پاکستان جرمن تعلقات کے ستر سال


بین الاقوامی تبدیل ہوتے حالات ہر لمحہ اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ صورتحال کا نہایت باریک بینی سے مسلسل مطالعہ کیا جاتا رہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی سے بریگزٹ تک اور جی ایس پی پلس سے ایف اے ٹی ایف کے معاملات تک اگر ہم دیکھیں تو ان تمام امور کے اثرات لامحالہ پاکستان پر ضرور مرتب ہو رہے ہیں اور مرتب ہوتے رہیں گے۔ امریکہ جو ہر ملک کا ہمسایہ ہے کہ بعد اس تمام میں یورپ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اور یورپ کی جرمنی اور فرانس قیادت کر رہے ہیں۔

جبکہ جرمنی اور پاکستان کے تعلقات میں اس وقت نہایت اہمیت کا حامل عنصر یہ ہے کہ جرمنی پاکستان کا چوتھا بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے جبکہ یورپ میں پاکستان کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے اور اس برس پاکستان اور جرمنی کے سفارتی تعلقات کی 70 ویں سالگرہ بھی منائی جا رہی ہے۔ جب پاکستان کا قیام معرض وجود میں آیا تو اس وقت دنیا دوسری جنگ عظیم کے بعد کے حالات سے تازہ تازہ نبردآزما ہو رہی تھی۔ سرد جنگ کا زمانہ تھا جرمنی خود مغربی اور مشرقی حصوں میں جنگ کی تباہ کاریوں کے سبب سے تقسیم تھا مگر جرمن قوم میں غلطیوں سے سبق سیکھنے کی صلاحیت موجود تھی لہذا انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کی گئی غلطیوں کو قوم پرستی کی آڑ میں جائز قرار دینے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی جرمن فوج کی اس دوران دی گئی ”قربانیوں“ کے سبب سے اس کی غیر معمولی حیثیت کو تسلیم کیا بلکہ وہ ان دونوں معاملات سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے اور سمجھ گئے کہ اعلان کردہ، تسلیم کردہ آئین پر چلتے رہنے میں ہی قومی بقا اور معاشرتی ترقی کا راز مضمر ہے۔

اس راز کو پانے کے بعد جرمنی دوبارہ سے یورپ میں اپنی اہمیت کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا اور معاملہ صرف یورپ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس کی اہمیت بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جانے لگی اسی دوران پاکستان کے جرمنی سے تعلقات بڑھنے لگے قارئین کے لیے یہ بہت دلچسپ ہو گا کہ پاکستان نے 1963 ءمیں جرمنی کو 20 سال کے لیے پچیس ملین ڈالر کا قرضہ بھی دیا تھا۔ جب طویل آمریت کے سبب سے پاکستان صرف مغربی پاکستان تک محدود ہو گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی صورت میں معرض وجود میں آ گیا تو اس وقت پاکستان کو ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش تھا کہ اس کے جنگی قیدی کیسے واپس لائے جائے؟

ان جنگی قیدیوں میں سے ایک سو پچانوے ایسے افراد تھے کہ جن پر بقول شیخ مجیب اور بھارت کہ جنگی جرائم کے الزامات تھے حالاں کہ دراصل یہ وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے نہایت جاں بازی سے آخری وقت تک مشرقی پاکستان میں پاکستان کا دفاع کیا تھا اور اب اس جان بازی کی سزا دینے کے لئے شیخ مجیب انتظامیہ ادھار کھائے بیٹھی تھی۔ ایسی صورتحال میں اس وقت کے مغربی جرمنی کے چانسلر ولی برانٹ اور ان کے وزیر خارجہ والٹر شیل نے تاریخی کردار ادا کیا تھا انہوں نے اس معاملے کو سلجھانے کی غرض سے ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب سے رابطہ کیا اور شیخ مجیب کو مستقل طور پر یہ سمجھاتے رہے کہ 195 فوجی افسران کے خلاف بنگلہ دیش میں مقدمات چلانے اور سزائیں دینے کے غیرمعمولی منفی نتائج نکلے گے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش ماضی میں ہیں غوطے کھاتے رہیں گیں۔

انہوں نے شیخ مجیب کو دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کے تجربات بالخصوص نیورمبرگ ٹرائلز کی مثالیں دیں کہ ان کی وجہ سے مزید کتنے مسائل جنم لیتے ہیں اور بالآخر جرمنی بنگلہ دیش کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو گیا کہ ان ایک سو پچانوے افراد کو بھی دیگر جنگی قیدیوں کی مانند ہی پاکستان کے حوالے کر دیا جائے اس کے بعد انیس سو ستر کے عشرے میں فوجی تعلقات کی طرف بھی توجہ دی گئی اور دونوں ممالک کی فوجی اکیڈمیوں کے مابین ایک سٹریٹجی اور فوجی تربیت کا معاہدہ ہوا۔

اور اس وقت سے لے کر جی ایس پی پلس سٹیٹس دینے تک جرمنی کا پاکستان کے حوالے سے مثبت کردار ہی رہا ہے جی ایس پی پلس سٹیٹس پاکستان کو 2014 میں ملا تھا اور اس کے بعد پاکستان کی ایکسپورٹ میں 65 فیصد اضافہ ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب آج سے چند برس قبل میں نے جرمنی میں جرمن پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے جنوبی ایشیا سے خطاب کیا اور اس کے بعد بھی متعدد بار جب جرمن اراکین پارلیمنٹ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بار بار یہ بات کی کہ جرمنی نے جنوبی ایشیا کے معاملات میں اپنا وزن صرف پلڑے کے ایک طرف ہی نہیں ڈالا ہے بلکہ پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت، بین الاقوامی تیل کی گزرگاہ اور محل وقوع کی اہمیت سے جرمنی اچھی طرح واقف ہے اور یہی سوال جواب اس وقت ہوئے تھے جب میں جرمنی کی مختلف یونیورسٹیوں میں مختلف اوقات میں جنوبی ایشیا کی صورتحال پر لیکچر دینے گیا تھا اور اسی طرح کے خیالات تب دیکھے تھے جب میں جرمنی سے لیڈر شپ اینڈ سٹرٹیجک افیئرز میں کورس کر رہا تھا۔

جرمنی کی عالمی حیثیت مسلمہ ہے اور پاکستان کے لئے تو خاص طور پر طے شدہ اہمیت ہے کیونکہ اب ہم پر مستقل طور پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے اور اگر خدانخواستہ اس کے نتیجے کے طور پر جی ایس پی پلس چلا گیا تو موجودہ ڈانواں ڈول معیشت کو مزید زبردست جھٹکا لگ جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے بدلتے حالات بدترین حالات کا پیش خیمہ محسوس ہو رہے ہیں کہ جن کے لامحالہ اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ جرمنی ایک ایسا ملک ہے کہ اس کے اس خطے میں وہ مفادات نہیں ہے جو امریکہ کے ہیں اس لیے وہ اس خطے کو اس نظر سے نہیں دیکھتا کہ جیسے کہ کہا ہے کہ وہ ایک پلڑے میں اپنا سارا وزن نہیں ڈال دیتا ہے۔ یہ ضروری بھی ہے اور ممکن بھی ہے کہ جرمنی سے پاکستان کے معاشی اور اسٹریٹجک تعلقات کو مزید وسعت دی جائے تاکہ ہم یورپ میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مضبوط آواز کو اپنے لیے مزید مضبوط کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments