بادشاہ فاروق اور ان کے ہٹلر سے مبینہ روابط: جلاوطنی، پراسرار موت اور رات کے اندھیرے میں تدفین، مصر کے آخری بادشاہ کی داستان


 

فاروق

سنہ 1936 میں شہزادہ فاروق اپنے والد اور مصر کے بادشاہ فواد اول کے جانشین ہونے کی حیثیت سے ان کا تخت و تاج سنبھالنے کے لیے برطانیہ سے مصر واپس پہنچے تھے۔

شہزادہ فاروق کے والد فواد اول محمد علی خاندان کے سلسلے کے گیارہویں بادشاہ تھے۔

سنہ 1936 میں شروع ہونے والے شہزادہ فاروق کے 16 سالہ دور کا خاتمہ 23 جولائی 1952 کو اس وقت ہوا جب مصر کی فوج نے ان کے خلاف ایک تحریک چلائی۔ اس فوجی تحریک کے نتیجے میں فواد اول نے اپنے نوزائیدہ بیٹے احمد فواد کے حق میں تخت سے دستبرداری کا اعلان کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہزادہ فاروق کے بیٹے احمد فواد کی عمر اس وقت صرف چھ ماہ تھی۔

تخت سے اس دستبرداری کے فقط ایک برس بعد ہی مصر میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور 18 جون 1953 کو یہاں جمہوری نظام رائج کر دیا گیا۔

شاہ فاروق کی غیرمعمولی کہانی

شاہ فاروق 11 فروری 1920 کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پیدا ہوئے اور 18 مارچ 1965 کو اٹلی کے دارالحکومت روم میں 45 سال کی عمر میں انھوں نے وفات پائی۔

شاہ فاروق نے اپنی تعلیم مصر اور انگلینڈ سے حاصل کی اور اپریل 1936 کے آخر میں اپنے والد، شاہ فواد اول کی وفات کے بعد، 16 برس سے کچھ زیادہ کی عمر میں تخت نشین ہوئے۔

بادشاہ بننے کے بعد شاہ فاروق نے ’الوفد‘ نامی پارٹی کے ساتھ دشمنی کے اس سلسلے کو برقرار رکھا جس کی ابتدا ان کے والد نے کی تھی۔ الوفد پارٹی مصر کی ایک بڑی مقبول جماعت تھی اور شاہ فاروق کا اُن سے بہت سے معاملات پر جھگڑا ہوا۔

فاروق اپنی اہلیہ کے ہمراہ

فاروق اپنی اہلیہ کے ہمراہ

الوفد سے اختلافات

نوجوان بادشاہ فاروق اول نے بادشاہت ملتے ہی الوفد کے رہنما النحاس پاشا اور مصر کے وزیر اعظم سے بادشاہ کے اختیارات کو محدود کرنے اور بین الاقوامی پالیسیوں سمیت متعدد امور اختلاف کیا۔

ڈاکٹر امل فہمی اپنی کتاب ’بادشاہ فاروق اور اسلامی خلافت‘ میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے مذہب اسلام کو اپنے محل میں جگہ دی تاکہ عوام میں اپنی مقبولیت اور سیاستدانوں بالخصوص الوفد پارٹی پر قابو پانے کے لیے اس کا (مذہب کا) بے دریغ استعمال کر سکیں۔

اس کتاب کے مطابق شاہ فاروق نے اپنی بادشاہت کے پہلے دن ہی سے خلافت کے آئیڈیے کو فروغ دینے کا کام شروع کر دیا اور محل کی جانب سے ان کی تاجپوشی کی رسم کو ایک اسلامی جشن کی صورت میں کرنے کی کوشش کی لیکن الوفد پارٹی کی قیادت خاص طور پر اس کے قائد مصطفی النہاس نے اصرار کیا کہ نوجوان بادشاہ کی تاجپوشی آئین کے متن کے مطابق کی جائے۔ بعدازاں اس تقریب کا انعقاد نہیں کیا جا سکا جو بادشاہ فاروق اپنے لیے منعقد کرنا چاہتے تھے۔

بادشاہ نے اس وقت ملک میں اپنی زبردست مقبولیت اور بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے درمیان تناؤ کی فضا (جو پہلی جنگ عظیم کے بعد اور دوسری جنگ عظیم کے قبل موجود تھا) کا فائدہ اٹھایا اور بلآخر دسمبر 1937 میں الوفد پارٹی کا تختہ الٹ دیا گیا۔

مصطفیٰ النہاس

1939 میں شروع ہونے والی دوسری جنگ عظیم

سنہ 1939 میں دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے کے بعد مصر میں برطانوی افواج کی موجودگی کے باوجود شاہ فاروق نے اپنی غیرجانبداری کے پوزیشن کو برقرار رکھنے کی کوشش کی، لیکن فروری 1942 میں انگریزوں نے انھیں الوفد کے قائد مصطفی النہاس کو دوبارہ وزیر اعظم مقرر کرنے پر مجبور کرنا شروع کر دیا۔

مصطفی النہاس کا رجحان برطانیہ کی طرف تھا۔ اور پھر اسی برس انتخابات کروائے گئے اور الوفد پارٹی نے ایک زبردست فتح سمیٹی۔

اکتوبر 1944 میں مصطفی النہاس نے ’سکندریہ پروٹوکول‘ پر بات چیت کی جس کے باعث اگلے ہی برس عرب لیگ کے قیام کی داغ بیل پڑی اور شاہ فاروق اپنے آپ کو اس کا سربراہ مقرر کرنا چاہتے تھے۔

سنہری چالیں اور گھنٹے

دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر برطانوی فوج کے ساتھ شاہ فاروق کے تعلقات کے حوالے سے بی بی سی نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 1945 کے آغاز میں یورپ میں جنگ ختم ہونے والی تھی اور شمالی افریقہ میں جرمن فوج کو شکست دے کر نکالا جا چکا تھا۔

18 فروری 1945 کو برٹش نیوی کمانڈ نے سکندریا میں شاہی بحریہ کے ایک طیارہ بردار جہاز کا دورہ کرنے کے لیے شاہ فاروق کی درخواست منظور کی۔ طیارہ بردار جہاز ’ایچ ایم ایس ہنٹر‘ ایک اعلی درجے کا برطانوی جنگی جہاز تھا، لہذا اس کے کیپٹن ٹورلس کو بادشاہ فاروق کو تفریح فراہم کرنے اور یہ بتانے کو کہا گیا کہ طیارہ بردار بحری جہاز کیسے کام کرتا ہے۔

ایچ ایم ایس ہنٹر

ایچ ایم ایس ہنٹر سکندریہ کی بندرگاہ سے روانہ ہوا اور 807 ویں سکواڈرن نے مصری بادشاہ کے سامنے اپنی بھرپور جنگی فن کا مظاہرہ کیا۔

پائلٹوں نے حیرت انگیز کرتبوں کا مظاہرہ کیا اور رات کے وقت وہ ایک نائٹ کلب میں بادشاہ کے مہمان بن کر رہے۔ ہر پائلٹ کو بادشاہ کی جانب سے سنہری کلائی کی گھڑی وصول کی جبکہ عملے کے افراد کو بھی انعام سے نوازا گیا۔

بی بی سی کی جانب سے جنگ عظیم دوئم کی شائع شدہ دستاویزات کے مطابق اس واقعے کے اگلے ہی روز ایچ ایم ایس ہنٹر بحر احمر کے پار جاپان کی طرف روانہ ہوا۔

لیکن کیا شاہ فاروق انگریزوں کو پسند کرتے تھے؟ یا دراصل وہ دوسری جنگ عظیم میں اپنی غیر جانبداری کا اظہار کرنے کے خواہاں تھے؟ محقق رامی رافعت نے بعد میں آنے والی اپنی کتاب میں تحریر کیا کہ نازی جرمنی کی شکست کے بعد جرمن وزارت خارجہ کے چند دستاویزات اتحادی افواج کے ہاتھ لگے جن میں بادشاہ فاروق کے جرمنوں کے ساتھ تعلقات کا انکشاف تھا۔

سنہ 1948 میں امریکہ نے اقوام متحدہ کو 11 صفحات پر مشتمل ایک میمورنڈم پیش کیا جس کا عنوان تھا ’مصری بادشاہ فاروق کی نازیوں اور ان کے اتحادی کے ساتھ سازباز کا ریکارڈ۔‘

مؤرخ محمد اودھ نے اپنی کتاب ’مصر میں کس طرح بادشاہت کا خاتمہ ہوا؟‘ میں ہٹلر اور شاہ فاروق کے درمیان بالواسطہ رابطوں کا حوالہ دیا ہے، جس کے مطابق اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ اگر جرمنی کی افواج برطانوی افواج کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو مصری بادشاہ جرمنی کے لیے لاجسٹک اور سیاسی مدد فراہم کریں گے تاکہ نہر سویز اور دیگر ذرائع جیسا کہ خلیج فارس اور ایران میں تیل تک جرمنی کی رسائی ممکن بنائی جا سکے۔

1948 کی جنگ

1948 کی جنگ

سنہ 1948 میں مصر کو ایک نئی قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کے ہاتھوں ایک ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور اس فوجی شکست نے خاص طور پر بہت سارے مصری فوج کے افسروں کو ناراض کیا اور کچھ ہی عرصے بعد یعنی 1952 میں فوجی افسروں نے بلآخر فاروق کا تختہ پلٹ دیا۔

اس شکست سے پیدا ہونے والے غصے کو بڑھاوا مصنف اور صحافی احسان عبدالقدوس کی ایک شائع کردہ رپورٹ نے دیا جس میں اس شکست میں ’کرپٹ ہتھیاروں‘ کا تذکرہ کیا گیا اور کہا گیا کہ 1948 میں فلسطینی جنگ میں مصری فوج کو دھوکہ دیا گیا تھا اور فوج کو ملنے والے ہتھیاروں اور گولا بارود میں بدعنوانی ہوئی اور یہی شکست کا باعث بنی۔

لیکن کیا واقعی اس نوعیت کا کوئی مسئلہ درپش ہوا تھا؟ مصر کے سابق ملٹری انٹیلیجنس افسر ڈاکٹر ثروت اوکاشا نے اپنی کتاب ‘سیاست اور ثقافت’میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سنہ 1948 میں فلسطین میں مصری فوج کی شکست کی وجہ کے طور پر اسلحہ اور گولہ بارود میں ہونے والی بدعنوانی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔

انھوں نے لکھا کہ حقیقت یہ تھی کہ گولہ بارود پیک کرنے میں غلطی ہوئی جس میں کافی نقصان ہوا اور ایسا ہی حادثہ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی فوج کو بھی پیش آیا تھا۔

میجر جنرل محمد نجیب نے اپنی کتاب ’مائی ورڈ فار ہسٹری‘میں لکھا کہ ’میں بہت سے دیگر لوگوں کی طرح اس معاملے پر پھسلنا نہیں چاہتا۔ ہتھیاروں اور گولہ باردو میں بدعنوانی کو بطور پراپیگنڈا استعمال کیا گیا، اور اس پورے معاملے کا اختتام ملزم کی بیگناہی ثابت ہونے پر ہوا۔‘

قصہ مختصر اس جنگ کی کوکھ سے اور بدعنوانی کی کہانیوں سے جمال عبدالناصر کی سربراہی میں ایک تحریک نے جنم لیا جس نے بعد میں شاہ فاروق اور مصر سے بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔

جلاوطنی اور موت

اٹلی میں جلاوطنی کے دوران اپنی گرل فرینڈ کے ہمراہ

فاروق کی حکمرانی 16 سال تک برقرار رہی اور پھر فوج نے ایک تحریک کے ذریعے شاہ فاروق کو 23 جولائی 1952 کو تخت و تاج اپنے بیٹے احمد فواد کے نام کرنے پر مجبور کیا۔ احمد فواد اس وقت چھ ماہ کے تھے۔

26 جولائی 1952 کی شام شاہ فاروق شاہی کشتی پر سوار ہو کر مصر سے روانہ ہو گئے۔ یہ وہی کشتی تھی جس پر شاہ فاروق کے دادا کیدیو اسماعیل مصر سے روانہ ہوئے تھے جب انھیں اقتدار سے محروم کیا گیا تھا۔

اس تناظر میں برطانوی مؤرخ جیمز بار نے کتاب ‘ماسٹرز آف دی ڈیزرٹ’ لکھی ہے جس میں انھوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد مصر سمیت اس خطے میں امریکہ اور برطانیہ کی اپنی اپنی برتری حاصل کرنے کی داستانیں بیان کی گئی ہیں۔ اس کتاب میں مشہور امریکی جاسوس کم روز ویلٹ کے ساتھ مصر کے افواج کے افسران کے تعلقات کی کہانی بھی بیان کی گئی ہے کہ کس طرح فوجی افسران کے ایک گروپ نے قبرص میں امریکی جاسوس کی ملاقات کی تھی۔

اور یہ ملاقات بادشاہ فاروق کی حکومت کا تختہ الٹنے سے کئی مہینوں پہلے ہوئی تھی۔ اپنے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد شاہ فاروق نے کہا تھا کہ دنیا کی بادشاہت ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی ماسوائے تاش کے چار بادشاہ اور برطانیہ کی بادشاہت کے۔

مصر سے جلاوطنی کے بعد شاہ فاروق پہلے تو مناکو گئے اور پھر اٹلی کے دارالحکومت روم میں چلے گئے۔

18 مارچ 1965 کو شاہ فاروق روم کے ایک ریستوارن میں رات کا کھانا کھانے کے فوراً بعد انتقال کر گئے، ان کے خاندان کی خواہش پر ان کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا جس کے باعث یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کی موت کی وجہ کیا تھی۔

مصر کے شاہی خاندان کے مؤرخ ڈاکٹر ماجد فرگ نے نو نومبر 2018 کو مصری اخبار ’الاحرام‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ شاہ فاروق کی وفات 18 مارچ 1965 کی رات ہوئی۔ انھوں نے لکھا کہ شاہ فاروق کو مصری انٹیلیجینس نے قتل کیا تھا کیونکہ مصری انٹیلیجینس ان کی وطن واپسی کی افواہوں سے خوفزدہ تھی۔

انھوں نے لکھا کہ مصری انٹیلیجینس کے ایک اہلکار البغدادی نے اُسی ریستوراں میں ایک ماہ تک ویٹر کی حیثیت سے کام کیا جہاں شاہ فاروق جایا کرتے تھے۔ ان کا دعوی تھا کہ شاہ فاروق کو زہر دیا گیا تھا۔

شاید ان کے خاندان نے اس وجہ سے پوسٹ مارٹم کی درخواست نہیں کی ہو گی تاکہ شاہ فاروق کی وصیت کے مطابق ان کی میت ان کے آبائی ملک دفنائی جا سکے اور کوئی نیا جھگڑا کھڑا نہ ہو جائے۔

ان کی میت کو مصر لانے اور دفنانے کی ابتدائی درخواست صدر جمال عبدالناصر نے مسترد کر دی تھی تاہم بعد میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز کی درخواست پر رات کی تاریکی میں سکیورٹی گارڈز کے پہرے میں مصر میں دفنا دی گئی۔ بعدازاں ان کی باقیات کو شاہی قبرستان میں ان کے والد شاہ فواد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp