حضرت دائودؑ اور ایڈورڈ سعید ؔ کے ہاتھوں کے پتھر


گزشتہ دنوں فلسطین کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں سوچتے پڑھتے، دو منظر ذہن میں ابھرے۔ جن کا تعلق تاریخی مذہبی اساطیر سے بھی ہے اور موجودہ زمانے سے بھی۔ ایک وہ منظر ہے جس میں قدیم زمانے کے فلسطینیوں کے ظلم کے نتیجہ میں اسرائیلیوں، اور فلسطینیوں کی جنگ میں دیو قامت فلسطینی جنگجو، جالوت دست بدست مقابلہ کے لیے للکارتا ہے۔ اسرائیلیوں کے بادشاہ طالوت کی طرف سے نوجوان داؤدؑ، آگے بڑھتے ہیں۔ بادشاہ انہیں زرہ بکتر دیتا ہے، وہ اسے نظر انداز کر کے ایک بڑی سے غلیل میں پتھر باندھ کر جالوت کے سر کو نشانہ بنا کر اسے قتل کر دیتے ہیں۔ یہ صرف ظلم و استبداد کے خلاف ہی جنگ نہیں تھی، بلکہ اس میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے عقائد اور مذاہب میں بھی مقابلہ تھا۔ اس کے بعد داؤدؑ اسرائیل کے عظیم بادشاہ بنتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں جالوت کے قتل کا منظر، ممتاز ترین مصوروں اور مجسمہ سازوں نے اپنے شاہ پاروں میں امر کر دیا ہے۔

ہزاروں سال کے بعد انقلابات زمانہ ایک نیا منظر بناتے ہیں۔ مختلف زمانوں اور صدیوں پر محیط عرصے میں بنی اسرائیل کا زوال ہوتا ہے۔ ان کا نگر یروشلم سو بار لوٹا جاتا ہے اور انہیں ملکوں ملکوں دربدر ہو کر ذلت اٹھانی پرتی ہے۔ ان پر یورپی قومیں اور ہٹلر ظلم توڑتا ہے۔ اور وہ اس ظلم عظیم کا شکار ہوتے ہیں جسے ہولوکوسٹ کہا جاتا ہے۔

قدیم فلسطینی کنعان کی سر زمین پر موجود تو رہتے ہیں، لیکن ان پر حکمرانی کرنے والوں میں، وقتاً فوقتاً، رومن، عیسائی، عرب، اور ترک سلطنتیں شامل ہو جاتی ہیں۔ ان کے مذہب بدلتے رہتے ہیں۔ یوں کنعان کی سر زمین پر جو اب فلسطین کہلاتی ہے، مخلوط ثقافتیں پروان چڑھتی ہیں۔

وقت پھر کروٹ لیتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔ بنی اسرائیل جو یہود بھی کہلاتے ہیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور امریکہ کی مدد سے فلسطین کو کاٹ کر ہزاروں سالوں کے بعد اسرائیلی مملکت قائم کر لیتے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ پورا یورپ ان کے انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ اب ہولوکوسٹ، ظلم اور انسانی حقوق کی پائمالی کا استعارہ بن جاتا ہے۔ مشرق وسطٰی، بحیرہ روم، اور نہر سوئز کی عالمی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ساری عالمی طاقتیں اسرائیل کے ساتھ اپنے تزویری اتحاد قائم کرتی ہیں اور اس کے تحفظ کی ضامن بن جاتی ہیں۔

دوسری جانب فلسطین میں آباد مسلمان، عیسائی، اور غیر اسرائیلی قومیں جبر و استبداد کا نشانہ بنتی ہیں۔ ان کو در بدر کیا جاتا ہے۔ قید و بند ان کا مقد ر بنتی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کے ساتھ ساتھ ان کو قدم قدم پر ذلتوں رسوائی اٹھانا پڑتی ہے۔ اقوام عالم ان کے حقوق کو نظر انداز کرتی ہیں، کیونکہ یہ حقوق عالمی طاقتوں کے مفادات میں شامل نہیں ہوتے۔

اسرائیل کے قیام کے تقریباً سولہ سال بعد فلسطین کی آزادی کی دو اہم تحریکیں ابھرتی ہیں۔ ایک پی ایل او، اور دوسری پی ایف ایل پی۔ پی ایل او کے رہنما ایک مسلمان یاسر عرفات تھے۔ اور پی ایف ایل پی کے رہنما جارج حباش تھے، جو ایک عیسائی تھے۔ یوں فلسطینی حقوق اور آزادی کی جد و جہد میں مذہب سے قطع نظر مختلف حریت پرست یکجا تھا۔ انہوں نے کبھی اسرائیل کے خلاف کسی مذہبی جہاد کا اعلان نہیں کیا۔ بلکہ ساری جد و جہد مساوی حقوق اور مساوی انسانی حرمت کی بنیاد پر جاری رکھی۔ ان کی جد و جہد سیاسی بھی تھی اور وقتاً وقتاً پر تشدد بھی۔ یہ اسرائیل کے قیام کی تحریک ہجانہ ہی کی طرح تھی جو تشدد کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی تھی۔

اسرائیلی کے اتحادیوں نے فلسطینی آزادی کی تنظیموں کی سیاسی حیثیت کو نظر انداز کر کے صرف ان کی تشدد کی کاروائیوں کا چرچا کیا اور انہیں دنیا بھر میں دہشت قرار دیا۔ ایک مدت تک عالمی طاقتیں ان کے حقوق کی انکاری تھیں۔ بعد میں جب پی ایل او نے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی حل کو مان بھی لیا تب بھی ان سے کیے گئے معاہدے بالائے طاق رکھے گئے، اور فلسطینیوں کی شدید حق تلفی اور استبداد جاری رہا۔ اس کے نتیجہ میں اسی کی دہائی میں ایک تحریک شروع ہوئی جسے فلسطینی انتفاضہ کہتے ہیں۔ اس کے معنی استبداد کا جوا اتار پھینکنا بھی ہوتے ہیں۔

اسی انتفاضہ میں ہم وہ منظر دیکھتے ہیں جب ممتاز فلسطینی دانشور ایڈورڈ سعید ؔ، جبر کی اسرائیلی علامت پر پتھر پھینکتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ ایڈورڈ سعیدؔ کے نام سے واقف تو ہوں گے۔ اگر نہیں تو ان کا مختصر تعارف یہ ہے کہ وہ ایک عیسائی نژاد فلسطینی دانشور تھے۔ جو ظلم کے خلاف مزاحمت کاروں کی صف اول میں شامل تھے۔ وہ امریکہ میں مقیم تھے، اور وہاں کی ایک بڑی جامعہ سے منسلک تھے۔ ان کی بعض کتابیں اور استعماریت کے خلاف ان کی فکر کلاسیک کا درجہ رکھتی ہیں۔ وہ یاسر عرفات اور دیگر فلسطینی رہنماؤں اور پاکستانی دانشوروں کے بھی دوست تھے جن میں فیض احمد فیض، اقبال احمد، اور آغا شاہدؔ علی، شامل ہیں۔

ایڈورڈ سعید کا ایک قول ہے کہ، ”آپ کسی اور کو مسلسل ظلم کا نشانہ اس وجہ سے نہیں بنا سکتے کہ آپ خود بھی ظلم کا شکار رہے تھے۔“ ان کا ایک اور اہم قول ہے کہ، ”اسرائیل ہماری نا اہلی، اور ناکامی کا پیمانہ ہے۔ ہم نے سالوں کسی عظیم رہنما کا انتظار کیا، لیکن کوئی نہیں آیا۔ ہم نے جنگ میں کسی بڑی فتح کی توقع کی لیکن ہم نے ہمیشہ شکست کھائی۔ ہم نے بڑی طاقتوں کی مدد کا انتظار کیا جن میں امریکہ اور روس دونوں ہی شامل ہیں، لیکن کوئی آگے نہیں بڑھا۔ ایک چیز جس کی ہم نے کبھی کوشش نہیں کی وہ سنجیدگی کے ساتھ خود پر اعتماد اور خود انحصاری تھی۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے ہم خود اختیاری حاصل کرنے اور استبداد سے آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔“

شاید یہی وجہ تھی کہ ایڈورڈ سعید نے بھی حضرت داؤد کی طرح ہاتھ میں پتھر اٹھا کر جارح کو للکارا تھا۔ وہ ہمیں یہ بھی سکھا گئے کہ اسرائیلی سے حقوق حاصل کرنے کی جنگ کوئی مذہبی جنگ نہیں ہو سکتی بلکہ ایسا صرف رنگ و نسل و مذہب سے بالا تر ہو کر انسانی حقوق کی بنیاد پر ہی ہو سکتا ہے۔ اور یہ کہ دانشور کا اصل منصب ظلم و استبداد کے خلاف فکری اور عملی مزاحمت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments