مرغیوں کا ڈربا ہے اور ہم ہیں دوستو!


پاکستان کی ”غربت“ میں ایک اہم کردار ”جنگی صورتحال“ کا بھی رہا ہے۔ پاکستان ہی کیا، کہتے ہیں کہ دنیا کا ہر وہ ملک جس کے ہمسائے دشمن ہوں، وہ آپس میں لڑتے رہتے ہوں یا انہیں ہر وقت ہمسائے کی جانب سے جنگ مسلط کیے جانے کا خدشہ ہو وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا زیادہ تر بجٹ جنگی آلات خریدنے یا دفاع کو مضبوط بنانے میں خرچ ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی غربت میں بھارت کو اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اس صورتحال کو ذہن میں رکھیں اور پھر ایک نظر اسرائیل کے نقشے پر دوڑائیں۔

مغربی ایشیا کے اس ملک کے مشرق میں اردن، شمال مشرق میں شام، جنوب مشرق میں فلسطین، مغرب کی جانب غزہ کی پٹی، شمال کی جانب لبنان اور جنوب میں مصر، خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر واقع ہیں۔ اتنے سارے اسلامی ممالک میں گھرا ہوا یہ ملک کیا واقعی اتنا امیر ہو گیا ہے کہ جنگ کا خرچا آسانی سے برداشت کر لیتا ہے؟ کیا یہ ملک واقعی اتنا طاقتور ہے کہ کئی سالوں سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کرتا چلا جا رہا ہے یا معاملہ کوئی اور ہے؟

اگر پاکستان کو صرف ایک جانب سے دشمن کا سامنا ہو تو اس کی ترقی کا سفر ”رک“ سکتا ہے تو پھر اسرائیل کے بارے میں سوچیں جس کے چاروں جانب اسلامی ملک واقع ہوئے ہیں۔ اسرائیل کا کون سا ایسا فضائی یا زمینی روٹ ہے جو اسلامی ممالک کی فضا یا زمین سے ہو کر نہ جاتا ہو؟ اگر ایسا ہی ہے تو اسرائیل کی اس دلیری میں اصل کردار کس کا ہے ؛اسرائیل کی طاقت کا، فلسطینیوں کی بزدلی کا یا اسلامی ممالک کی بے حسی کا؟

سچی بات تو یہ ہے اسرائیل شیر نہیں لیکن اس نے کہانی والے اس جنگلی شیر کی چال چلی ہے جس نے جنگل کے متحد ”بیلوں“ میں نفاق ڈال کر انہیں الگ الگ کر دیا ہے اور ایک ایک کر کے ان شکار کر رہا ہے جبکہ بیل اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ محفوظ ہیں۔ وہ اپنے اس تصور میں غلطاں ہی رہیں گے اور جب ”شیر“ کا پنجہ ان کی گردن تک پہنچے گا تو انہیں احساس ہو گا لیکن اس وقت پانی سر سے اوپر ہو گا۔ اگر اسرائیل اتنا طاقتور ہوتا تو اب تک مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر ہو چکا ہوتا اور اگر فلسطینی بزدل ہوتے تو اب میدان چھوڑ کر بھاگ چکے ہوتے لیکن وہاں تو صورتحال یہ ہے کہ ٹانگوں سے محروم لوگ، عورتیں اور گھٹنوں کے بل چلتے بچے بھی میدان میں ہیں۔ پھر مسئلہ ہے کیا؟

مسئلہ وہی ہے جس کی جانب نبی کریم ﷺ نے نشاندہی فرمائی تھی کہ (مسلمانوں کے مقابلے میں ) کفر ایک ملت ہیں۔ ٹھیک اس وقت جب اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا تھا، امریکا اسلحے کی ایک بڑی کھیپ اسرائیل کو پہنچانے میں مصروف تھا اور ”اقوام متحدہ“ غنڈوں میں گھری رضیہ کی طرح بے بسی کی تصویر بن ہوئی تھیں۔ آج تک سمجھ نہیں آئی کہ آخر کس معاملے میں یہ اقوام متحد ہیں اور مسلمان ممالک اس اتحاد سے لینا کیا چاہتے ہیں؟

کشمیر، فلسطین، بوسنیا، شام، لیبیا، عراق، افغانستان یا کسی بھی اسلامی ملک، بلکہ یوں کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں مسلمانوں کے تحفظ تو کجا ان کے بچاؤ کی خاطر بھی کبھی اس اقوام متحدہ کی جانب سے کوئی ایکشن لیا گیا؟ جبکہ اس کے مقابلے میں اس کے برعکس کئی مثالیں موجود ہیں۔ مسلمانوں کی نشل کشی میں وہ سب متحد بلکہ اسلامی ممالک کے حکمران بھی ان کے شانہ بشانہ ہیں لیکن جہاں مسلمانوں کے جائز حقوق کی بات وہاں سب ستو پی لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج ہر اسلامی ملک کے مسلمان اپنے ہی ”آزاد“ ملک میں اجنبیوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ یعنی امت مسلمہ ”برائلر“ بن چکی ہے۔

جب ہم چکن خریدنے جاتے ہیں تو ہاتھ میں چھری پکڑے مرغیوں کے لیے ”عزرائیل“ بنا شخص ہماری مطلوبہ مرغی کی تلاش میں ایک نظر اس پنجرے پر دوڑاتا ہے جس میں مرغیاں بڑی ”آزادی“ سے دانہ دنکا چگ رہی ہوتی ہیں۔ کسی ایک مرغی کا انتخاب کر کے وہ پنجرے کا دروازہ کھولتا ہے اور جب اسے پکڑنے کے لیے ہاتھ پنجرے میں ڈالتا ہے تو ایک لمحے کے لیے سب مرغیوں میں ہلچل پیدا ہوتی ہے لیکن وہ دفاع کے لیے آگے آنے کی بجائے بچنے کے لیے پیچھے کی جانب ایک محفوظ پوزیشن لے لیتی ہیں۔

جب مطلوبہ مرغی پکڑ لی جاتی ہے تو باقی مرغیاں پھر ”دانے پانی“ میں مصروف ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ مطمئن ہو جاتی ہیں کہ وہ بچ گئیں ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا شعور ہی نہیں کہ وہ تب تک محفوظ ہیں جب تک اگلا گاہک نہیں آ جاتا۔ ایک ایک کر کے ان کی موت یقینی ہے لیکن شاید ان کی کل کائنات صرف ”کھانے پینے“ تک ہی محدود ہے۔

یہ بھی پرانی بات ہے۔ اب تو جب ”عزرائیل“ نما شخص کا ہاتھ پنجرے کی طرف بڑھتا ہے تو مرغیوں میں ہلچل تک پیدا نہیں ہوتی چہ جائیکہ چھری تلے تڑپتی پنی ہم جنس کے لیے صدائے احتجاج بلند ہو۔ یہ بات مجھے یوں بھی یاد آئی کہ جب پہلی بار مسجد اقصیٰ میں خون کی ہولی کھیلی گئی تو احتجاج اتنا شدید تھا کہ رد عمل میں او آئی سی تک بن گئی تھی لیکن اس بار بہت سے ”مسلم“ ممالک لاتعلق رہے۔ جو بولے وہ بھی بس عوام کو مطمئن کرنے لیے اور ان میں بھی سرکاری سطح پر ترکی کے علاوہ کسی کا موقف جاندار نہیں تھا۔ یعنی برائیلر مرغیوں کی طرح بات ہلچل سے بے حسی تک آ گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments