد بمشکل دس گیارہ فیصد تھی جبکہ 1945 ء میں صرف ایک فیصد تھی اس طرح اگلے دس بیس سال میں عین ممکن ہے کہ سفید فاموں کی نمائندگی کانگریس میں نصف یا اس سے بھی کم ہو جائے۔

اب کانگریس میں فلسطینی نژاد امریکی راشدہ طیب بھی ہیں اور صومالیہ کی تارک وطن امریکی الہان عمر بھی شامل ہیں۔ پھر ایک اور بڑی سرگرم خاتون الیگزینڈریا اوکاژیو کارتیز بھی ہیں جوایک اسرائیل کے حامی کو شکست دے کر کانگریس میں منتخب ہوئی ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے سر پہ سہرا ضرور بندھتا ہے کہ اس نے ایسے مختلف پس منظر رکھنے والے ا رکان کو کانگریس میں بھیجا ہے۔

اسی طرح نوجوان ارکان کے علاوہ نسبتاً بڑی عمر کے لوگ بھی ہیں جن میں برنی سینڈرز سرفہرست ہیں گو کہ وہ بھی اپنے ابتدائی سیاسی کردار میں اسرائیل کے حامی تھے مگر بتدریج ان کے رویئے ا ور سوچ میں تبدیلی آ گئی اور اب وہ فلسطینی مسائل پر واضح موقف رکھتے ہیں اور فلسطینی عوام کی حالت زار پر گول مول انداز میں نہیں بلکہ براہ راست طریقے سے گفتگو کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اپنے بہت اچھے منصوبے اور تجاویز پیش کرنے کے باوجود سینڈرز کا صدارتی امیدوار نہ بن سکنا اس بات کاثبوت تھا کہ ان کے فلسطینی موقف کی انہیں سزا دی گئی ہے، کیونکہ کوئی بھی امریکی عہدیدار اس طرح کھل کراسرائیل کی مذمت نہیں کرتا جیسے سینڈرز نے کی تھی اور یہودی لابی کوناراض کر دیا تھا۔

گزشتہ دنوں بھی سینڈرز کھل کراسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی مذمت کرتے رہے اور ان پر نسل پرست اور آمرانہ رویوں کا الزام لگایا بلکہ سینڈرز اپنے اخباری کالم میں بھی اسرائیل پر شدید تنقید کی اور اسے غیر جمہوری ملک کہا۔

لیکن حالیہ حملوں کے دوران امریکاکا روایتی کردار حاوی رہا جب جو بائیڈن انتظامیہ نے بھی تقریباً ٹرمپ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کومنظور ہونے سے روکا اور اب تو بائیڈن کی نیتن یاہو سے ٹیلی فون بات چیت کے متن بھی سامنے آ گئے ہیں جن میں بائیڈن نے اسرائیل پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ اس کے دفاع کے حق پر بار بار زور دیا اورنہ ہی امریکا نے اسرائیلی امداد بند کرنے یا کم کرنے کا کوئی اشارہ دیا یعنی یہ پیغام دیا کہ اسرائیل چاہے جتنی بھی بربریت سے کام لے امریکا اس کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ اسرائیل کو پون ارب ڈالر کا اسلحہ بیچنے کے لئے امریکی اداروں کو اجازت دی تھی جس سے بہت سے لوگ جو بائیڈن کی اسرائیلی پالیسی میں تبدیلی کی توقع کر رہے تھے انہیں شدید مایوسی ہوئی۔

جب اسرائیل فلسطینی علاقوں پر حملے کر رہا تھا تو اسی وقت یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ دو بڑے با اثر اسلامی ممالک یعنی ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں۔

دس مئی کو ایران کی حکومت نے عوامی سطح پر پہلی بار اس بات کوتسلیم کیا کہ اس نے سعودی عرب کے ساتھ سفارتی سطح پر بات چیت کا آغاز کر دیاہے۔ یہ بات پچھلے چالیس سال میں بڑی مایوس کن رہی ہے کہ ایک طرف اسرائیل نے تقریباً تمام عرب ممالک کو کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ بار بار نشانہ بنایا ہے، جب کہ امیر ترین عرب ممالک کا اسرائیل کے خلاف کچھ کرنے کے بجائے ایران کواپنادشمن سمجھتے رہے ہیں۔

ایران سعودی تنازع کا سب سے بڑا فائدہ خود اسرائیل نے اٹھایا ہے اور سب سے بڑا نقصان فلسطینی عوام کا ہوا ہے۔ ایران اس خطے میں بلکہ پورے عالم اسلام میں فلسطینی عوام کا بہت بڑا حامی اور مددگار رہا ہے مگر وہ بھی اتنا طاقت ور نہیں کہ اسرائیل کے خلاف کوئی بڑی فوجی کارروائی کرسکے۔ اسی طرح مسلم ملکوں کی بڑی فوج جس کی قیادت پاکستانی جنرل راحیل شریف کے سپرد تھی ان حالیہ حملوں میں کہیں نظرنہیں آئی۔

اب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کے علاوہ دیگر چھوٹی تنظیموں کے قائم کردہ سرنگوں کے جال کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ ان دعوؤں کی تصدیق مشکل ہے، کیوں کہ زمین پر موجود عمارتوں اور مکانوں کی تباہی تو دیکھی جا سکتی ہے مگر زیر زمین نقصان کا اندازہ لگانا خاصا مشکل ہے۔ اطلاعات کے مطابق حماس کے لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ اسرائیل نے زیر زمین سرنگوں تک کو بڑی مہارت سے اور ٹھیک نشانہ لے کر تباہ کیا ہے، جس سے اسرائیلی جنگی ٹیکنالوجی کے ترقی یافتہ ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان حملوں کے بعد بھی غزہ کے لوگ حماس کے حامی ہیں۔

دراصل حماس کا پیغام فلسطینی عوام کے لئے بڑا سادہ سا ہے کہ وہ یروشلم اور بیت المقدس کے لئے مرتے دم تک لڑتے رہیں گے۔ اس پیغام میں اس لئے جان ہے کہ الفتح جس کی قیادت پہلے یاسرعرفات اور پھر محمود عباس کرتے رہے ہیں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگ ختم کر کے مفاہمانہ رویہ اپنایا، جس کے بعد توقع تھی کہ اسرائیل اس مسئلے کے دو ریاستی حل کی طرف پیش رفت کرے گا کیوں کہ 1994 ء کے اوسلو معاہدوں کے تحت فلسطینی اتھارٹی کو مقامی طور پر بلدیاتی سطح کی خود اختیاری دے دی گئی تھی اور فلسطین کے علاقوں، غزہ اور مغربی کنارے سے اسرائیلی افواج نکال لی گئی تھیں۔ لیکن اس کے بعد یہ دیکھا گیا کہ اسرائیل نے تقریباً تمام آمدوروفت کے راستوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھا اور دو ریاستی حل کی طرف بھی کوئی پیش رفت نہیں ہونے دی، جس سے امن کے عمل کو نقصان پہنچا ہے۔ اب بھی جب حماس کا کوئی جنگجو مارا جاتا ہے تو عوام ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا اور کیا ہونا چاہیے۔ لگتا ایسا ہے کہ آگے بھی اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے جس طرح ماضی میں اسرائیل کے بڑے بڑے جنگی جرائم کو نام نہاد ”عالمی برادری“ نے نظرانداز کیا ہے اسی طرح اس بار بھی کچھ عرصے بعد لوگ ان حملوں کو بھول جائیں گے۔ بے چارے فلسطینی ایک بار پھر تعمیر نو میں لگ جائیں گے اور ممکن ہے چند سال بعد یہ تعمیر نو بھی ایک بار پھر اسرائیل کے ہاتھوں تباہ ہو جائے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ اسرائیل پر جنگی جرائم کے مقدمات چلائے جائیں۔ نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دیا جائے۔ اسرائیل پر اسی طرح کی تجارتی اور اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں جیسی جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت پر لگائی گئی تھیں۔ لیکن پوری دنیا تو چھوڑیئے صرف عالم اسلام بھی ایسی پابندیاں نافذ کرنے کے حق میں متفق نہیں ہے۔

حال ہی میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے مکمل سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں جو کہ بذات خود بری بات نہیں۔ سفارتی روابط رہنے چاہئیں لیکن ساتھ ہی دنیا کو ایک مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے تا کہ اسرائیل کو ان بار بار کے حملوں سے باز رکھا جا سکے اور فلسطین مسئلے کا دو ریاستی حل نکل سکے۔

خان یونس کے جنازے

اگر غزہ کی پٹی پر نظر ڈالی جائے تو جنوبی علاقے میں جو مصر کے قریب ہے ایک شہر دکھائی دیتا ہے جس کا نام خان یونس ہے۔ یہ بمشکل چار لاکھ آبادی والا شہر بحر روم سے صرف چارکلو میٹر پر واقع ہے۔ فلسطین کی قانون ساز کونسل میں یہاں سے پانچ نمائندے جاتے ہیں۔ یہ کونسل فلسطین اتھارٹی کا قانون ساز ادارہ ہے، جس میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی دونوں جانب سے کل ایک سو بتیس ارکان شامل ہوتے ہیں۔ 2006 ء میں ہونے والے آخری انتخابات میں حماس کے 74 ارکان جیتے تھے، مگر اس کونسل کی سرگرمیاں 2007 ءمیں معطل کر دی گئی تھیں۔

مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ مجموعی طور پر غزہ کی پٹی میں حماس کی زیادہ حمایت ہونے کے باوجود خان یونس کے علاقے سے 2006 ء کے انتخابات میں تین حماس کے اور دو الفتح کے ارکان منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت خان یونس مکمل طور پر حماس کے قبضے میں ہے اور یہ اس وقت غزہ شہر کے بعد غزہ کی پٹی پر دوسرا بڑا شہر ہے۔ اب اسرائیل کے حالیہ حملوں کے بعد خان یونس کے جنازوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے۔ یہ جنازے میدانوں میں پڑھے گئے اور حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو فلسطین کے جھنڈوں میں لپیٹ کر سپردخاک کیا گیا۔

اس وقت خان یونس ایک بڑی تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے جو بین الاقوامی میڈیا کی نظروں سے تقریباً اوجھل ہے جو زیادہ تر امدادی قافلوں کو دکھا رہا ہے اور تباہی کی مکمل تصویر پیش کر رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق خان یونس کی بڑی بڑی شاہراہیں اور گلیاں ملبے سے بند ہو چکی ہیں۔ آمدورفت کے ذرائع اور راستے بہت محدود ہو گئے ہیں۔ اس لئے امدادی سامان پہنچانے میں بھی شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور لوگ ہاتھوں میں سامان اٹھا اٹھا کر ادھر ادھر جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غزہ اور خان یونس میں بلڈوزروں کی تعداد بھی بہت کم ہے جس کے باعث ملبہ ہٹانے کا کام بہت سست رفتاری سے چل رہا ہے۔

خان یونس میں دفنائے جانے والے جنازوں میں سے نو ایسے افراد کے جنازے تھے جو اسرائیل کی جانب سے حماس کی سرنگوں کے جال کو نشانہ بنانے کے باعث جاں بحق ہوئے۔ اسرائیل نے اپنے حملوں کو جائز قرار دینے کے لئے ان سرنگوں پر بھی حملے کیے جو غزہ کی پٹی کو مصر کے علاقے سے ملاتی ہیں اور جہاں سے مبینہ طور پر غزہ کے لوگ چوری چھپے ساز و سامان اور حماس کے لوگ کچھ اسلحہ بھی لے آتے ہیں۔

اسرائیل نے تباہی تو مچادی مگر اہداف حاصل نہیں ہوئے

اسرائیل تباہی میں تو کامیاب ہوا مگر اس کے وہ اہداف حاصل نہیں ہوئے جو وہ حماس کے خاص رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لئے کر رہا تھا۔ مثلاً غزہ میں حماس کے ایک رہنما یحییٰ سنوار حملے رکنے کے اگلے ہی روز اپنے خفیہ مقام سے نکلے اور فاتحانہ انداز میں باہر آئے۔ یحییٰ سنوار ایک ساٹھ سالہ فلسطینی ہیں جواب حماس کے ہنما ہیں۔ انہوں نے 2017 ء میں اسماعیلی ہانیہ سے حماس کی قیادت سنبھالی تھی انہیں امریکی حکومت نے 2015 ء میں دہشت گرد قرار دیا تھا۔

اسماعیلی ہانیہ بھی یحییٰ سنوار کے ہم عمر ہیں جو 2006 ء میں فلسطین کو نسل کے انتخابات میں اکثریت حاصل کر کے وزیراعظم بنے تھے مگر انہیں صدر محمود عباس نے 2007 ء میں برطرف کر دیا تھا۔ کیوں کہ اس وقت الفتح اور حماس میں لڑائی شروع ہو گئی تھی۔ خود محمود عباس اس وقت چھیاسی برس کے ہیں اور پچھلے سولہ سال سے فلسطینی اتھارٹی کے صدر چلے آرہے ہیں اور اس دوران میں کل سات وزرائے اعظم بھگتا چکے ہیں۔

سب سے طویل عرصے وزیراعظم رہنے والے اسلام فیاض تھے جو 2007 ء سے 2013 ء تک چھ سال فلسطین اتھارٹی کے وزیراعظم رہے مگر ان کا محدود اقتدار صرف مغربی کنارے تک محدود تھا، کیوں کہ 2007 ء میں اپنی برطرفی کے بعد اسماعیلی ہانیہ نے حماس کو انتظامی طور پر الگ کر کے غزہ کی پٹی پراپنا اقتدار مستحکم کر لیا تھا۔

یاد رہے کہ 2006 ء میں ہونے والے انتخابات میں حماس نے 74 نشستیں اور الفتح نے 45 نشستیں حاصل کی تھیں لیکن ووٹ کا تناسب حماس کو چوالیس فیصد کے مقابلے میں الفتح کا 41 فیصد تک تھا اور یہ تنازع کی بنیادی وجہ بنا۔ اب اگر فلسطینیوں کو کچھ اسرائیل کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو انہیں باہمی اختلافات بھلا کر مل جل کر کام کرنا ہوگا۔

محمود عباس خاصے بوڑھے ہو چکے ہیں اور انہیں اب الفتح کی قیادت کسی اور کے سپرد کرنی چاہیے۔ حماس کو بھی اپنی جارحانہ پالیسی میں تبدیلی لانی ہو گی، کیوں کہ اسرائیل بہرحال ایک بڑی طاقت ہے جو ہر لڑائی میں فلسطینیوں کو بڑا نقصان پہنچاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments