جنگ بندی: فلسطین میں امن کا ضامن کون؟


21 مئی 2021 ء کو جمعہ کی شب رات گئے غاصب اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر مسلط کی گئی گیارہ روزہ ہلاکت خیز جنگ بند ہو گئی مصر اور امریکہ کی ثالثی کے نتیجہ میں اسرائیل نے جنگ بندی کی پیش کش کی اور حماس نے اس پیش کش کو دو شرطوں کے ساتھ قبول کر لیا دو شرطوں میں مسجد اقصیٰ میں فوجی دخل اندازی سے گریز ’اور شیخ جراح کے علاقے سے تین مسلم خاندانوں کو زبردستی بے دخل کرنے سے گریز شامل ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ہر چند کہ جنگ بندی ہو چکی ہے۔

20 مئی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس نیو یارک میں منعقد ہوا اس اجلاس میں عرب اور مسلم ممالک شامل تھے اور جن میں ترکی ’پاکستان‘ ملائشیا ’انڈونیشیا‘ برونائی پیش پیش تھے اس کے علاوہ چین اور روس جیسی طاقتیں بھی مسلم ممالک کے ساتھ کھڑی نظر آئیں اجلاس میں ترکی ’پاکستان‘ ملائشیا ’ایران اور فلسطین کے نمائندوں نے اسرائیلی دہشت گردی کو بے نقاب کرتے ہوئے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل نے اپنے خطاب میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت پر زور دیا کہ مشرقی بیت المقدس میں یہودی آباد کاری کی کارروائیاں اور مسلمانوں کے مکانوں کی مسماری اور باشندوں کی جبری بے دخلی سے باز آئے۔

عالمی برادری کے دباؤ اور فلسطینی مسلمانوں کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بننے پر اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے۔ گیارہ دن کے بعد جنگ بندی ہو گئی 232 فلسطینی مسلمان اسرائیل کی جانب سے مسلط کی گئی جنگ میں شہید ہو گئے جن میں 65 بچے بھی شامل تھے اس جنگ میں اسرائیلی فوج کی صرف بارہ ہلاکتیں ہوئیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس قدر غیر متوازن ٹکراؤ ہوا اور فلسطینیوں کا جو نقصان ہوا اس کا اندازہ لگانا دشوار ہے۔

ایک لاکھ فلسطینی مسلمانوں کے سروں سے چھتیں سرک گئی ہیں اسرائیل کی جانب سے کی گئی کھلی دہشت گردی اور خون ریز جنگ کے دوران تباہی ہوئی تباہ ہوئی ان تباہ حال علاقوں کی از سر نو تعمیر کے لئے اربوں ڈالر درکار ہیں۔ خون ریز جنگ کے بعد نقصانات کے جو اعداد شمار سامنے آئے ہیں گو اس کے ازالہ کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن جو ڈھائی سو کے قریب فلسطینی مسلمان قبلہ اول کی حفاظت اور حرمت پر قربان ہو گئے ہیں اس کا ازالہ کسی طور بھی ممکن نہیں ہے فلسطین میں دیرپا مستقل امن کے لئے عالمی قوتوں اور مسلم ممالک کو ٹھوس لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے یہ فکر مند سوالات جواب طلب ضرور ہیں کہ یہ سیز فائر دیرپا ثابت ہو گی اور کیا توسیع پسند ’جارح‘ بد مست اسرائیل پھر وحشی پن کا مظاہرہ تو نہیں کرے گا؟

کیونکہ اسرائیل کے فلسطین پر کیے گئے مظالم کی تاریخ بڑی طویل ہے۔ اقوام متحدہ نے فریقین پر جنگ بندی کی پاسداری کے لئے ضرور زور ڈالا ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ عالمی امن کی پاسبان و نگہبان کہلانے والی جملہ بڑی طاقتیں اسرائیلی جارحیت کو لگام کسنے کی قوت سے محروم ہیں اور یہ صورتحال فلسطین میں قیام امن کے لئے بڑی تشویشناک ہے اور یہی وجہ ہے کہ درندہ صفت منہ زور اسرائیل کسی نہ کسی بہانے مظلوم و مقہور فلسطینیوں پر وقفے وقفے سے مظالم ڈھاتا رہتا ہے۔

مسلم ممالک کے حکمرانوں میں کیا اتنی اخلاقی جرات ہے کہ بے شرم عالمی قوتوں سے پوچھ سکے کہ 66 کم سن فلسطینیوں کو ابدی نیند سلا دینا اور سو کے قریب خواتین کو شہید کر دینا حیوانیت نہیں تو اور کیا ہے حقائق تک پہنچنے کے لئے راکٹ سائنس کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں اسرائیلی وزیر اعظم کی دو سو سے زائد فلسطینی مسلمانوں کو شہید کرنے کا دعویٰ کس قدر مضحکہ خیز اور فرعونی ذہنیت کا عکاس ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کا جنگی جنون بچوں ’عورتوں اور بزرگوں کو بھی جنگجو قرار نہیں دے رہا؟

امریکہ سمیت ان تمام اسرائیل نواز طاقتوں سے دریافت کرنا ایسے میں لازمی ہے کہ حق دفاع کے نام پر خواتین ’بچوں‘ بزرگوں اور عام فلسطینیوں کے قتل عام کا لائسنس اسرائیل کو کس نے دیا؟ امریکہ سمیت اسرائیل کی پشت پر کھڑی عالمی طاقتیں (حماس کو دہشت گرد قرار دے کر بھی) فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کو جائز قرار نہیں دے سکتیں مسلم امہ کے حکمرانوں کی بے حسی دیکھیے کہ ظالم کو ظالم اور قاتل کو قاتل کہنے کی ان میں جرات نہیں ہے۔

امن عالم کے ٹھیکیداروں میں سے کسی نے بھی عام فلسطینیوں کے قتل عام پر نہ تو اسرائیلی جارحیت ’دہشتگردی کی سرزنش کی ہے اور نہ ہی اسے جنگی جرائم کا گنہگار ٹھرایا ہے جو اس بات پر مہر تصدیق ہے کہ عالمی قوتوں کی نظر میں فلسطینیوں کی زندگی کیا معنی رکھتی ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان 2014 ء کے بعد اب تک کا یہ سب سے بڑا تنازع تھا عالمی قوتوں کا اسرائیل کو فلسطینی مسلمانوں کے خلاف تشدد‘ دھمکیوں اور اشتعال انگیزیوں سے روکنے کی بجائے حمایت کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ سمیت عالمی صیہونی و دجالی قوتوں کے ہاتھ فلسطینی مسلمانوں کے خون ناحق سے رنگے ہوئے ہیں۔

ان حالات میں فلسطین میں امن کا ضامن کون بنے گا بظاہر حالات ایک بار اس خون ریز جنگ کو تو روک سکے ہیں لیکن اس بات کی ضمانت کوئی بھی عالمی ادارہ اور قوتیں دینے سے قاصر ہیں کہ مستقبل میں اسرائیل دوبارہ ایسی سفاک اور ناپاک حرکت نہیں دہرائے گا جس سے مسلم امہ کے دل رنجیدہ ہوں۔ فلسطین کے ساتھ مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کا مسئلہ زندگی موت کے ساتھ جڑا ہوا ہے فلسطین کسی بھی ایک مسلم ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ تمام امت مسلمہ کا مسئلہ ہے ابھی موقع ہے مسلم ممالک کو اپنی صفوں میں دراڑوں کو ختم کرتے ہوئے دنیاوی مفادات کو پس پشت ڈال کر فلسطینی مسلمانوں کی پشت پر کھڑا ہونا چاہیے جو اسرائیل کی جارحیت اور قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لئے اسرائیل کے خلاف کل کی طرح آج بھی سیسہ پلائی دیوار کی مانند قوت ایمانی کے ساتھ کھڑے ہیں۔

عرب اور مسلم ممالک کو چاہیے کہ اتحاد کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور انصاف پسند ممالک کو ساتھ لے کر جارح اسرائیل کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 242 ( 1967 ) کے مطابق سنہ 1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضے میں لئے گئے فلسطینی علاقے خالی کرے پھر آزاد فلسطین ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو اگر اسرائیل اس پر آمادہ نہ ہو تو پھر اسرائیل کا مسلم ممالک عالمی سطح پر بائیکاٹ کریں۔

مشرق بعید میں اس علاقے اور مسجد اقصیٰ کا کیا ہوگا مسجد اقصیٰ پر اسرائیل کی افواج کی جانب سے جس طرح کی شرمناک یلغار کی گئی ہے وہ بے حد کربناک ہے اس کا کوئی علاج ممکن ہے آنے والے وقتوں میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ کہ دو ریاستیں مل جل کر رہیں گی اسرائیل اور فلسطین کیا متحدہ فلسطین کا قیام بھی آسان ہے؟ فلسطین کے موجودہ المناک واقعات اور حالات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے قبلہ اول اور فلسطینی مسلمانوں کے خلاف صیہونی و دجالی قوتیں ایک بھیانک سازش پر عمل پیرا ہیں جس کا حل وقت کی اشد ضرورت بن چکا ہے مسلم ممالک کے حکمران اپنے گریبانوں کو ٹٹولیں کہ وہ غیرت ایمانی کی کس سطح پر کھڑے قبلہ اول اور اپنے فلسطینی مسلمان بھائیوں کی حفاظت کے لئے کیا کردار ادا کر رہے ہیں یا پھر دنیاوی مفادات کے حصول کی کوششوں میں اس سلگتے مسئلہ کے خاتمہ کے لئے قیامت کا انتظار کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments