کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ ۔۔۔ تبصرہ


ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی کالموں پر مشتمل کتاب کا دلچسپ عنوان اور رنگین تتلیوں سے مزین خوشنما سرورق کسی افسانوی قصے کے نازک اندام کرداروں کا تصور ذہن میں ابھارتا ہےلیکن اسی سرورق کے نچلے حصے پر بنے مسخ شدہ پیروں کی تصویر دیکھ کر ذہن میں کھٹکا سا لگتا ہے جو کہانی کے کسی اور ہی رُخ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کتاب کے عناوینِ فہرست کا ایک طائرانہ جائزہ یہ باور کرا دیتا ہے کہ ذہن میں لگا کھٹکا بالکل درست ہے؛ سو سرورق پر بنے اسی منظرنامے کی بدولت ذ ہن میں لگے کھٹکے نے بہت دن تک کتاب کی قرات سے باز رکھا۔
سرورق پر بنے یہ مسخ شدہ پیر ، دراصل پدرسری نظام کی حاکمیت اور بالادستی کے نتیجے میں عورت پر کیے جانے والے ظلم و استحصال کی علامت ہیں اور تتلیوں کے پروں کے نہایت بےدردی سے مسلے جانے کی دل دہلا دینے والی داستان سناتے ہیں۔ تین سو صفحات پر پھیلی یہ کتاب معاشرے میں صنفی امتیاز کی بنیاد پر عورت کے بنیادی انسانی حقوق سے محرومی کے کئی تلخ حقائق کے مکروہ منظرنامے دکھاتی ہے۔ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی کہیں مذہب اور کہیں سماج کی جاہلانہ فرسودہ روایات کے نام پر عورت سے نہایت سفاکانہ سلوک کیا جاتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اس بربریت کو نام نہاد مردانہ غیرت و حمیت کی توقیر میں اضافے کا سبب اور خواتین مخلوق کے لیے سبق سکھانے کا گُر بتایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ذہنی اور عملی اعتبار سے معاشرے کا رویہ عورت کے لیے کچھ زیادہ نہیں بدلا۔ معاصر عہد میں اس پدرسری استحصالی نظام کے خلاف اپنے ضمیر کی آواز بلند کرنے کے لیے ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے جہاد باالقلم کا راستہ اختیار کیا ہے۔ عورت خواہ کسی معاشرے یا خطے کی ہو، ننھی معصوم بچیوں سے لے کر نو عمر لڑکیوں ، ازدواجی رشتے میں بندھی عام گھریلو خواتین یا زندگی کے کسی مرحلے پر معاشرے میں اپنا مقام بناتی اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی کوئی عورت ہو، وہ سماج کی نام نہاد روایات کی بنا پر استحصالی زنجیروں میں جکڑ بند خواتین کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں اور شرمناک رویوں پر کاری ضرب لگاتی ہیں۔ قصہ محض جنسی کشش کے لیے کنول پھول پیروں کی صورت میں چین کی خواتین کے ساتھ برتے جانے والے غیر انسانی سلوک کا ہو، افریقہ میں جنسی تشدد کا شکار ہونے والی بچیوں اور عورتوں کا، ایران کی رومینہ کے ناحق قتل کا یا پاکستان میں فرسودہ اور جاہلانہ ریتوں کی بھینٹ چڑھنے والی ننھی معصوم بچیوں (زینب،فرشتہ،صفیہ ، زبیدہ ،گُل سما) کے ساتھ کی جانے والی بربریت کا یا سرِعام مختاراں مائی کے ساتھ کیے جانے والے انسانیت سوز سلوک کا، ڈاکٹر طاہرہ عورت کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور اس کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں اور شرمناک رویوں کی پُر زور مذمت کرتی ہیں ۔ وہ پدرسری نظام کے کارفرما مہروں کو، خواہ وہ کوئی قلم کار ہو یا سیاستدان، میڈیا انڈسٹری سے وابستہ کوئی شخصیت ہو، مذہب کا لبادہ اوڑھے کو ئی مُلا یا اعلیٰ منصب پر براجمان کوئی عہدے دار، اپنے آہنی قلم سے خوب آڑے ہاتھوں لیتی ہیں اور ان کے اصل چہروں کو آشکار کرتی ہیں۔ مختلف مسالک کے مذہبی نمائندوں کی اپنے فرائض سے روگردانی نیز اپنے عہد اور سماج کے تقاضوں کے برعکس اجتماعات میں گمراہ کن خطابات، فاش غلطیوں اور عجیب و غریب فتووں پر معنی خیز سوالات اٹھاتی ہیں۔
یوں تو اس کتاب میں کوئی با ضابطہ تھیوری نہیں لیکن پدرسری نظام کیا ہے؟ یہ کیسے کام کرتا ہے؟ اس کی حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف ادوار میں کون کون سے حربے استعمال کیے جاتے رہے اور بدلتے وقت کے تقاضوں کے کے ساتھ ساتھ استحصالی صورتوں کو کس طرح برقرار رکھا جاتا ہے، عورت کی حق تلفی کی کیا کیا صورتیں اختیار کی جاتی ہیں؛ یہ سب اور ان جیسے کئی سوالات کا جواب فراہم کرنے اور پدرسری نظام کی حاکمیت کا چٹھا کٹھا کھول کر رکھ دینے والی یہ کتاب تانیثی شعور اور اس کے ادراک کو لاشعوری طور پر قارئین کے گوش گزار کرنے کی ایک کاوش ہے مگر اس کو پُر اثر بنانے میں عرضِ ہنر کے سلیقے کا بڑا ہاتھ ہے۔
ایک لحظے کو یہ خیال مضطرب کرتا ہے کہ طرح طرح کی اذیتوں کا شکار ہونے والی خواتین کے کرب و اذیت کو دورانِ مسیحائی بہت قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کے بعد اتنے دلخراش اور خونچکاں واقعات کو قلمبند کرنے کا عزم اور حوصلہ مصنفہ نے کیسے کیا ہوگا؟ وہ کرب جو اس کتاب کی سطروں میں سرایت کیا ہوا ہے، اسے کس طرح بیان کیا ہوگا؟ اونچی نیچی راہوں کو ہموار کرنے کی کوشش اور تاریکیوں کو منور کرنے کے لیے روشنی کہاں سے اخذ کی ہوگی؟ تو دورانِ قرات ہی یہ راز آشکار ہو جاتا ہے کہ اماں خدیجہ، حضرت فاطمہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا جیسی مضبوط خواتین کے کردار سے انھوں نے یہ ہمت ، حوصلہ اور روشنی کشید کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments